شعبان المعظم، استقبال رمضان کا مہینہ

 اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم نفلی روزوں اور عبادات کے لیے انتہائی فضیلت والاہے۔ اس ماہ کی فضیلت کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ رمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔ رمضان المبارک کے استقبال اور عبادت کی تیاری ہی کی وجہ سے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مہینے میں خصوصیت سے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے ’’ اے اﷲ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا‘‘۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کون ساہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شعبان کا، رمضان کی تعظیم کے لیے۔(ترمذی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایایعنی جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ علماء کرام نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے،ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو بلکہ کھاؤ پیو اور طاقت حاصل کرو تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھے جاسکیں اور تراویح و دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دی جاسکے ۔ جبکہ امت میں ایسے لوگ جو کہ طاقت رکھتے ہیں اور شعبان المعظم کے نفلی روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ نصف شعبان کے بعد بھی نفلی روزے رکھ سکتے ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمتہ اﷲ فرماتے ہیں’’میرا ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان المبارک میں شب کو جو جاگنا ہوگا ، شعبان المعظم کی شبوں میں جاگنا اس کا نمونہ ہے اور شعبان المعظم کے نفلی روزے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا نمونہ اور عادی بناناہے۔ اورآدھے شعبان کے بعد روزوں سے جو منع فرمایا گیا ہے یہ در حقیقت رمضان المبارک کی تیاری کے لیے فرمایا گیا ہے یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتی ہیں میں نے ایک رات نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم (مدینہ طیبہ کے قبرستان) بقیع میں ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا ’’ کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اﷲ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘( مشکوٰۃ شریف )۔قبیلہ بنوکلب عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جس کے پاس عرب کے تمام قبائل سے زیادہ بکریاں تھیں۔احادیث مبارکہ کے مطابق چونکہ اس رات میں بے شمار گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذاب جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عرف میں اس رات کا نام ’ شب برائت‘ مشہور ہوگیا البتہ! حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں آیا، بلکہ’’ لیل النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعبان کے مہینے کی آخری تاریخ میں خطبہ دیا اور فرمایا’’ اے لوگو! تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شب قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اور رمضان میں اہتمام سے کئے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔ بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اﷲ ربّ العزت ہمیں اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بنائے ۔ اور رمضان المبارک کے استقبال و عبادات کے لئے تیاری کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں کی مغفرت فرمائے ، آمین ۔
 

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817832 views Journalist and Columnist.. View More