مقصدِ حیات۔۔۔!

حکیم کا کوئی بھی کارنامہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘ اُس میں حکمت کہیں نہ کہیں مخفی ضرور ہوتی ہے‘ تو یہ کیسے ممکن ہے جو حکیمِ اعظم ہو اُس کے کسی فعل یا کسی تخلیق میں حکمت نہ ہو؟ اللہ رب العزت نے ” کن فیکون“ کا نغمہ چھیڑ کر اِس کائنات کی ابتداءکی ‘ جو اب تک وُسعت پذیر ہے۔ یوں تو اِس کائنات میں خالق کی بے شمار مخلوقات ہے لیکن اُس نے جو شرف ” حضرتِ انسان“ کو عطا فرمایا وہ کسی اور کو حاصل نہیں” مسجودِ ملائک “و ”خلیفة اللہ الیٰ الارض “ کا تاج پہنا کر اپنی کل مخلوق میں امتیازی حیثیت عطا فرمائی۔ اور پھر ” الست بربکم “ کا عہد لے کر بطورِ امتحان حکمِ سفر جاری کیا کہ دیکھیں کون اپنے عہد پر قائم رہتا ہے اور کون جفائے عہد کرکے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ اور جب انسانوں کو دنیا کے پیچ و خم راستوں اور قدم بہ قدم پر شیطان کے بچھے ہوئے جالوں کا سامنا ہوا تو انسان نے صراط الرحمن چھوڑ کر صراط الشیطان اختیار کیا اور جہل و کفر و گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنا شروع کیا تو پرور دگار نے انسانوں کی رشد و ہدایت رہبری و رہنمائی کے لئے انبیاءو مرسلین کا سلسلہ شروع کیا جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھی راہ دکھانے سمجھانے اور اُس پر چلانے کے لئے وقتاََ فوقتاََ آتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات وعید و نوید سمیت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے‘ یہاں تک کہ پروردگار نے قرآن و صاحبِ قرآن حضور ختمی مرتبت رحمة اللعالمین جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھیج کر اتمامِ حجت و اتمامِ نعمت فرمادی اور بتادیا گیا کہ جو قرآن و سنت کو تھامے رکھے گا (قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا) وہی کامران و کامیاب اپنی منزل کو پہنچے گا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آج قرآن و سنت کا فقط نام رہ گیا اُس کے احکامات کو ہم نے فراموش کردیا‘ اُس کی تعلیمات سے ہم نا آشنا ہوگئے‘ آج ہم ہزار ہزار صفحات کے ناولز بھرپور دلچسپی کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں لیکن قرآنِ مجید کا ایک صفحہ پڑھنا بھی بارِ گراں گزرتا ہے اور اگر پڑھ بھی لیں تو دلجمعی نہیں آتی سنت پر عمل کرنے میں ہمیں اپنی تحقیر محسوس ہوتی ہے‘ ایک خاص طبقہ نے تو قرآن و حدیث کو فقط اپنے مذہب کے دفاع ، کفر کے فتوﺅں اور مناظروں کے لئے مخصوص کرلیا ہے‘ قرآن کا پیغام کیا ہے وہ کیا درس دے رہا ہے ہمیں نہیں معلوم‘ قرآن ہم سے کس طرز کی زندگی گزارنے کا تقاضا کرتا ہے ہمیں نہیں معلوم‘ اِس آفاقی کلام میں قدرت کے کیا راز پوشیدہ ہیں ہمیں نہیں معلوم اور معلوم ہوں بھی کیسے ؟ جب کہ کوئی معلوم کرنے والا ہی نہ رہا کوئی متلاشی ہی نہ رہا بقول علامہ اقبالؒ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ؟ رہ روِ منزل ہی نہیں

خالقِ کائنات کی نشانیوں میں اُس کے اسرار میں اُس کے کلام میں ہم نے غور و فکر ‘ تدبر و تفکر کرنا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کیوں پیدا کئے گئے ؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ حیات کیا ہے؟ ہماری منزل کیا ہے ؟ ہم نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ہم نے حقیقت کو پانے کی جدوجہد ہی نہیں کی ورنہ بقول علامہ اقبالؒ
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

در اصل ہم مادیت پرستی اور دنیا کے گورکھ دھندوں میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی سلب ہوچکی ہے ہم صرف خود پرستی ‘ خود بینی و خود نمائی میں لگے ہوئے ہیں ‘ ہم نے فقط کھانے پینے ‘ نسلِ افزائش اور لذات و آسائشات کے حصول کو ہی اپنا مقصدِ حیات سمجھ لیا ہے۔اگر ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں یا ہمیں مقصدیت کا شعور ہی نہیں تو دیگر مخلوقات سے ہماری امتیازیت کہاں رہی ؟ کیونکہ علم و شعور ہی وہ نعمتِ خداوندی ہے جو ہمیں دیگر مخلوق سے ممتاز بناتی ہے اور اسی سے ہم خیر و شر ‘ حق و باطل میں تفریق کرتے ہیں‘ تو جب ہمارے پاس علم ہی نہ رہا شعورِ زندگی ہی نہ رہا تو اِس ”لاصل “ زندگی کا کیا فائدہ جس سے ہم نہ خود کچھ کرسکیں اور نہ فلاح و اصلاحِ خلق کا کام کرسکیں بقول علامہؒ
یہی آئینِ قدرت ہے یہی اُسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن وہی محبوبِ فطرت ہے

بنی اسرائیل کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ :” اپنا فولادی عصا لے کر زمین میں چلو اور ہر جدید و عبرت انگیز شے کی جستجو کرو اور اُس وقت تک ہماری حکمت و نعمت کا مشاہدہ کرتے رہو جب تک جوتے گھس نہ جائیں اور عصا ٹوٹ نہ جائے۔“ اور کلامِ الٰہی قرآنِ مجید فرقانِ حمید بھی جابجا عقل والوں کو یہی دعوتِ فکر دے رہا ہے کہ اُس کی کائنات میں اُس کی تخلیق میں اُس کی نشانیوں میں غور و فکر کرو تاکہ تمہیں معرفت حاصل ہو اور نظامِ فطرت میں عجائباتِ قدرت میں پروردگار کی حکمت و نعمت میں لمحہ بھر کا غور و فکر بھی کئی سالہ بے ذوق عبادت سے افضل ہے۔

تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنی سمت کا تعین کریں دیکھیں کہ ہم جس سمت پر گامزن ہیں جس راہ پر چل رہے ہیں اُس کی منزل کیا ہے ؟ اُس کا انجام کیا ہے؟ کیا جن پر انعام کیاگیا ہم اُن کی راہ پر گامزن ہیں ؟ یا جن پر غضب کیا گیا اُن کے راستے پر چل رہے ہیں ؟ کیونکہ محوِ سفر تو سبہی ہیں لیکن اس بات کا علم و شعور ہونا چاہئے کہ ہدایت کے راستے پر یا گمراہی کے راستے پر ؟ اور ہدایت کا راستہ وہی ہے جو قرآن و سنت کا راستہ ہے اور اس کا عملی نمونہ ترجمانِ توحید نمائندئہ خدا جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں اس کو چھوڑ کر اور جو کوئی راستہ اختیار کرے وہ گمراہی کا راستہ ہے‘ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ذکر جس کا ہے سورہ فاتحہ میں
وہ صراطِ مستقیم آپﷺ ہی تو ہیں

Muhammad Usama Siddiqui
About the Author: Muhammad Usama Siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.