بسم اللہ الرحمان الرحیم
کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربّک ذوالجلال۔ سورۃ رحمان آیت نمبر27۔
ہر چیز جو اس زمین پر ہے۔ فانی ہے۔مگر تیرے رب کا جاہ و حشم باقی رہے گا
جوصاحب جلال و اکرام ہے۔
وجہ ربک کےمعنی اللہ تعالی کا چہرہ ہے۔جس سے مراد اللہ تعالی کا وجود اور
رضائے الہی ہے۔
جب ہم اپنی اس کائنات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر دنیا کی
ہر چیز کچھ عرصہ کے بعد فنا ہوجاتی ہے۔اس کا نام و نشان صفحہ ہستی سےمٹ
جاتا ہے،لہلہاتے تناور درخت زمین بوس ہو کر خاک و خاکستر ہو جاتے ہیں۔
آبادیاں ویران ہوجاتی ہیں۔بلندو بالا عمارات زمین بوس ہو جاتی ہیں۔چرند
پرند ایک محدود سی عمر گزار اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔لیکن یہ سلسلہ
معدوم نہیں ہوجاتا بلکہ ان کے جانے کے بعد اور چرند پرند ان کی جگہ لے لیتے
ہیں۔ نئی آبادیاںاور شہر فلک بوس عمارات کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ابھرآتے
ہیں۔
اسی طرح بنی نوع انسان بھی اس دنیا میں آتا ہے ۔اپنی محدود زندگی گزار کر
راہی ملک عدم ہوجاتا ہے۔ بلکہ پھر کچھ عر صہ کے بعد وہ لوگوں کے دل ودماغ
سے بھی اوجھل ہو جاتا ہے۔ نئی نسلیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔
الغرض ہر چیز فنا ،شکست وریخت اورموت کا شکار ہے۔اس کے باوجود نظام کائنات
پوری رعنائیوں کے ساتھ جاری وساری ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا
خالق ومالک ایک ایسی ہستی ہے ۔جس کو فنا نہیں۔کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا
رہا ہے۔اس کے علاوہ ہر چیز قرآنی ارشاد کل نفس ذائقۃ الموت کے مطابق۔ہر چیز
موت کا ذائقہ چھکنے والی ہے۔
انسان بہت کمزور ہے۔اپنی اوقات کو بہت جلد بھول جاتا ہے۔اللہ تعالی کی چند
ایک نعمتیں ملنے پر خدائی کا دعوی کرنا شروع کردیتا ہے۔اپنے حقیقی خالق
ومالک کو بھول جاتا ہے۔
ہمیں تاریخ عالم میں بہت سے ایسے افراد ملتے ہیں جنہوں نے بہت بلند و بالا
دعوےکئے۔ عملی طور پر خدائی طاقتوں کا مالک بننے کی سعی لا حاصل کی۔لیکن ان
کا عبرت ناک انجام سب کے سامنے ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ فرعون،ہامان اورقریش مکہ جیسے بہت سے لوگوں نے خدا بننے
کی کوشش کی۔مگر کوئی سمندر میں غرق ہو کر اور کوئی اصحاب الفیل کی مانند
ابابیل کی کنکریوں سے تباہ و برباد ہو کر اللہ تعالی کے ابدی وازلی وجود کا
شاہد بن گئے۔
ایک دفعہ محمد علی کلے نے ایک انٹریو میں بتایا کہ ایک زمانہ تھا کہ میں
اپنے آپ کو دنیا کا مضبوط ترین انسان سمجھتا تھا۔لیکن جب مجھے فالج ہوا تو
مجھے احساس ہوا کہ میں کس قدر نادان اور غلط فہمی کا شکار تھا۔کیونکہ اللہ
تعالی نے مجھے عملی طور پر بتادیا کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور وہی اللہ
اکبر ہے۔
اس آیت کریمہ سے مراد یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ جو خدا تعالی کی رضا حاصل کرنے
کے لئے اپنے آپ کو فنا فی اللہ کردیں گے وہ بھی ابدی رحمتوں اور برکتوں کے
وارث ہوجائیں گے۔
انبیاء کرام اور صلحاء عظام کی پاک مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔حضرت آدم
علیہ السلام سے لے کر آج تک سب انبیاء کرام کے نام زندہ وتابندہ ہیں اور
انشاء اللہ تاابد زندہ رہیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں بھی ایسے اعمال سرانجام دینے کی توفیق عطا کرے کہ ہمارے
نام بھی ابدی نعمتوں اور رحمتوں کے وارث بن سکیں۔آمین |