پاکستان کے حالات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے خراب ہیں لیکن
اپنے خیبر پختونخوا کے حالات بچپن سے خراب دیکھتے چلے آرہے تھے اور1980 میں
جب افغانستان سے افغانیوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو حالات مزید
خراب ہوتے گئے. حالات کی خرابی کی وجوہات اور بھی بہت سارے ہیں جس پر بات
کرنا شائد مناسب بھی نہیں لیکن بحیثیت ایک صحافی اور لکھاری میں نے جتنی
بھی کوریج کی اس میں بیشتر دھماکوں/ خودکش حملوں کی کی جس کی بڑی وجہ یہ
نہیں کہ میں کوئی تیس مار خان ہوں بلکہ اس کی وجہ یہی ہے کہ دفتر میں میں
وقت سے پہلے پہنچتا ہوں اور علی الصبح دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے اور
میں ہی اسے کورکرنے کیلئے جاتا تھا سال 2008 میں الیکٹرانک میڈیا جوائن
کرنے کے بعد یہ صورتحال مزید خراب ہوگئی کیونکہ صوبے کے حالات کچھ ایسے بن
گئے کہ صبح و شام دھماکے ہوتے اور کبھی جائے وقوعہ سے اور کبھی ہسپتال سے
کوریج کیلئے بھاگتے رہتے. لیکن..
ان حالات نے اتنا پاگل کردیا تھا کہ جس دن بھی میں دھماکے کی کوریج کرتا تو
اس دن گھر جانے کے بعد میں گھر والوں کو یہ کہہ دیتا کہ برائے مہربانی جس
وقت بھی میں گھر آجایا کروں اس وقت تک میرے ساتھ بات نہ کرو جب تک میں خود
بات نہ کرو اور کم از کم دو گھنٹے تک میرے نزدیک آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ
سارے دن کی کوریج اور دھماکوں کی آوازیں ذہن میں گونجتی رہتی اور لوگوں کی
سسکیاں ، آہیں ، رشتہ داروں کا رونا مسلسل میرے ذہن کو متاثر کرتا . لیکن
اس دوران بھی میں نے ایسے لوگ اپنے ارد گرد دیکھے جنہوں نے امن کے نام پر
دکانداری لگائی اور اس کی آڑ میں بہت کچھ کما لیا. شائد وہ اسے اپنی
ہوشیاری سمجھتے کہ ہم نے دوسروں کو بے وقوف بنا کر بہت سارا پیسہ کمالیا .
لیکن ان سب حالات سے گزرنے کے باوجود بھی میری یہ خواہش رہی کہ ہمارے صوبے
میں امن ہو کیونکہ دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت سارے بچوں کو یتیم ہوتے
دیکھا ، بہت سارے والدین کو اکلوتے بچوں کا جسد خاکی اور بہت ساری
نوبیاہتیا دلہنوں کو بیوہ ہوتے دیکھا.
خیر یہ تو ایک بیانیہ تھا میں اپنے مقصد کی طرف آنا چاہتا ہوں یہ سال 2011
کی بات ہے میں خیبر پختونخوا میں امن کے حوالے سے تربیتی سیشن سے متعلق
انٹرنیٹ پر معلومات لے رہا تھا کہ یکدم تھائی لینڈ سے امن انقلاب کے نام سے
ایک تربیتی سیشن کے بارے میں پتہ چلا. یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں امن
اورانقلاب کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن نہ امن آیا اور نہ انقلاب. البتہ
اس کی آڑ میں بہت کچھ ہوتا رہا.
امن انقلاب کے حوالے سے منعقد ہونیوالے تربیتی سیشن جو کہ تھائی لینڈ میں
ہونا کیلئے میں نے درخواست دیدی. جو کہ ایک روزمرہ کی بات تھی لیکن دوسرے
دن دفتر آکر ای میل چیک کیا تو جواب آیا تھا کہ آپ صحافی ہو ہم آپ کو تربیت
دینے والے سیشن میں بلانا چاہتے ہیں آپ آ جائیں ، ویزہ اور ٹکٹ ہم دینے کو
تیار ہیں. رہائش کا بندوبست بھی ہم کرلیں گے.
بس پھر کیا تھا دل نادان نے سوچا کہ پہلا موقع ہے کہ تربیت کیلئے باہر جانے
کا موقع مل رہا ہے اور وہ بھی مفت میں. صحافی تو ویسے بھی مفت کے شوقین
ہوتے ہیں. یعنی مفت کی ہر چیز صحافی لیتے ہیں اور ایسے لیتے ہیں جیسے کہ ان
کا یہ حق ہو. یہ الگ بات کہ میں بھی صحافی ہوں اور مفت کا میں بھی شوقین
رہا کیونکہ شعبے کا اثر تو ہوتا ہے ویسے بھی ہمارے ہاں پشتو زبان میں ایک
مثل بھی مشہور ہے کہ " دا مفتو شراب خو قاضی ھم سکلے دی"یعنی مفت کی شراب
تو قاضی بھی پیتا ہے.. قاضی سے مراد کسی مذہبی جماعت کے قاضی کا نہیں..
بس پھر کیا تھا تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ادارے نے پاسپورٹ طلب کرلیا
اور میں نے کاپی جلدی سے بھیج دی یہ الگ بات کہ پاسپورٹ میں وقت کم ہی تھا
یعنی معیاد چھ ما ہ ہونی چاہئیے تھی جو کہ اس وقت تین ماہ تھی لیکن پاسپورٹ
بھیجنے کے بعد میں نے دوبارہ اپلائی کریااور اس کیلئے جو دوڑ دھوپ کی کہ
پاسپورٹ وقت پر ملے کہیں مفت کے ویزے اور چکر سے نہ رہ جاؤں. لیکن اب کیا
وہ باتیں دہرانا..
لیکن ایک بات جو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ کسی غریب اور غیر تعلیم یافتہ
شخص کو پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے قصائیوں کے سامنے مجبورنہ کرے ..ممکن ہے کہ
قصائی حضرات پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اپنی تشبیہ پر ناراض ہو تو ان سے
معذرت .
خیر ویزے کیلئے میں نے متعلقہ ادارے سے لیٹر طلب کرلیا اور پھر اپنے ساتھی
دوستوں سے قرضے طلب کرنے شروع کردئیے کہ ویزے کیلئے بینک میں رقم رکھنا
ضروری ہے اور میرے پاس بینک میں رقم نہیں یہ شکر ہے کہ اس وقت ایک صحافی
دوست جو ایک ماشاء اللہ اب سویڈن کا رہائشی ہے اس نے اس وقت اپنے آپ کو
دہشت گردی کا شکار ظاہر کرکے پاکستان سے بھاگنے میں عافیت جانی اس نے میری
مدد کی اور مجھے میری مطلوبہ معلومات فراہم کردیں
(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں
لکھے گئے سفر نامے کی دوسری قسط)
|