کمراٹ — خوابوں کے دامن میں ایک سفر
(Iftikhar Ahmed Awan, Islamabad)
🌿 کمراٹ — خوابوں کے دامن میں ایک سفر تحریر: افتخار ملک
اسلام آباد کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ دھوپ ابھی نرم تھی اور فضا میں وہ مخصوص تازگی تھی جو صرف سفر کے آغاز پر محسوس ہوتی ہے۔ سب ساتھیوں نے اپنا اپنا سامان گاڑی میں رکھا۔ ہر بیگ، ہر چادر، ہر تھیلا جیسے کسی کہانی کا حصہ ہو۔ جب سب کچھ گاڑی میں رکھ دیا گیا، ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا — آنکھوں میں مسکراہٹ، دل میں ایک انجانی لہر۔ گاڑی کے ساتھ کھڑے ہو کر سب نے دعا کی:
“اے خدا! یہ سفر خیر و برکت والا ہو، اور ہم لوٹیں تو دلوں میں یادوں کے پھول لیے لوٹیں۔”
کچھ دوست ہمیں رخصت کرنے آئے۔ ہاتھ ہلائے گئے، قہقہے گونجے، اور گاڑی چل پڑی۔ میں نے گروپ کو راستے میں جا کر جوائن کرنا تھا، اس لیے دل میں ہلکی سی بےچینی تھی — جیسے کوئی محبت پیچھے رہ گئی ہو۔
راستے میں سب نے بریانی نکالی جو ہم ساتھ لائے تھے۔ خوشبو نے پورے ماحول کو گھیر لیا۔ سڑک کے کنارے ہم نے چائے بنائی، بھاپ اٹھتی رہی اور ہنسی کے چھینٹے فضا میں بکھرتے گئے۔ اسی دوران ایک بزرگ قریب آ کر بیٹھ گئے۔ چائے کا کپ تھماتے ہی انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:
“بیٹا، کمراٹ بھول جاؤ گے، خود کو یاد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔” ان کی آنکھوں میں ایسی گہرائی تھی جیسے وہ سب کچھ پہلے دیکھ چکے ہوں۔
شام ہونے سے کچھ پہلے ہم اپر دیر پہنچے۔ وہاں ہمارا ایک نہایت شفیق اور مہمان نواز دوست ہمارا منتظر تھا۔ اس کی مسکراہٹ، اس کے ہاتھوں کی گرمجوشی، اور اس کے لہجے کی مٹھاس — سب نے سفر کی تھکن اتار دی۔ رات اس کے حجرے میں گزری، چائے، قہقہوں اور پرانی یادوں کے درمیان۔ صبح جب سورج کی کرنوں نے درختوں کے پتوں کو چھوا، ہم نے ناشتا کیا، اجازت لی اور کمراٹ کی طرف نکل پڑے۔
راستہ طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھے، فطرت نے اپنے پردے ہٹانے شروع کیے۔ پہاڑوں کے دامن میں دریا کا شور، ہوا میں جنگلی پھولوں کی خوشبو، اور آنکھوں کے سامنے ایک خواب سا پھیل گیا۔ بابِ کمراٹ پر پہنچ کر ہم سب رک گئے۔ تصویریں بنائیں، قہقہے لگائے، اور یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
راستے میں چائے بنائی، مقامی لوگوں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے لسی پیش کی، اور ہم نے خربوزے خریدے۔ شام تک ہم تل بازار پہنچ گئے۔ وہاں ایک پرانی لکڑی کی مسجد تھی — وقت کے لمس سے نکھری ہوئی۔ مسجد کے اندر سکون ایسا تھا کہ دل ٹھہرنے کو کہے۔ ہم نے نماز ادا کی، اس حسین مسجد کے عکس دل میں بسا لیے۔ ہوٹل لیا، چائے پی، کرکٹ کھیلی، رات کا کھانا کھایا اور نیند کے سپرد ہو گئے۔
❄️ کالا چشمہ، گلیشیئر اور واٹر فال
صبح ناشتے کے بعد جیپ نکالی اور کالا چشمہ کی سمت روانہ ہوئے۔ راستہ تنگ مگر دلکش تھا۔ کہیں بہتا پانی، کہیں درختوں کے سائے۔ جب ہم کالا چشمہ پہنچے تو سامنے گلیشیئر ایسے لگ رہے تھے جیسے برف کے دیوتا زمین کو چھو رہے ہوں۔ پانی کی آواز، ٹھنڈی ہوا، اور سورج کی کرنوں سے چمکتی برف — وہ منظر الفاظ سے ماورا تھا۔
وہاں ہم نے پکوڑے بنائے، چائے تیار کی، کرکٹ کھیلی، اور وقاص و خالد نے دن کے کھانے کا شاندار انتظام کیا۔ ہنسی، بھاپ، اور پہاڑوں کی گونج نے اس لمحے کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔ واپسی پر ہم نے ایک دلکش واٹر فال دیکھا۔ پانی چمک رہا تھا جیسے چاندنی زمین پر اتر آئی ہو۔ تصویریں بنائیں، کچھ دیر خاموشی سے بیٹھے، پھر واپسی کے راستے پر نکل پڑے۔
🏔️ جہاز بانڈہ — برف، جستجو اور خواب کی وادی
تیسرے دن سورج کی پہلی کرن ابھی پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھو رہی تھی کہ ہم جہاز بانڈہ کے خواب آلود سفر پر نکلے۔
راستے کے آغاز میں وادی جاگ چکی تھی۔ کھیتوں میں عورتیں جھک کر گندم کے خوشے چن رہی تھیں، ان کے دوپٹے ہوا میں لہرا رہے تھے جیسے رنگوں کے پرچم۔ پاؤں کے پاس مٹی کی خوشبو تھی، اور کہیں دور بچے قہقہے لگاتے، کھیلتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ ان کے ہنستے چہرے اور سورج کی نرم کرنیں ایسا منظر بنا رہی تھیں جیسے زندگی خود ہم سے کہہ رہی ہو:
“سفر صرف پہاڑوں کا نہیں ہوتا، کبھی کبھی راستے میں انسانیت بھی دکھائی دیتی ہے۔”
جیپ جب ان کھیتوں کے قریب سے گزری تو عورتوں نے پل بھر کے لیے سر اٹھا کر ہمیں دیکھا — چہروں پر مسکراہٹ، ہاتھوں میں محنت کی چمک۔ ہم نے ہاتھ ہلایا، اور وہ لمحہ دل میں محفوظ ہو گیا۔
راستہ جیسے جیسے بلند ہوتا گیا، زمین کا رنگ سبز سے سفید ہونے لگا۔ میں اس دن کچھ علیل تھا، مگر دل میں جہاز بانڈہ دیکھنے کی جستجو تھی۔ اس لیے میں نے سفر پیدل طے کیا۔
راستہ دشوار ضرور تھا مگر دلوں میں جوش موجزن تھا۔ پہاڑوں کی خاموشی میں کبھی کسی اجنبی مسافر کی آواز گونجتی، “ہمت رکھو بھائی، تھوڑا سا ہی فاصلہ ہے!” اور ہم بھی اُن کے جواب میں مسکرا کر کہتے، “آپ بھی ساتھ رہیں، یہ سفر تنہا نہیں ہونا چاہیے۔” یوں لگتا تھا جیسے وادی کے ہر پتھر، ہر درخت، ہم سب کو ایک دوسرے کے قریب لا رہا ہو۔ کئی اجنبی چہرے اس راستے پر اپنے لگنے لگے، کسی نے پانی پیش کیا، کسی نے مسکراہٹ — اور یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں اُس دن کی بڑی یاد بن گئیں۔
برف کے پہاڑ سامنے تھے، جیسے پریوں کے محل ہوں۔ جہاز بانڈہ کا سبز میدان برف کی سفید چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ جگہ واقعی جنت سے کم نہ تھی۔ ہم نے وہاں کرکٹ کھیلی، کھانا کھایا، اور خاموشی سے اس حسن کو محسوس کیا جو الفاظ سے باہر ہے۔
🎶 واپسی اور کٹوا گوشت کا ذائقہ
واپسی پر ہم نے میوزک، گیپ شپ اور ہنسی مذاق سے وقت گزارا۔ قہقہے گاڑی کے شور سے بلند ہوتے جا رہے تھے، کوئی گانا چھیڑتا، کوئی یاد تازہ کرتا، اور سب مل کر ہنسی کے ترانے گاتے۔ پہاڑ پیچھے رہتے جا رہے تھے مگر دل اب بھی ان ہی وادیوں میں اٹکا ہوا تھا۔ راستے میں چھیچھ کے علاقے میں مشہور کٹوا گوشت کھایا۔ کٹوا گوشت کی خوشبو نے سفر کی تھکن کو مٹا دیا۔ اسلام آباد پہنچ کر سب نے ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا — احسن، کاشف صاحب، جواد ملک، حلیق صاحب، کامران، آصف شیخ، عبداللہ — اور خاص طور پر وقاص احمد، خالد محمود اور عبداللہ جنہوں نے اس سفر کے انتظامات کیے۔
یہ سفر ختم ہوا، مگر یادیں باقی رہ گئیں۔ کمراٹ کی وادیاں، جہاز بانڈہ کے پہاڑ، اور وہ بزرگ کا فقرہ —
“کمراٹ بھول جاؤ گے، خود کو یاد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔”
دل کے اندر گونجتا رہا۔ یہ سفر ختم نہ ہوا، بلکہ ایک احساس بن کر دل میں زندہ رہا۔ اور شاید زندگی بھی ایک ایسا ہی سفر ہے — جہاں منزل نہیں، صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔
🌸 تحریر: افتخار ملک (تمام ساتھیوں کے نام محبت سے یاد رکھے جائیں گے) |
|