ویزے کا انتظار اور پشاور میں دھماکہ ..

جس دن ٹریول ایجنسی کی طرف جانا تھا اس دن پشاور کے شگئی ہندکیان کے علاقے میں دھماکہ ہوگیادہشت گردوں نے ٹرانسفارمر کے نیچے بم رکھا تھا جو اس وقت پھٹ گیا جب ایک نجی سکول کی بس خواتین اساتذہ کو واپس لیکر گھر آرہی تھی اسی دھماکے میں دو خواتین اساتذہ جو کہ بہنیں تھیں شہید ہوگئی-اس دھماکے کی اطلاع ملتے ہی میں اپنی ٹیم کے ہمراہ شگئی ہندکیان پہنچ گیا -میں ٹی وی سکرین پر ناظرین کو لائیو کوریج دکھا رہا تھا کہ میرے پیچھے دوسرا دھماکہ ہوگیا . اس دھماکے نے جیسے پاؤں سے زمین نکال دی ایسا لگا کہ مجھے بھی کچھ لگا ہے. ان دنوں دہشت گرد بم دھماکوں میں کیلیں اور چھرے استعمال کرتے تھے. دھماکے کی ڈر کی وجہ سے یکدم بیٹھ گیا کیونکہ ہاتھوں میں جان ہی نہیں رہی . عجیب سی کیفیت تھی اپنے جسم کو ٹٹول رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ لگا ہو اور جسم گرم ہونے کی وجہ سے محسوس نہیں ہورہا ہو لیکن اللہ کا شکر تھا کہ آٹھ فٹ پیچھے ہونیوالا دھماکہ گندگی کے کنٹینر میں ہوا تھا جس کا مقصد دہشت گردوں کی جانب سے صحافیوں اور امدادی ٹیموں کو نشانہ بنانا تھا لیکن اللہ نے خیر کردی.
سو اس دھماکے کی اطلاع تو سب کو مل گئی پہلی مرتبہ دفتر میں یہ کہا کہ میں آرہا ہوں مجھ سے بولا بھی نہیں جارہا اور پاؤں میں طاقت نہیں لیکن دفتر سے کہا گیا کہ اب تم ہی رپورٹنگ کرتے رہو کیونکہ تم عینی شاہد بھی ہو. غصہ بھی آیا لیکن مجبوری بھی تھی قلم کے مزدور کی اوقات ہی کیا، خیر حکم تھا ڈیوٹی تو کی لیکن اس دھماکے کی وجہ سے ذہن سے یہ نکل گیا کہ ٹریول ایجنٹ کو اوکے کیلئے کہنا تھا اس لئے سیدھے گھر آگیا رات کو خیال آیا کہ یہ تو غلطی ہوگئی ہے اب کیا ہوگا.

داستان مسرت.. جس میں مسرت صرف نام کو باقی ہے.

اسلام آباد کے تھائی ایمبیسی سے واپسی پر پشاور میں اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کررہا تھا حالانکہ تمام کاغذات جمع کرنے کے باوجود بھی یقین نہیں تھا کہ ویزہ لگ جائیگا ایک تو پاسپورٹ فریش تھا یعنی اس پر کسی بھی ملک کا ویزہ نہیں تھا لیکن اپنے دفتر کے ساتھیوں سمیت صحافی دوستوں اور محلے خاندان میں مشہور کردیا کہ تھائی لینڈ ٹریننگ کیلئے جارہا ہوں کچھ لوگ تو مرعوب ہو جاتے کچھ کی آنکھوں میں حسرتیں جاگ جاتی جس کا شکار کسی زمانے میں ہم بھی تھے گھر میں بھی آکر "ڈوزے ویشتے" کہ بس ویزہ آنے کی دیر ہے میں تربیت کیلئے جارہا ہوں . اسی دوران تربیت فراہم کرنے والے ادارے نے آن لائن کچھ مشقیں کرنے کی ہدایت کی جس میں کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے مکمل کئے.گھر میں " بس جارہا ہوں"کی گردان نے اسی دوران بیگم کو غصہ دلا دیا جنہوں نے یہ کہا کہ اب کیوں جارہے ہو اپنے بچوں کے مستقبل کی سوچ کرو ، اپنے آپ سے بچہ بنایا ہوا ہے . بیگم کا خیال تھا کہ مسرت صاحب گئے تو پھر واپسی مشکل ہوگی اور ہوگی بھی تو لمبے عرصے بعد ہوگی ان کی یہ غلط فہمی میں دور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ ذرا رعب بھی بن رہا تھا اگر کہتا کہ بیس دن کیلئے جارہا ہوں تو پھر" ٹشن ذرا خرب ہوتی" . لیکن بیگم کی یہ باتیں بہت بری لگی کہ اب مجھے بیگم کی باتیں کرینگی اور میں سنوں گا. چلو امی کی باتیں سننا تو حق بنتا ہے.لیکن بیگم.. یعنی بیگم... سو ماتھے پر بل ڈال دئیے اور اگلے تین دن بیگم سے بات نہیں کی .

ویزے کیلئے جب کوئی شخص اپلائی کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے سے ٹکٹ ظاہر کردو کہ فلاں دن کو میں ٹکٹ لے چکا ہوں جس کیلئے میں نے اپنے ایک ساتھی جوشعبہ صحافت میں ہے اور اس کا بھائی ٹریولنگ ایجنٹ ہے سے عارضی طور پر ٹکٹ کی بکنگ کروائی تھی اور اسے یہ کہا تھا کہ ویزہ لگ گیا تو ٹکٹ آپ سے ہی لونگا. اسلام آباد کے جس ساتھی کیساتھ ویزے کیلئے گیا تھا اسے اسلام آباد سے واپسی پر پاسپورٹ کی رسیدیں دی تھی کہ میں دوبارہ نہیں آسکتا تم پاسپورٹ بھی لے آنا وہ رسیدیں ان صاحب نے گم کردی . اس کا فون آگیا اور کہا کہ بھائی میں تو رسیدیں گم کر چکا ہوں اب کیا ہوگا شکر ہے کہ میں رسیدوں کی فوٹو سٹیٹ لے چکا تھا بہت غصہ آیا کہ اتنا بے حس اور بے وقوف آدمی بھی کوئی ہوسکتا ہے کہ پاسپورٹ کی رسیدیں بھی کوئی گم کردے.لیکن میں نے اسے کہہ دیا کہ جو دن سفارت خانے نے بتایا ہے اسی دن میں رسیدیں لیکرآجاؤنگا.
جس دوست کے بھائی سے عارضی طور پر ٹکٹ لیا تھا اسے میں نے کہہ دیا کہ فلاں تاریخ تربیتی سیشن ہے اس سے ایک دن قبل کا ٹکٹ تیار رکھنا میں اوکے کہہ دونگا لیکن پاسپورٹ مل جائے تو میں بتا سکتا ہوں کہ ویزہ لگ گیا ہے کہ نہیں.ان صاحب کو بھی ٹینشن تھی کہ ایسا نہ ہو کہ میں اوکے کردو پھر یہ صاحب ٹکٹ نہ لیں. اگر اوکے نہ کرو تو پھر ٹکٹ نہیں ملے گا. ایسی صورتحال میں ٹریول ایجنسی والے پیسے لیتے ہیں تعلق کی وجہ سے ٹریول ایجنسی کے مالک نے پیسے نہیں لئے تھے .

جس دن ٹریول ایجنسی کی طرف جانا تھا اس دن پشاور کے شگئی ہندکیان کے علاقے میں دھماکہ ہوگیادہشت گردوں نے ٹرانسفارمر کے نیچے بم رکھا تھا جو اس وقت پھٹ گیا جب ایک نجی سکول کی بس خواتین اساتذہ کو واپس لیکر گھر آرہی تھی اسی دھماکے میں دو خواتین اساتذہ جو کہ بہنیں تھیں شہید ہوگئی-اس دھماکے کی اطلاع ملتے ہی میں اپنی ٹیم کے ہمراہ شگئی ہندکیان پہنچ گیا -میں ٹی وی سکرین پر ناظرین کو لائیو کوریج دکھا رہا تھا کہ میرے پیچھے دوسرا دھماکہ ہوگیا . اس دھماکے نے جیسے پاؤں سے زمین نکال دی ایسا لگا کہ مجھے بھی کچھ لگا ہے. ان دنوں دہشت گرد بم دھماکوں میں کیلیں اور چھرے استعمال کرتے تھے. دھماکے کی ڈر کی وجہ سے یکدم بیٹھ گیا کیونکہ ہاتھوں میں جان ہی نہیں رہی . عجیب سی کیفیت تھی اپنے جسم کو ٹٹول رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ لگا ہو اور جسم گرم ہونے کی وجہ سے محسوس نہیں ہورہا ہو لیکن اللہ کا شکر تھا کہ آٹھ فٹ پیچھے ہونیوالا دھماکہ گندگی کے کنٹینر میں ہوا تھا جس کا مقصد دہشت گردوں کی جانب سے صحافیوں اور امدادی ٹیموں کو نشانہ بنانا تھا لیکن اللہ نے خیر کردی.

سو اس دھماکے کی اطلاع تو سب کو مل گئی پہلی مرتبہ دفتر میں یہ کہا کہ میں آرہا ہوں مجھ سے بولا بھی نہیں جارہا اور پاؤں میں طاقت نہیں لیکن دفتر سے کہا گیا کہ اب تم ہی رپورٹنگ کرتے رہو کیونکہ تم عینی شاہد بھی ہو. غصہ بھی آیا لیکن مجبوری بھی تھی قلم کے مزدور کی اوقات ہی کیا، خیر حکم تھا ڈیوٹی تو کی لیکن اس دھماکے کی وجہ سے ذہن سے یہ نکل گیا کہ ٹریول ایجنٹ کو اوکے کیلئے کہنا تھا اس لئے سیدھے گھر آگیا رات کو خیال آیا کہ یہ تو غلطی ہوگئی ہے اب کیا ہوگا.

اگلے دن چھٹی تھی گھر میں تھا کہ رشتہ داروں نے آنا شروع کردیا کیونکہ میں نے "پروپیگنڈہ"شروع کیا تھا کہ بس اب گیا اب گیا اورموقع نہیں ملا کہ ٹکٹ کیلئے فون کروں یعنی پشتو مثل کے بقول " قصہ قصو تک لاڑہ" .
اگلے دن اسلام آباد گیا پاسپورٹ لیا تو اس پر ویزہ لگا ہوا تھادل میں عجیب سے خیالات آئے بڑی خوشی بھی محسوس ہوئی ساتھی دوستوں کو بھی فون پر بتانا شروع کردیا کہ بس ویزہ لگ گیا .کچھ دوستوں نے ویزہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میں نے ان کے ہاتھ میں پاسپورٹ یوں فخر سے دیا جیسے اس پر مختلف ممالک کے ویزوں کی بھر مارہو لیکن چونکہ پہلا ویزہ تھا اسلئے میری خوشی زیادہ تھی کچھ دوست اسے دیکھ کر خوش ہوئے کچھ لوگوں نے کہا کہ خوش قسمت ہو.

مزے کی بات تو یہ تھی کہ ویزہ تو مل گیا لیکن ٹکٹ کنفرم نہیں کیا تھا اسی دوست کے پاس گیا اور ٹکٹ کیلئے کہہ دیا تو ٹریول ایجنٹ نے کہہ دیا کہ بھائی تم نے کنفرم نہیں کیا اس لئے اب تو ٹکٹ نہیں مل سکتا میں نے دوسرے ائیر لائن میں اسے ٹکٹ کنفرم کرنے کیلئے کہا تو ان صاحب نے کہا کہ اب اضافی پیسے دینگے پڑینگے تو ٹکٹ ملے گا ورنہ مشکل ہے دل میں سوچ رہا تھا کہ تین دن باقی ہے اب کیا ہوگا. ٹریول ایجنٹ کی طرف سے ٹکا سا جواب ملنے کے بعد خود دفتر آکر آن لائن ٹکٹ دیکھنا شروع کردی. یہ گوگل بھی عجیب چیز ہے جو بھی لکھ دو .تلاش کرکے دے دیتا ہے .کسی زمانے میں کسی مشکل سوال کا جواب پوچھنے کیلئے لوگ بڑی عمر کے بزرگ ، عالم کے پاس جاتے تھے پھر وقت لینا پڑتا لیکن انٹرنیٹ پر چلنے والی ویب سائٹ " گوگل ماما" نے بہت سہولت کردی ہے خیر. آن لائن ٹکٹ دیکھے تو پتہ چلا کہ ایک دن قبل کا ٹکٹ مل سکتا تھا میں نے ایک دن قبل کے ٹکٹ کے بارے میں اپنے ٹریول ایجنٹ دوست کو اطلاع کردی اس نے فون پر کہہ دیا کہ آجاؤ اگر تم نے دیکھا ہے تو میں بھی کچھ کرتا ہوں اس کے دفتر میں جا کر بیٹھ گیا اس نے ٹکٹ بنوا کردیا میں نے پیمنٹ کردی اسی دوران چائے پی رہا تھا کہ ایک صاحب آگیا جو بیرون ملک جارہا تھا اسے پشاور کے ائیرپورٹ کا بھی نہیں پتہ تھا کہ کس طرف جانا ہے جس وقت میں نے ایک دن قبل کا ٹکٹ بنوا رہا تھا اس وقت میرے ذہن میں تھا کہ ایک دن قبل جانا میرے لئے مشکل پیدا کردے گا کیونکہ مجھے تو کسی چیز کا بھی نہیں تھا کیونکہ جانا بھی بنکاک تھا لیکن جب اس مسافر کو دیکھا جس کو پشاور ائیرپورٹ کا پتہ نہیں تھا تو دل کو ڈھارس مل گئی کہ اس مسافر سے تو میں اچھا ہوں اگر وہ بیرون ملک جاسکتا ہے توپھر مجھے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے .

بس وہاں سے نکل کر دفتر گیا ، متعلقہ ادارے کو ای میل پر اطلاع کردی کہ میں ایک دن قبل آرہا ہوں اس لئے بنکاک ائیرپورٹ پر کسی کو بھجوا دیں میں ہوٹل میں اپنے لئے رہائش کا بندوبست کرلونگا لیکن مجھے رہنمائی درکار ہوگی ان کا جوابی ای میل بھی آگیا کہ کوئی مسئلہ نہیں اگر آپ اپنی رہائش کا بندوبست کرتے ہیں، اس کے بعد میں نے آن لائن سب سے کم قیمت گیسٹ ہاؤسز کی چیکنگ شروع کردی .کچھ وقت تلاش کے بعد پتہ چلا کہ سب سے کم قیمت گیسٹ ہاؤس میں ایک رات کی رہائش دس ڈالر کی ہے تو دل خوش ہوگیا کہ چلو رات تو گزارلیں گے بعد میں دیکھیں گے دفتر سے نکلنے کے بعد ایک صحافی دوست کو فون کیا کہ مجھے اپنا کیمرے دے دینا میں اپنے ساتھ لیکر جاؤنگا.اس نے ہاں کہہ دیا اور میں گھر کی طرف روانہ ہوگیا..

(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی چوتھی قسط)
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418452 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More