سکول دھماکہ ...ساڑھے تین سو ڈالر.. اور باتونی ٹیکسی ڈرائیور

جس دن فلائٹ تھی اسی دن دفتر جا کر حاضری لگانی تھی ماں سے باتیں کرنے کے بعد دفتر کیلئے روانہ ہوا اور ڈیوٹی پر حاضر ہوا، ابھی دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ دھماکے کی آواز آئی ، میں باہر کی طرف بھاگا کیمرہ مین بھیجنے کیلئے کہہ دیا کہ ڈی ایس این جی بھجوادو ، ایک دوست نے فون پر اطلاع کردی کہ تھانہ غربی چیک کرو وہاں پر دھماکہ ہوا ہے ، میں اپنی ٹیم کے ہمراہ غربی تھانہ کی طرف بھاگ نکلا چونکہ دفتر ساتھ ہی تھا اس لئے دس منٹ میں پہنچ گیا لیکن وہاں پر کچھ نہیں تھا وہاں پر جانے کے بعد وہاں تعینات پولیس اہلکار کو وائرلیس سیٹ پر اطلاع ملی کہ پشاور کے علاقہ نوتھیہ میں سکول کے سامنے بارودی دھماکہ ہوا ہے وہاں پرایک ایمبولینس میں بیٹھ کر چلا گیا لوکیشن پر جانے کے بعد دفتر کے اسائمنٹ سے اطلاع آئی کہ جائے حادثہ کو چھوڑ کر ہسپتال کی طرف چلے جاؤ. ایک اور ایمبولینس میں بیٹھ گیا جو زخمیوں کو ہسپتال لیکر جارہی تھی ایمبولینس میں بچے زخمی تھی اور ان کے والدین اور رشتہ دار کہہ رہے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جس میں سکول کے بچے بھی محفوظ نہیں .بچوں کے خون آلود چہرے دیکھ کر افسوس ہورہا تھا کہ یہ کتنا ظلم ہے کہ بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے دہشت گردی کی جنگ میں اب معصوم بچے بھی نشانہ بن رہے ہیں . حالانکہ بچوں ، بوڑھوں اور خواتین پر ہاتھ اٹھانا نہ تو اسلام میں ہیں اور نہ ہی پشتو روایت . لیکن پتہ نہیں یہ کیسے لوگ تھے جو معصوم بچوں کو بھی نہیں بخش رہے تھے.ہسپتال میں ڈیوٹی کررہا تھا اور آنیوالوں زخمیوں کے انٹرویو بھی لے تھا ساتھ میں ڈائیو گاڑی میں اپنے لئے پانچ بجے کی بکنگ کردی.

جس دن تھائی لینڈ کیلئے فلائٹ تھی چونکہ رات گئے کی اسلام آباد کی فلائٹ تھی اس لئے مجھے چار بجے پشاور سے نکلنا تھا کہ وہاں پر پہنچوں گا دو گھنٹے پہلے جانا ہوتا ہے. ویسے بھی اپنی تو عادت سی ہوگئی ہے ہر چیز میں جلدی ، شائد مرنا بھی جلدی ہو. اللہ جانے..سنا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے میں صبح سویرے دفتر بھی آدھ گھنٹہ جلدی آتا ہوں اور یہی عادت فیلڈ میں بھی ہے اسی وجہ سے میرے دفتر کے ساتھی مجھے شیطان ہی سمجھتے ہیں کیونکہ میری وجہ سے انہیں بھی باتیں سننی پڑتی ہے. خیر.. آمد برسرمطلب..

جس دن جانا تھا اس دن تیاری میں لگا ہوا تھا بیگم نے سوال کیا کہ سچ مچ جارہے ہوں تو میں نے جواب دیا کہ ہاں جارہا ہوں ، پھر ا س نے سوال کیا کہ پھر واپس آؤ گے. اتنی عجیب سے لہجے میں سوال کیا کہ افسوس ہوا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا کہ بیس دن کی تربیت کیلئے جارہا ہوں ، اس کو بتا دیا کہ ہاں واپس بھی آنا اور صرف بیس دن ہی گزارنے ہیں. یہ سن کر بیگم کے چہرے پر اطمینان سا آگیا لیکن پھر بھی میں نے اپنا بھرم بڑھانے کیلئے کہہ دیا کہ اگر کوئی گوری مل گئی تو شادی بھی کرونگا.جس کا تم مجھے طعنہ دیتی تھی . تو بیگم نے جوابا کہہ دیا کرلینا.. لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ میری جیسی کوئی تمھیں نہیں ملے گی . میں نے ہنس دیا لیکن دل میں سوچ رہا تھا کہ بات تو سچ کہہ رہی ہے. لیکن سچ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ شادی کے آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اگر بیگم کو شوہر پر اعتبار نہ ہو تو یہ بڑی بدنصیبی ہے لیکن سچی بات ہے ہم بھی ان بدنصیبوں میں تھے جس پر بیگم کو اعتبار نہیں تھا.

والدہ کیساتھ بیٹھ گیا تو وہ میری تیاریاں دیکھ کر رونے لگی کہنے لگی بیٹا اپنی مرضی تو کررہے ہو لیکن اپنا خیال رکھنا تمھارے بچے ہیں . یہ والدہ بھی اللہ تعالی کی بہت نعمت ہوتی ہیں دنیا کا ہر غم ماں کی گود میں انسان بھول جاتا ہے اور ماں کی دعاؤں سے دنیا میں سرفراز ہوتا ہے. والدہ کو روتے دیکھ کر کہا کہ امی میرا تو کوئی اور ہے نہیں بس تربیت ختم ہوگی تو واپس آونگا اب اگر اللہ نے موقع دیا ہے اور وہ بھی مفت میں تو میں اس کو چھوڑ تو نہیں سکتا. اتنے میں بہنوں کا فون آیا کہ فلائٹ کس وقت ہے میں نے جواب دیا کہ رات کو فلائٹ ہے تو بہنوں نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ گھر میں بیٹھو ہم آرہے ہیں پھر گپ شپ لگائیں گے . ماں کی ساتھ بیٹھ کر باتیں کررہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت بہن کا رشتہ بھی ہے بھائی تو ویسے سخت دل ہوتے ہیں لیکن یہ بہنیں ہی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے گھروں میں رونق ہوتی ہیں شادی سے پہلے بھی گھروں میں رحمت ہوتی ہیں اور شادی کے بعد بھی ، اپنے گھروں میں مالکن ہوتے ہوئے بھی اسے والدین ، بھائیوں کی سوچ ہوتی ہیں.

جس دن فلائٹ تھی اسی دن دفتر جا کر حاضری لگانی تھی ماں سے باتیں کرنے کے بعد دفتر کیلئے روانہ ہوا اور ڈیوٹی پر حاضر ہوا، ابھی دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ دھماکے کی آواز آئی ، میں باہر کی طرف بھاگا کیمرہ مین بھیجنے کیلئے کہہ دیا کہ ڈی ایس این جی بھجوادو ، ایک دوست نے فون پر اطلاع کردی کہ تھانہ غربی چیک کرو وہاں پر دھماکہ ہوا ہے ، میں اپنی ٹیم کے ہمراہ غربی تھانہ کی طرف بھاگ نکلا چونکہ دفتر ساتھ ہی تھا اس لئے دس منٹ میں پہنچ گیا لیکن وہاں پر کچھ نہیں تھا وہاں پر جانے کے بعد وہاں تعینات پولیس اہلکار کو وائرلیس سیٹ پر اطلاع ملی کہ پشاور کے علاقہ نوتھیہ میں سکول کے سامنے بارودی دھماکہ ہوا ہے وہاں پرایک ایمبولینس میں بیٹھ کر چلا گیا لوکیشن پر جانے کے بعد دفتر کے اسائمنٹ سے اطلاع آئی کہ جائے حادثہ کو چھوڑ کر ہسپتال کی طرف چلے جاؤ. ایک اور ایمبولینس میں بیٹھ گیا جو زخمیوں کو ہسپتال لیکر جارہی تھی ایمبولینس میں بچے زخمی تھی اور ان کے والدین اور رشتہ دار کہہ رہے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جس میں سکول کے بچے بھی محفوظ نہیں .بچوں کے خون آلود چہرے دیکھ کر افسوس ہورہا تھا کہ یہ کتنا ظلم ہے کہ بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے دہشت گردی کی جنگ میں اب معصوم بچے بھی نشانہ بن رہے ہیں . حالانکہ بچوں ، بوڑھوں اور خواتین پر ہاتھ اٹھانا نہ تو اسلام میں ہیں اور نہ ہی پشتو روایت . لیکن پتہ نہیں یہ کیسے لوگ تھے جو معصوم بچوں کو بھی نہیں بخش رہے تھے.ہسپتال میں ڈیوٹی کررہا تھا اور آنیوالوں زخمیوں کے انٹرویو بھی لے تھا ساتھ میں ڈائیو گاڑی میں اپنے لئے پانچ بجے کی بکنگ کردی.

ایک بجے کے قریب دفتر کے ایک اور ساتھی کو طلب کرکے ہسپتال سے نکل گیا اور جس بینک میں میرا اکاؤنٹ تھا وہاں پر چلا گیا کہ بینک سے ڈالر بھی لے لونگا بینک میں بیٹھے ایک صاحب کو کہہ دیا کہ مجھے تیس ہزار روپے کے ڈالر چاہئیے . چونکہ میں اکاؤنٹ ہولڈر بھی ہوں لیکن اس کا نشہ اور باتیں دیکھ کر نانی یاد آگئی جس لہجے میں اس نے بات کی اور انکار کیا مجھے آج تک یاد ہے. میں تیس ہزار روپے کے ڈالر کا کہہ کر اپنے آپ کو بڑا پھنے خان سمجھ رہا تھا اس نے بڑے روکھے منہ سے جواب دیا کہ یہاں پر آپ ڈالر جمع کرسکتے ہیں لیکن ہم آپ کو ڈالر نہیں دے سکتے. اور میں اس کی منہ کو دیکھ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا . مجھے سائیڈ پر ہونے کا کہہ دیا گیا اور جب میں سائیڈ پر ہوگیا تو ایک صاحب بیگ میں رقم لیکر آگئے اس نے جمع کی اوراسے ڈالروں کی گڈیاں دیدی گئیں میں حیران اور پریشان کہ آخر اس موٹے میں کیا اہم بات ہے جو اسے ڈالر دے رہا تھا اور مجھے نہیں دے رہا تھا لیکن ساتھ میں سوچ بھی رہا کہ تیس ہزار روپے کی کیا حیثیت ہے صرف تین سو پچاس ڈالر. لیکن پھر دماغ نے کہہ دیا کہ شکر کرو تمھارے پاس یہ تیس ہزار ہیں ورنہ یہاں پر ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس یہ بھی نہیں .

ڈالر جیب میں ڈالنے کے بعد کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی لیکن ساتھ میں پاکستانی روپے کی قدر و قیمت کا بھی اندازہ ہوگیا کہ یہ کیا صورتحال ہے . پریس کلب میں ساتھی کو فون کیا کہ کیمرہ پہنچا دیا ہے کہ نہیں لیکن اس نے انکار کیا کہ میں بھول گیا ہوں غصہ تو بہت آیا لیکن کپڑوں کیلئے بیگ لینا تھا سو گورنمنٹ کالج پشاور میں واقع مارکیٹ چلا گیا جہاں پر نہ صرف نئے بلکہ افغانستان آنیوالے فوجیوں کے بیگ بھی مل جاتے ہیں. کم قیمت پر ایک بیگ خرید لیا گھر آیا ایک مرتبہ پھر کلین شیو کرتے ہوئے اتنے کٹ لگائے کہ " چہرہ لہو لہان " کردیا گھر سے نکلتے وقت امی نے " دم "کیا کیونکہ گھر والوں نے مشترکہ طور پر ختم قرآن کیا تھا کہ بڑا بھائی باہر جارہا ہے سو اللہ خیریت سے لے جائے. رکشہ میں بیٹھ گیا . سست رفتار رکشے نے ڈائیو اڈیدیر سے پہنچایا لیکن شکر ہے کہ جس وقت پہنچا اس وقت گاڑی نکل رہی تھی..

ڈائیو گاڑی میں بیٹھ کر پشاور سے اسلام آباد کا سفر شروع ہوا ، نوشہرہ تک گھر والوں کو یاد کرتا رہا، گھر والوں سے دوری اور وہ بھی ملک سے باہر. بڑا مشکل ہوتا ہے مسافر ہونا.یہ ان کیلئے بھی مشکل ہے جو باہر جاتے ہو اور ان کیلئے جو گھر میں بیٹھ کر ان کا انتظار کرتے ہوں ، خواہ وہ کوئی بھی رشتہ ہو، والدین ، بہن بھائی ، بیوی بچے ، سب ایک آس اور امید پر بیٹھے رہتے ہیں .نوشہرہ گاڑی پہنچی تواپنے ساتھ والے ساتھی نظر دوڑائی اور ان سے گپ شپ کی تو پتہ چلا کہ یہ صاحب بھی تھائی لینڈ جارہے ہیں . پچاس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود جس طرح کا گیٹ اپ انہوں نے کیا تھا لگتا نہیں تھا کہ یہ بزرگ ہیں بقول اس آدمی کے دو بیٹے اس کے لندن میں بزنس کررہے تھے اور وہ خود بھی بزنس مین تھے.راولپنڈی تک ساتھ رہا پھر وہاں پر ٹیکسی میں بھی ساتھ بیٹھ گئے جو اسلام آباد ائیرپورٹ جارہی تھی. ٹیکسی ڈرائیور انتہائی باتونی آدمی تھا.پچیس منٹ کے سفر میں اس نے اتنی باتیں کی کہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیسے خاموش ہو. ملکی سیاست ، مہنگائی ، خواتین کی بے شرمی ، ٹیکسوں کی بھر مار ، بیروزگاری ، بچوں کی شادیاں ، جہیز ، مذہب ہر موضوع پر ٹیکسی ڈرائیور بلاتکان بولتا تھا .جب میں ان سے سوال کیا کہ صاحب آپ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر اس صاحب نے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان کے قصیدے شروع کردئیے. لیکن شکر ہے کہ ائیرپورٹ پہنچ گیا. پیسوں کی ادائیگی کی اور ائیرپورٹ داخل ہوگئے . پہلی مرتبہ آرہے تھے اس لئے بس میں بیٹھے اس ساتھی کو آگے کردیا کہ چلو جو یہ کرے گا ہم بھی کرینگے.

(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی پانچویں قسط)

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498325 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More