ضامن آج پھر دفتر پہنچا تو اس کے صاحب نے اس کو اپنے دفتر
میں بلوا لیا. آج ان کے تیور بہت سخت تهے. انهوں نے بہت بدتمیزی سے ضامن کو
کہا :
آخرکار تم کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ یہاں کهاؤ اور کهانے دو کا فلسفہ چلتا
ہے. تم جس فائل پر دستخط کرنے سے انکاری ہو اس کی قیمت دو کروڑ طے پائی ہے.
جس میں سے پچاس لاکھ تمہارا حصہ ہے. "
ضامن نے کچھ کہنے کے لیے منہ کهولنا چاہا تو صاحب نے اس کو جھڑک کر اس کے
آفس میں جانے کے لئے کہا.
ضامن مرے مرے قدموں سے اپنے آفس کی طرف چل پڑا. اس کا آفس پیچھے رہ گیا اور
وہ بے خیالی میں ٹہلتا آفس کے دائیں جانب بنے باغ میں پہنچ گیا. گهنے
درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوتے ہوئے اس کا دماغ شل سا تها. وه جانتا تھا کہ
اگر اس نے اس کانٹریکٹ پر دستخط کردیئے تو ٹھیکیدار ان کے دفتر میں تو رشوت
کے پیسے بهجوا دے گا مگر پل پر پورا سریا،سیمنٹ نہیں لگائے گا. یہ پل دریا
کے اوپر بننا تھا اس کے اوپر سے ہزاروں گاڑیوں نے گزرنا تها اور سب سٹینڈرڈ
مٹریل لگانے کا مطلب تھا کہ یل کسی بھی دن ہزاروں جانوں کا خراج لے کر گر
جائے گا. ضامن کو بے شمار بیواؤں اور یتیموں کے چہرے نظر آئے جو اس کو ہاتھ
اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے تھے. ضامن کا بدن پسینے سے شرابور ہوگیا.
اچانک اس کے کان میں اس کی مرحومہ والدہ کی آواز گونجی :
ضامن میرے بچے! تیرا نام ضامن پتا ہے میں نے کیوں رکھا ہے؟
اس لئے کہ میرے بیٹے تو ہمیشہ امانت دار رہے، نیکی کو پهیلائے. تیری ذات
لوگوں کے لیے خیر کا باعث ہو."
ضامن کو لگا کہ اس نے گهپ اندھیرے میں روشنی کی لکیر دیکھ لی ہے. اس نے
فائل پر دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے باس کے کمرے کی طرف چل پڑا.
اس یقین مصمم کے ساتھ کے وه نیکی کے راستے پر آنے والی ہر تکلیف اٹھانے کے
لیے تیار تها. |