بدلہ

دنیا جو انصاف مجھے نہیں دلا سکتی تھی ،وہ میں نے خود کو خود دلایا۔

کبھی کبھی کچھ کہانیاں سن کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے ۔میری ایک دوست جو دماغی مریضوں کے علاج میں ایک معاون نرس کی خدمات سر انجام دے رہی ہے ۔ اس نے ایسی کہانی سنائی کہ سن کر مجھے شدید حرت ہوئی۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے ۔ آپ بھی سنیں اور خود فیصلہ کریں ۔

میری دوست مریم نے ایک چالیس ، بیتالیس سال کی عورت کو پاگل ثابت ہونے کے باوجود ٹھیک پایا تو اس سے پوچھا ۔ آپ تو ٹھیک ٹھاک لگتی ہیں۔ عظمت مسکرائی ۔ اس نے نہائت سنجیدگی سے کہا۔ میں ٹھیک ہی ہوں ۔ میں بہت خوش بھی ہوں کہ میں نے جو سوچا تھاکر بھی لیا۔

عظمت کی بات سن کر مریم نے حیرت سے کہا۔ آپ نے ایسا کیا کر لیا۔ مریم کو بلکل بھی پتہ نہیں تھا کہ عظمت کی کیس ہسٹری کیا ہے۔ مریم نے نرمی سے عظمت سے پوچھا۔ عظمت کے چہرے پر تھکا دینے والے سفر کی داستان کی جھلک نمایاں تھی ۔ اس نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا۔ زندگی کبھی کبھار ایسے ایسے رنگ سامنے لاتی ہے کہ ہمیں خود بھی نہیں یقین آتا کہ ہم پر قدرت نے کون سا رنگ چڑھا دیا۔ کبھی کبھی خود سے ملنے پر یقین بھی نہیں ہوتا کہ یہ ہم ہی ہیں۔ اپنا آپ انسان کو پتہ نہیں ہوتا۔ عظمت کی بات سن کر مریم کا تجسس اور بڑھ گیا۔

مریم نے پاس پڑا ہوا سٹول لیا اور بیٹھتے ہوئے کہا۔ آپ بتائیں میں سننا چاہتی ہوں ۔ آخر آپ جیسی سمجھدار عورت یہاں کیوں ہے۔ وہ پاگل کیوں کہلوا رہی ہے۔ عظمت نے کچھ دیر سر جھکایا اور بولی ۔ انسان مکمل طور پر کبھی سمجھدار نہیں ہو سکتا۔ ہم کبھی اپنی خواہش کے تحت عقل کو جانے دیتے ہیں تو کبھی مجبوری کے تحت ۔ زندگی اپنے طور پر ہم سے بہت کچھ کروا لیتی ہے۔ ہم انسان بہت عجیب ہوتے ہیں جب کرنے پر آتے ہیں تو پہاڑوں کو کاٹ لیتے ہیں اور نہیں کرنے کا جذبہ ہمیں بستر سے ہلنے نہیں دیتا ۔ میں ایک پروفیسر رہی ہوں ۔ ایم اے انگلش کیا تھا، میں نے۔ عظمت نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ میں نے طرح طرح کی کتابیں پڑھی ۔ کتابیں پڑھنا میری عادت بن چکی تھی ۔

شادی کے بعد سات سال تک میری اولاد نہیں ہوئی ۔ میرے پاس بہت وقت ہوتا ۔ میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتی ۔ پھر رب نے مجھ پر اپنا کرم کیا اور مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ میرا ارمان میرا بیٹا ۔وہ میرا سب کچھ تھا۔ میری زندگی بدل چکی تھی۔ اب تو میری ہر سوچ کا محور میرا ارمان ہی تھا۔ ایک سال بعد ہی میرے شوہر کی ایک ایکسڈینٹ میں وفات کے بعد مجھے قصبے میں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ یہ گاؤں تو نہ تھامگر گؤوں جیسا ہی علاقہ تھا۔میں چاہتی تھی کہ اپنے بیٹے کو بہت اچھی تعلیم دو ۔وہ بہت بڑا بنے۔ ماں دنیا کی وہ ہستی ہے جو اپنے آپ کو جلا کر اپنے بچوں کو حرارت پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ممتا کا جذبہ جس دن اس کائنات سے ختم ہو گیا، اس دن یہ دنیا ختم ہو جائے گی۔ میرا یہ گھر چھوڑنے کی وجہ میری ممتا ہی تھی۔ ہمارے گھر سے کچھ دور ہی چودھریوں کےبڑے بڑے گھر تھے ۔

یہ لوگ دولت کی وجہ سے مغرور تھے ۔ شراب پینا ان کا معمول تھا۔ علاقے کے بہت لوگ ان کے لیے کام کرتے تھے۔ میں شادی کے بعد ہی یہاں آئی وقار کسی دوسرے علاقے میں جانے کو تیار نہ تھے۔ میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے انگلش میں ایم کیا۔ میرے شوہر مجھے ہر وہ کتاب لا دیتے۔ جس کے میں پڑھنے کی خواہش کرتی ۔ ان کی موت کے بعد میں نے گھر بند کیا اور اپنے ماموں کے کہنے پر ان کے گھر آ کر رہنے لگی ۔ مجھے گوجر خان آ کر آچھا لگ رہا تھا ۔ یہاں ہی ایک پرائیوٹ کالج میں میں نے نوکری کر لی تھی۔

مجھے ماموں کے گھر میں جو بات سب سے بُری لگتی تھی وہ تھے۔ ان کے دو کتے ۔ جنہیں سنبھالنے کے لیے انہوں نے ملازم رکھے تھے۔ ماموں ہی کے مشورے سے میں نے ایک چھوٹا سا گھر اپنی زمینیں اور ذیور بیچ کر لے لیا تھا۔ ارمان کو بھی کتے بہت پسند تھے ۔ بس یہی ایک خواہش اس کی میں نے پوری نہ کی ورنہ جو اس کے منہ سے نکلتا میں پورا کرتی تھی۔

ارمان کو چھٹیوں میں کبھی کبھی میں دوبارہ اس پرانے گھر لے جاتی ،کچھ دن یہاں رہ کر وہ اپنے ابو کی قبر پر فاتحہ پڑھتا اور سارے رشتہ داروں سے ملتا۔ وہاں اس کے کزن اس سے بہت پیار کرتے۔ وہ بہت خوشی سے یہاں آ کر رہتاتھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔ مجھے میرے دیور نے آکر اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت دی ۔ ہم دونوں شادی کے لیے واپس اپنے گھر آ گئے۔ ارمان بہت خوش تھا۔وہ اکثر اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ باہر ہی رہتا۔ شادی کے دن گزرے ہی تھے کہ میرا اٹھارہ سال کا بیٹا غائب ہو گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ اسے زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا۔ میں نے پولیس کو رپورٹ بھی کی۔ سب کر کے دیکھ لیا ۔ آٹھ دن بعد ارمان کی لاش ملی جو بُری طرح سے تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے ہاتھ کی انگلیوں تک کو توڑا گیا تھا۔ اس کا چہرازخموں سے بھرا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل میں فقط یہی بات آ رہی تھی ۔ یا رب یہ دن دکھانے سے پہلے مجھے اُٹھا لیتے۔

عظمت کی آواز بھرا گئی ۔ وہ خاموش ہو گئی ۔ مریم کو لگا کہ کہانی ختم ہو گئی۔ مریم کی انکھوں میں آنسو تھے اور وہ وہاں سے چل دی دوسرے دن عظمت نے اسے بلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ تم نے میری کہانی سننا چاہی اور آدھی ادھوری کہانی سن کر چلتی بنی۔ کیوں؟

مریم نے حیرت سے کہا۔ کیا ابھی کہانی رہ گئی ۔ سب تو ختم ہو گیا۔

عظمت نے دھیرے سے کہا۔ کبھی کبھی جب ہم سمجھتے ہیں، سب ختم ہو گیا وہیں سے شروعات ہوتی ہے۔ مجھے بھی لگا سب ختم ہو گیا۔ مگر مجھے یہ جاننا تھا کہ اتنے تھوڑے سے دنوں میں ایسا کون سا دشمن پیدا ہو گیا تھاارمان کا ۔ ارمان کی تدفین کے بعد مجھے پتہ چلا کہ چودھری مختار الحق کی بیٹی مدیحہ اور ارمان میں دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ فیس بک فرینڈ بھی تھے ۔ ان کی ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی تھیں ۔ جب ارمان یہاں اپنی کزن کی شادی پر آیا تو مدیحہ چھپ چھپ کر ارمان سے ملتی رہی ۔ جس کا پتہ اس کے بھائی اورکزن کو چل گیا۔

چودھری خاندان تین بھائی یہاں مل کر رہتے تھے۔ ایک بڑا والا مرا ہوا تھا۔ اس کے بیوی بچے بھی یہیں تھے ۔ جبکہ چھوٹا والا شہر میں کوئی وزیر تھا۔ مدیحہ اس چھوٹے والے کی بیٹی ہی تھی۔ ارمان کو مروانے کے بعد انہوں نے فوراْ ہی مدیحہ کا رشتہ کروا دیا تھا۔ جس کی شادی سوا سال بعد طے پائی تھی۔ یہ بات مجھے قصبہ میں سب کے گھروں میں کام کرنے والی مائی ذبیدہ نے بتائی تھی۔ وہ ہر گھر جہاں شادی اور ماتم ہوتا کام کو آتی ۔ میں ارمان کی موت پر رو ہی نہیں پا رہی تھی۔

ایسے لگتا تھا ایک سمندر میرے دل میں اُتر آیا ہو اور انکھوں سے بہنے سے انکاری ہو۔ زندگی جینے کا مقصد مر جائے تو سمجھ نہیں آتا کہ انسان جئے کیوں ؟ایسے میں مجھے دل کی تسکین اسی میں محسوس ہوئی کہ چودھریوں کے خلاف رپورٹ کروا دو۔ میں نے ایسے کرنے کا سوچا ہی تھاکہ تمام خاندان مجھ سے الگ ہو گیا۔ الگ ہوتا بھی کیوں نہ ۔ ہر کسی کو اپنے بچے اچھے لگتے ہیں ۔ چودھریوں کے پاس پیسہ اور پہچان سب تھی ۔ میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ وہ پھر ہنسنے لگی۔

مریم نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟ عظمت نے سر کھجاتے ہوے کہا۔ کچھ بھی نہیں کا مطلب ہر کوئی نہیں جان سکتا ۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مجھے کوئی خوف نہیں تھامگر میں نہیں جانتی تھی کہ میں کیا کروں ۔ ایسے میں جب پولیس نے میری مدد سے انکار کر دیا۔ خاندان والوں نے نظریں پھیر لی اور مجھے خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھاکہ میں واپس آجاوں ۔ میں اپنے ماموں کے گھر آ گئی ۔ وہ بہت نیک تھے ۔ وہ خوب جانتے تھے کہ ارمان میرے لیے کیا تھا۔ میں فقط ایک زندہ لاش تھی ۔ جس سے جان ان چودھریوں نے نکال لی تھی۔ ماموں نے غصے میں آ کر کہا۔ میرا بس چلے تو ان کے گھر میں کتے چھوڑ دوں ۔جو ان کا پور پور نوچ کر کھا جائیں۔کمرے میں کتوں کے بھوکنے کی آواز پر گویا انہوں نے افسردگی سے کہا تھا۔ جبکہ میں نے اپنے وجود میں اُتر آنے والے سمندر میں ایک چھپاکا سا محسوس کیا ۔ جیسے کسی نے کوئی پتھر پھینک کر میری روح کو بھگو دیا ہو۔مجھے یاد آیا کہ جس راستے سے میں کالج جاتی تھی وہاں کچی بستی کے قریب کافی کتے رہتے تھے۔

میں اپنے خالی گھر میں لوٹ آئی ۔ چھٹیاں ختم ہو چکی تھی۔ میں دوبارہ اپنی کلاسز لینے لگی۔ جب ایک دن میں گھر آ رہی تھی تو میں نے دیکھا۔ سڑک کے کنارے ایک کتیا اپنے پانچ چھوٹے بچوں کو دودھ پلا رہی تھی۔ میں وہاں اُتر گئی۔ میں نے قصائی کی دوکان سے گوشت لیا اور اس کتیا کے پاس جا کر پھینک دیا۔ کچھ دن میں نے یہی کیا۔یہاں تک کہ اب میری گاڑی رکتی تو کتیا اور اس کے بچے گاڑی کے قریب آ کر بھونکنے لگتے۔ میں نے کتوں کی ٹرینگ کی ویڈیوڈاون لوڈ کیں اور دیکھنے لگی۔ ہر رات سوچتی کہ واقعی ان چودھریوں کے گھر میں میں نے کتے چھوڑ دیے۔ پھر جب وہ کتیا اور اس کے بچے مجھ سے مانوس ہو گئے تو میں ان سب کو گھر لے آئی ۔ میں نے ایک لڑکا نوکر رکھا جو ان کو سنبھالنے میں میری مدد کرتا۔وہ لڑکا میرے ساتھ ہی رہتا ،پھر کچھ عرصے بعد میں نے اسے بھی نکال دیا۔میں دوبارہ اپنے پرانے گھر گئی۔جہاں ذبیدہ سے ملی اور اسے کافی پیسے دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مجھے چودھری کے تمام گھر والوں کی تصاویر لا کر دیے۔ اس نے کچھ ماہ کا وقت لے کر ہر تصویر کے بدلے مجھ سے اچھی خاصی رقم لی۔ اس کا خیال تھا کہ میں ان پر جادو کروانے کا سوچ رہی ہوں ۔ اس نے مجھے کچھ کالا جادو کرنے والوں کے پتے بھی دیے ۔

میں نے مسکرا کر لے لیے ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو بھی میرے ارادوں کا کچھ بھی پتہ چلے میں نے اپنا یہاں قصبہ کا مکان بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔جو میرے دیور نے ایک اچھی رقم دے کر مجھ سے خرید لیا۔ میں نے دو سال بعد مکان خالی کرنے کے معائدے پر پیسے لے لیے۔ وہ بھی خوش تھا۔ اب میں نے اپنے کتوں کی تربیت یکسوئی سے شروع کی ۔ میں نے کالج کی نوکری چھوڑ دی۔مجھے شہر والا مکان بھی بیچنا پڑا میں نے ایک سنسان جگہ مکان کرائے پر لے لیا ۔ میں سارا دن روئی سے بنے پتلے بناتی ۔ باہر سے گوشت لاتی اور ان پتلوں پر چودھری کے گھر والوں کی تصاویر اس طرح سے چہرے کی جگہ چپکاتی کہ میرے کتے انہیں اچھے سے پہچان لیں۔ان پتلوں کو چیرنے کا حکم صادر کرتی ۔چھوٹے چھوٹے کتے کے بچے بڑے ہو چکے تھے ۔ وہ ان پتلوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے تو انہیں ان کی پسندیدہ خوراک ملتی ۔ میں ایک بڑے بیگ میں انہیں ڈال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی لے جاتی ۔ انہیں خاموشی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا طریقہ سکھانا ہی سب سے مشکل محسوس ہوا۔ مگر وقت اور محنت سے میں نے وہ کر لیا جو میں کرنا چاہتی تھی۔مجھے اس کام میں پانچ سال لگ گئے۔ یہاں تک کہ میں نے بڑا سا بیگ اپنی گاڑی میں رکھا۔ کتے جو اپنا نام جانتے تھے ۔ موتی ، ٹائیگر۔ پپی۔سونو۔چودھری۔اور لاڈو۔ان کی ماں بیمار ہو کر مر گئی تھی۔ بہت ہی وفا دار کتے تھے میرے۔ ایک ایک کر کے بیگ میں خاموشی سے آ کر بیٹھتے گئے۔ وہ جانتے تھے کے سکون کا مطلب ہے کہ خاموشی سے تب تک بیٹھے رہنا جب تک کہ انہیں پکارا نہ جائے۔ وہ اس قدر سمجھ دار تھے کہ میں کہہ سکتی ہو کہ رب نے ہر جاندار میں کمال رکھا ہے۔ وہ خاص میرے لیے ہی پیدا کیے گئے تھے تا کہ میں اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا بدلہ لے سکوں۔

مریم خاموش اور حیرت کا بت بنے عظمت کو دیکھ رہی تھی۔ عظمت نے پھرماضی میں غوطہ لگاتے ہوئے کہا۔ پھر وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا۔ میرے کتے انہیں نوچ نوچ کر کھا گئے ۔ میں رات کے اندھرے میں ان کے گھر داخل ہوئی ۔ چودھری صاحب سے ملنے کی درخواست کی تو نوکر اجازت لینے پیچھے پیچھے گیا میں بھی اپنے بیگ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلی گئی۔ اپنے کتوں کوبیگ سے نکالا اور چلائی بدلہ۔ وہ ان تمام لوگوں پر لپکے جنہوں نے میرے ارمان کی ہڈیاں توڑ دی تھی۔ مجھے آصف نے بتایا تھا جو ارمان کا اچھا دوست اور کزن تھا۔ اس نے چودھری کے بیٹوں اور بھتیجوں کے نام لیتے ہوئے کہا تھاکہ ارمان کو انہوں نے مدیحہ کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔

میرے کتے اپنا کام کر چکے تھے ۔ لڑکیاں بیٹھی اپنے باپ، بھائیوں اور کزنوں کو رو رہی تھی۔ عورتوں کو میرے کتوں نے سونگھا بھی نہیں ۔ وہ چیخ رہی تھی اور رو رہی تھی۔ میرے کتے سکون سے میرے پیروں میں اپنے انعام کے منتظر تھے ۔ انہوں نے میرے لیے سات لوگوں کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیا تھا۔میں نے اپنے طے شدہ مقصد کو پا لیا۔ دنیا جو انصاف مجھے نہیں دلا سکتی تھی۔ میں نے خود کو خود دلایا تھا۔ اس سب میں ان کے تین نوکر اور میرے دو کتےبھی مر گئے مگر جیت میرے کتوں کی ہی ہوئی ۔ ایسا بولتے ہوئے ، اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ وہ کوئی جنگجو لگ رہی تھی ۔جو جنگ جیت گئی ہو۔

اس نے پھر مسکراتے ہوئے کہا میں نے اپنے ارمان کا بدلہ لے لیا۔ مجھے پولیس والے نے کہا تھاکہ میں اس زندگی میں تو ان چودھریوں کا کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ اس لیے دُعا کروں کہ جلدی مر جاؤں۔ قیامت کے دن رب انصاف کرئے گا۔جب میں اسی پولیس والے کے پاس مجرم کے طور پر لائی گئی تو وہ لوگوں کی بات سن کر حیرت سے ہونٹوں پر زبان پھیرتارہا تو،کبھی مجھے دیکھتا۔ وہ پھر ہنس رہی تھی ۔ علاقے کے لوگوں نے میرے کتوں کو مار ڈالا ۔ مجھے ان کی موت کا بے حد افسوس ہے ۔ مجھے جب عدالت میں پیش کیا گیا تو میں نے کٹہرے میں کھڑے ہو کر فقط یہ ہی کہا۔ آپ مجھے سزا نہیں دے سکتے ۔ کتوں نے کتوں کو مارا تو میرا کیا قصور ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ میرے وکیل نے کہا کہ میں پاگل ہوں مجھ سے رعایت کی جائے۔ مجھے سزا دینے کی بجائے یہاں بھیج دیا گیا۔ وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔ میں پاگل نہیں ہوں ۔ نہیں نہیں میں پاگل ہی ہوں ۔ وہ ہنستی جا رہی تھی۔ پتہ نہیں چل رہا تھا۔کہ وہ واقعی پاگل تھی یا کہ وہ پاگل نہیں تھی۔اس کی کیس ہسٹری مجھے نہ پتہ تھی نہ ہی پتہ چل سکی ۔کیونکہ میری وہاں فقط ایک ہی دن کے لیے ڈیوٹی لگی تھی۔ پتہ نہیں وہ واقعی پاگل تھی یا اس کی کہانی محض کہانی ہی تھی۔ میں اور مریم دونوں ہی افسردہ تھے ۔

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 264062 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More