ٹیپو سلطان ,فاتح میسور,

جو قومیں اپنے ماضی اور ماضی کے شیرروں کو بھول جاتی ہیں وہ زندہ کہلانے کی حق دار نہیں ھوتی ہمیں اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے اپنے ماضی کے شیرروں کا دامن پکڑ کر چلنا ھوگا انکی یاد اپنی نسلوں کے دلوں کا چین بنانا ھوگی اور ایسا کرنا میں تو پسند کرتا ھوں!!

(پیدائش:20 نومبر، 1750ء -
وفات:4 مئی، 1799ء)
شہادت ایک مرد کامل کی موت نہیں بلکہ حیات انسانی کی پیدائش ہوتی ہے۔ حیات کی فنا کائنات کی بقا بن جاتی ہے۔ ملک و ملت کی خاطر بہادری اور عزت کی موت مرنے والے اپنی قوموں کے دل و دماغ میں تاقیامت زندہ رہتے ہیں اور آزادی کی تڑپ رکھنے والوں کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں ۔ ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھابلکہ حقیقی معنیٰ میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالِم بھی تھا، عابد بھی۔ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین منتظم بھی۔ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد بھی۔شیرِ میسور، سلطان حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند، ہندوستان کے اصلاح و حریت پسندحکمران، بین المذاہب ہم آہنگی کی زندۂ جاوید مثال، طغرق (فوجی راکٹ) کے موجد تھے۔زمانے میں بنگال اور شمالی ہند میں انگریز اپنے مقبوضات میں اضافے کر رہے تھے، جنوبی ہند میں دو ایسے مجاہد پیدا ہوئے جن کے نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے۔ بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم انگریزوں کی جارحانہ کاروائیوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے بے مثل سیاسی قابلیت اور تدبر کا ثبوت دیا اور میدان جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکستیں دیں۔ انہوں نے جو مملکت قائم کی اس کو تاریخ میں سلطنت خداداد میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ترميم
ٹیپو سلطان 20 نومبر، 1750ء (بمطابق جمعہ 20 ذوالحجہ، 1163ھ ) کو دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ بنگلور دیہی ضلع کا مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر (21 میل) شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر ہے۔ اسے اپنے دادا فتح محمد نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سیاسی امور میں اسے نوعمری میں ہی شامل کیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دے دیا۔ اسے اپنے والد حیدر علی جو جنوبی بھارت کے سب سے طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا تھا۔
'ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ بنگلور، ہندوستان میں 20 نومبر، 1750ء میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔
ٹیپو سلطان کا قول تھا:
” شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ “
آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔
ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 4 مئی، 1799ء کو میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
حیدر علی نے میسور کے ہندو راجہ کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن وہ اپنی بہادری اور قابلیت کی بدولت جلد ہی راجہ کی فوجوں کا سپہ سالار بن گیا۔ راجہ اور اس کے وزیر نے حیدر علی کے بڑھتے ہوئے اقتدار سے خوفزدہ ہو کر جب اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو حیدر علی نے میسور کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ راجہ کو اس نے اب بھی برقرار رکھا، لیکن اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی حکومت کا آغاز 1761ء سے ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں سلطان ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے مندرجہ ذیلنظم لکھی ہے۔
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
حیدر علی کواپنے 20 سالہ دور حکومت میں مرہٹوں، نظام دکن اور انگریزوں تینوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اگرچہ ان لڑائیوں میں اس کو ناکامیاں بھی ہوئیں، لیکن اس کے باوجود اس نے مالابار کے ساحل سے لے کر دریائے کرشنا تک ایک بہت بڑی ریاست قائم کرلی جس میں نظام دکن، مرہٹوں اور انگریزوں سے چھینے ہوئے علاقے بھی شامل تھے۔ اس نے میسور کی پہلی جنگ (1767ء تا 1769ء) اور دوسری جنگ (1780ء تا 1784ء) میںانگریزوں کو کئی بار شکست دی۔ دوسری جنگ میں حیدر علی نے نظام دکن اور مرہٹوں کو ساتھ ملا کرانگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنایا تھا اور اگر مرہٹے اور نظام اس کے ساتھ غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے تو کم از کم جنوبی ہند سے حیدر علی انگریزی اقتدار کا خاتمہ کردیتا۔ حیدر علی کی ان کامیابیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کو جدید ترین طرز پر منظم کیا اور ان کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا
سیماب اکبرآبادی نے مندرجہ ذیل نظم کے ذریعے خراج عقیدت پیش کی ہے۔
اے شہید مرد میدان وفا تجھ پر سلام
تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا
اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا
آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھو دیا
بت پرستوں پر کیا ثابت یہ تو نے جنگ میں
مسلم ہندی قیامت ہے حجازی رنگ میں
عین بیداری ہے یہ خواب گراں تیرے لیے
ہے شہادت اک حیات جاوداں تیرے لیے
تو بدستور اب بھی زندہ ہے حجاب کور میں
جذب ہو کر رہ گیا ہستی پر شور میں
ابھی میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا۔ اس کا لڑکا فتح علی ٹیپو سلطان جانشیں ہوا۔ ٹیپو سلطان جب تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر 32 سال تھی۔ وہ ایک تجربہ کار سپہ سالار تھا اور باپ کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکا تھا۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد اس نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے علاحدہ ہو چکے تھے۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو کئی شکستیں دیں اور وہ 1784ء میں سلطان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ٹیپو سلطان ایک اچھا سپہ سالار ہونے کے علاوہ ایک مصلح بھی تھا۔ حیدر علی ان پڑھ تھا لیکن ٹیپو سلطان ایک پڑھا لکھا اور دیندار انسان تھا۔ نماز پابندی سے پڑھتا تھا اور قرآن پاک کی تلاوت اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخلاقی و معاشرتی خرابیاں دور کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ شراب اور نشہ آور چیزوں پر پابندی لگائی اور شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی فضول رسومات بند کرائیں اور پیری مریدی پر بھی پابندی لگائی۔
ٹیپو سلطان نے ریاست سے زمینداریاں بھی ختم کردی تھیں اور زمین کاشتکاروں کو دے دے تھی جس سے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ ٹیپو سلطان نے کوشش کی کہ ہر چیز ریاست میں تیار ہو اور باہر سے منگوانا نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے اس نے کئی کارخانے قائم کیے۔ جنگی ہتھیار بھی ریاست میں تیار ہونے لگے۔ اس کے عہد میں ریاست میں پہلی مرتبہ بینک قائم کیے گئے۔
ان اصلاحات میں اگرچہ مفاد پرستوں کو نقصان پہنچا اور بہت سے لوگ سلطان کے خلاف ہو گئے لیکن عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ میسور کی خوشحالی کا اعتراف اس زمانے کے ایک انگریز نے ان الفاظ میں کیا ہے:
میسور ہندوستان میں سب سے سر سبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے۔ میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کے برعکس انگریزی مقبوضات صفحۂ عالم پر بدنما دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں رعایا قانون شکنجوں میں جکڑی ہوئی پریشان حال ہے۔
ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی انگریزوں کو بہت ناگوار گزری۔ وہ ٹیپو کو جنوبی ہند پر اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان صلح کو مشکل سے چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حمل کر دیا اور اس طرح میسور کی تیسری جنگ (1790ء تا 1792ء) کا آغاز ہوا۔ اس متحدہ قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا، اس لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد اس کو صلح کرنے اور اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کے لیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی اس نے ہر قسم کا عیش و آرام ترک کر دیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے ملک کو نجات دینے کے طریقے اختیار کرنے پر صرف کردی۔ نظام دکن اور مرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکا تھا اس لیے اس نے افغانستان، ایران اور ترکی تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خلاف متحدہ اسلامی محاذ بنانا چاہا لیکن افغانستان کے حکمران زمان شاہ کے علاوہ اور کوئی ٹیپو سے تعاون کرنے پر تیار نہ ہوا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا۔ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر افغانستان پر حملہ کرادیا تھا اس لیے زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ جبکہ عثمانی سلطان سلیم ثالث مصر سے فرانسیسی فاتح نپولین کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد کے باعث انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی مدد نہ کر سکا۔
انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی باعزت حکمران قبول نہیں کر سکتا تھا۔ نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے انگریزوں کی بالادستی قبول کر چکے تھے لیکن ٹیپو سلطان نے ان شرائط کو رد کر دیا۔ 1799ء میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ اس مرتبہ انگریزی فوج کی کمان لارڈ ویلیزلی کر رہا تھا جو بعد میں 1815ء میں واٹرلو کی مشہور جنگ میں نپولین کو شکست دینے کے بعد جنرل ولنگٹن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس جنگ میں وزیر اعظم میر صادق اور غلام علی اور دوسرے عہدیداروں کی غداری کی وجہ سے سلطان کو شکست ہوئی اور وہ دار الحکومت سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے کے باہر بہادری سے لڑتا ہوا 4 مئی 1799ء کو شہید ہو گیا۔ سراج الدولہ، واجد علی شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے مقابلے میں اس کی موت کتنی شاندار تھی۔ انگریز جنرل ہیرس کو سلطان کی موت کی اطلاع ہوئی تو وہ چیخ اٹھا کہ "اب ہندوستان ہمارا ہے"۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا۔ حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے۔ باوضو رہنا اور تلاوتِ قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسلامی ہند میں نظام الملک آصف جاہ، حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والا تیسرا کوئی حکمران نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو اسلامی تاریخ میں اس لیے بلند مقام حاصل ہے کہ انہوں نے دور زوال میں انگریزوں کا بے مثل شجاعت اور سمجھداری سے مقابلہ کیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے دور زوال کے ان حکمرانوں میں سے ہیں جنہوں نے نئی ایجادوں سے فائدہ اٹھایا۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی مملکت میں فوجی، انتظامی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں نے فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی افواج کی جدید انداز پر تنظیم کی جس کی وجہ سے وہ انگریزوں کا 35 سال تک مسلسل مقابلہ کرسکے اور ان کو کئی بار شکستیں دیں۔ یہ کارنامہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں انگریزوں کا جتنا کامیاب مقابلہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے کیا کسی اور مسلم اور غیر مسلم حکمران نے نہیں کیا۔ ٹیپو سلطان سلطنت عثمانیہ کے سلیم ثالث کا ہمعصر تھا۔
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
ٹیپو سلطان 4 مئی، 1799ء میں سرنگا پٹم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے انتقال کر گئے۔ اور دوران قرآن كى آیت پڑھتے ہوئے،وہ شیر نوجوان چار مئی کو سرنگا پٹم کی ٹوٹی ہوئی فصیل تلے انگریزوں سے لڑ کر جام شہادت نوش کرنے والا اسلام کا جیالا سپاہی، ہمارا وہ عظیم ہیرو جسے ہم بھلا چکے ہیں۔
اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔
دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557926 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More