ارے یہ اتنا بڑا فوڈ کارنر کس کا ہے اور یہ ضرورتمند
افراد کے لئے مفت افطار، لگتا ہے پیسے کمانے کا طریقہ ہے؟
میرے دوست وسیم نے حیرت سے پوچھا. میں نے ہنس کر کہا :
" یہ اپنے رمضان بهائی کا فوڈ کارنر ہے. آو میں تمہیں ان کی کہانی سناتا
ہوں اب سے دو سال پہلے جب میں رمضان بهائی سے ملنے ان کے چھوٹے سے فوڈ
کارنر پر گیا.تو رمضان بهائی کے ماتھے پر تفکرات کی لکیریں کھنچی ہوئی تھیں.
وه بار بار اپنے ماتھے کو سہلاتے.
رمضان بھائی ایک چھوٹا سا فوڈ کارنر ہمارے محلے کے کونے میں چلاتے تھے. ان
کے فوڈ کارنر پر کولڈ ڈرنکز، قلفیاں ،سموسہ چاٹ اور دہی بهلے بیچتے ان جیسے
انتہائی ایماندار شخص میں نے زندگی میں کم ہی دیکهے ہیں .اپنے ہاتھ سے
سموسہ چاٹ اور دہی بهلے بناتے . ان کے ہاتھ میں اللہ نے ذائقہ دیا مگر اصل
برکت اس ذکر کی ہے جو وہ اپنے کام کے اوقات میں زیر لب کرتے رہتے ہر وقت
کسی سورہ کی تلاوت یا درود کا ورد ان کی عادت ہے جو آج تک قائم ہے.
ان کا خاندان ان کی اماں،بیگم اور سات بچوں پر مشتمل ہے. سونے پر سہاگہ وه
سات بہنوں کے اکلوتے بھائی بھی ہیں. فوڈ کارنر ان کا کرائے کا تها.اس دن
مجھے انہوں نے بتایا کہ ان کی سوچ کا دھارا اس لئے منتشر تھا چونکہ رمضان
المبارک کی آمد آمد تی. ارے ارے تم رمضان بھائی کے متعلق غلط اندازہ لگا
رہے ہوں.وه تو بہت عقیدت اور محبت سے اس مقدس مہینے کا انتظار کرتے ہیں. ان
کی پریشانی کا باعث درحقیقت وہ مہنگائی کا جن تها جو ہر رمضان میں بے قابو
ہوکر ان کی سال بھر کی بچت کهالیتا تها. اس سال تو ان کے ابا کی بیماری اور
موت پر ان کی بچت پہلے سے خرچ ہوچکی تھی. اس لئے اب وه سر پکڑ بیٹهے تھے.
رمضان کے مہینے میں ان کی کمائی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی تھی.ان کو دکان
کا کرایہ تک اپنے پلے سے دینا پڑهتا تھا. پھر سات بہنوں کے گھر عیدی دینا
اور عید والے دن سب کو اپنے گھر میں کھانے کی دعوت دینا پهر اپنے بچوں کے
کپڑے لتے کا خرچہ اور رمضان میں خوردونوش کی اشیا کے مہنگے دام دینا یہ سب
کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا تھا. مگر اس دفعہ تو ان کا دماغ سوچ سوچ
کر چکرا گیا تھا مگر ان کو کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا. انہوں نے مجھے اپنی
کہانی قسطوں میں سنائی تھی مگر میں تمہارے سوال کے جواب میں تمہیں ترتیب سے
سنا رہا ہوں.
اس دن سوچ کے چپو چلا چلا کر جب وہ ہار گئے توآخرکار انہوں نے تهکے تهکے
قدموں سے گهر کی طرف رخ کیا .گهر پہنچ کر ابھی انہوں نے سانس نہیں لیا تھا
تو اماں نے ان کو یاد دلایا کہ ان کی بڑی بیٹی کے سسرال بھی عیدی جائے گی.
اس لئے منگنی کے بعد پہلی عید ہے اور ان کو افطاری پر بھی بلانا پڑے گا.
نیز عید والے دن بھی ان کو بہنوں کے ساتھ دعوت پر بلانا پڑے گا. رمضان
بهائی کی ہمت ایک دم ختم ہوگئی. ان کی اہلیہ نے ان کے آگے کھانا لگایا تو
انہوں نے چند لقمے زہر مار کئے ان کا زہن مسلسل جمع تفریق میں مصروف تھا.
نماز کے بعد وہ دیر تک جهولی پھیلا کر بیٹھے رہے. خاموش آنسو چہرے کو تر
کرتے رہے. مگر لفظ ساتھ نہیں دے رہے تھے .
صبح حسب معمول نماز کے بعد انہوں نے دکان کی سموسہ چاٹ اور دہی بهلے تیار
کیے اور سامان اپنی وین میں ڈال کر نکل گئے.
دکان اپنے معمول کے مطابق چل رہی تھی. شام سات بجے کے قریب کچھ امیروں کی
بگڑی ہوئی اولادیں ان کے فوڈ کارنر پر پدھاریں. پهٹی ہوئی تنگ جین کی
پینٹوں میں ملبوس انگریزی گانوں پر سر دهنتے، انگریزی میں باتیں کرتے رمضان
بهائی کو تو وہ کسی اور سیارے کی مخلوق لگے. انہوں نے اگرچہ صرف کولڈ ڈرنک
کا آرڈر دیا تھا مگر رمضان بهائی نے حسب عادت ان کے آگے دو دو چاٹ اور دہی
بهلوں کی پلیٹیں رکھ دیں. پہلے تو وہ ان کو دیکھ کر منہ بناتے رہے مگر کسی
ایک کے مشورے پر انہوں نے دونوں چیزوں کو چکها اور پاگل ہوگئے .اب تو جو
انہوں نے بڑا آڈر رمضان بهائی کو دیا کہ رمضان بهائی حیران ہوگئے. جاتی
دفعہ ایک بھاری رقم کی ٹپ بھی دی.
پورا رمضان المبارک کا مہینہ رمضان بهائی کا ان امیر گهر آنوں میں سموسہ
چاٹ اور دہی بهلے کے آرڈر پورے کرتے گزرا. اس دفعہ رمضان بهائی نے اپنے گهر
کی ذمہ داریوں کے علاوہ دو بیوہ خواتین کے گهروں کی کفالت بھی کی.اب تو
رمضان بهائی جتنا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.اللہ پہلے سے بھی زیادہ ان
کا دامن بهر دیتا ہے.
رمضان بهائی نہ صرف سارا سال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں بلکہ سارا رمضان
ضرورتمند افراد کو مفت افطار بهی کرواتے ہیں. سورۂ بقرہ میں ارشاد ربانی
ہے: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کئے ہوئے مالوں کی
حالت ایسی ہے، جیسے ایک دانہ جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی کے
اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے چاہے بڑھا دے اور اللہ بڑی وسعت والا
اور جاننے والا ہے‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا کہ کس طرح
سے نیک اعمال کا اجر و ثواب بڑھاکر عطا کیا جاتا ہے، جیسا کہ ایک روپیہ خرچ
کرنے پر سات سو روپئے خرچ کرنے کا ثواب دیا جائے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے
تو اپنے فضل سے اس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے۔ اسی سورہ میں ایک جگہ
فرمایا: ’’کون ہے جو اللہ کو بہترین قرض پیش کرے کہ اللہ اس کے لئے اس کو
کئی چند فرمادے‘‘
تو میرے پیارے دوست وسیم ہمیشہ شک کی نظر سے دنیا کو دیکهنے کے بجائے اس
بات پر یقین رکھو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کا ذمہ اللہ نے خود لیا
ہے . |