میرے ابو کی ایک چھوٹی بہن تھیں جو پیدائشی بیمار تھیں
انہیں ٹی بی تھی مستقل دواؤں اور پرہیزی کھانوں پر زندگی گذار رہی تھیں ۔
ابو امی کی شادی پر انہوں نے جی بھر کر بدپرہیزی کی اور منع کرنے سمجھانے
پر کہا میرے بھائی کی شادی ہے مجھے اب تو ذرا ڈھنگ کا کھانا کھا لینے دو ۔
بریانی بگھارے بینگن دالچہ غرض سب مرغن چٹپٹے اور کھٹے کھانے انہوں نے دل
بھر کر کھائے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چوتھے روز ان کی حالت بگڑ گئی اور آٹھویں
روز انتقال ہو گیا ۔ خاندان کی عورتوں نے میری دادی سے کہا کہ آپ کی بہو
بہت منحوس اور سبز قدم ہے آتے ہی آپ کی بیٹی کو کھا گئی ۔ یہ سب وہ عورتیں
تھیں جن کی بیٹیوں سے ابو نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیا تھا کہ سب
میری بہنیں ہیں اور دادی سے خاندان سے باہر لڑکی دیکھنے کے لئے کہا تھا ۔
پھر میری امی ان کے ہاتھ لگ گئیں شہر کی پڑھی لکھی خوبصورت شربتی آنکھوں
اور گھٹنوں تک لمبے بالوں والی امی کو دیکھ کر تو ویسے ہی پورا خاندان جل
بھن کر خاک ہؤا پڑا تھا اب جو ایک دائمی بیمار لڑکی خود اپنی بدپرہیزی اور
اللہ کی طرف سے اپنا وقت پورا ہو جانے پر دنیا سے رخصت ہو گئی تو گویا ان
سب کی مراد ہی پوری ہو گئی دادی کے دل میں امی کے خلاف زہر بھرنے کے لئے ۔
انہیں یقین دلا دیا گیا کہ آپ کی بہو ہی آپ کی بیٹی کی جوانمرگی کی ذمہ دار
ہے اور دادی کے دل میں ایسی گرہ پڑی کہ پھر ساری زندگی کھل نہ سکی ۔ امی نے
اپنے اوپر لگے ہوئے اس داغ کو دھونے کے لئے دادی کو اپنی کھال کی جوتیاں
بنا کر پہنا دیں مگر وہ ان کا دل نہ جیت سکیں ۔ وہ ویسے بھی مزاجاً ایک سخت
گیر قسم کی خاتون تھیں بیٹی کی موت نے ان کے دل کو امی کے لئے پتھر بنا دیا
تھا ۔ جب تک دادی زندہ رہیں امی اس جرم کی سزا بھگتتی رہیں جو انہوں نے کیا
ہی نہیں تھا ۔ اس واقعے کے اثرات ان کی پوری زندگی پر محیط ہو گئے تھے میرے
ابو بہت محنتی اور کماؤ تھے امی کو ایک بہتر زندگی دینے کے لائق تھے مگر اس
واقعے کی وجہ سے وہ بھی دباؤ میں رہتے تھے اور مکمل طور پر اپنے والدین کے
کنٹرول میں تھے خود اپنی محنت کی کمائی کو اپنی مرضی سے خرچ تک نہیں کر
سکتے تھے ان کی کوئی مرضی یا اختیار نہیں تھا امی کو بہت کم خرچ ملتا تھا
جس کی وجہ سے وہ سخت محنت و مشقت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور تھیں کفایت
شعاری اور سلیقہ مندی میں انہوں نے مبالغے کی حدوں کو چھو لیا تھا ۔ ایسا
شاید اس وجہ سے ہؤا تھا کہ انہوں نے بھی خود کو مجرم تسلیم کر لیا تھا وہ
صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہیں دفاع کی جنگ میں انہوں نے لڑے بغیر ہی
ہتھیار ڈال دیئے ۔ (رعنا تبسم پاشا) |