قائد اعظم کے یوم پیدائش کے
حوالے سے خصوصی تحریر
”جس روز قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا،میں اُس روز
کراچی میں تھا،افتتاحی تقریب کے بعد اُن کی واپسی سے کچھ پہلے میں وائی،ایم
،اے بلڈنگ کے پیچھے جاکر ایوان صدر کے بڑے گیٹ کے سامنے کھڑا ہوگیا،اُس جگہ
بھیڑ نہیں تھی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میرے قریب ایک شخص بھی نہیں
تھا،تھوڑی دیر کے بعد دور سے قائد اعظم کی کھلی گاڑی آتی دکھائی دی،آہستہ
آہستہ یہ گاڑی عین میرے سامنے آگئی،میں نے اپنے قائد کو جی بھر کے
دیکھا،سفید شیروانی اور اپنی مخصوص ٹوپی پہنے وہ بالکل سیدھے بیٹھے تھے،اُن
کے ساتھ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔
گاڑی ابھی صدر دروازے کی طرف مڑنے ہی والی تھی کہ قائد اعظم نے آہستہ سے
اپنی گردن بائیں طرف گھمائی اور اُن کی نظریں سیدھی میرے چہرے پر پڑیں،بے
ساختگی میں میرا داہنا ہاتھ ماتھے کی طرف اٹھا....اور ....پھر ....اور
....پھر....وہ وہیں جم کر رہ گیا....یااللہ ....! میرے ہاتھ کے ساتھ ہی
میرے قائد کا ہاتھ بھی ماتھے کی طرف اٹھا،میرے قائد نے میرے سلام کا جواب
دیا....میرے قائد نے ایک واحد ہاتھ کا سلام قبول کیا....میرے قائد نے ایک
گمنام شخص کا سلام قبول کیا....میرا قائد اسلامی روایات کا پابند ہے
....میرا قائد مکمل مسلمان ہے ۔“
قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے سید اشفاق نقوی کے یہ جذبات مسلمانان
برصغیر کی دلی کیفیت کے آئینہ دار ہیں،رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں کہ ”قائد
اعظم کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی یہ ہوتی چلی آرہی ہے کہ اُن پر لکھنے
والوں میں سے کسی نے بھی آپ کو مومنانہ صفات، مذہبی جذبات، دینی تاثرات،
اسلامی رجحانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا،جیسے دین و مذہب سے آپ کا کوئی
واسطہ ہی نہ ہو، حالانکہ آپ کا ہر ارشاد، ہر بیان، ہر تقریر اسلام کے رنگ
میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھی،گو آپ منافقین کی طرح اسلام،اسلام کی رٹ نہیں لگاتے
تھے،بلکہ اٹھتے بیٹھتے اسلام ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے
مطابق پیش کرتے تھے،اگر آپ کی ہر تقریر اور ارشاد کا دیانت دارانہ جائزہ
لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اترے گا۔“
آج قائد اعظم محمد جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر ہم ان کی زندگی کے وہ چند
واقعات آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں جو قائد کی زندگی کے دینی،مذہبی اور
اسلامی پہلو وں کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے ہیں، اگرچہ قائد اعظم بظاہر
معنوی اعتبار سے مذہبی رہنما نہیں تھے لیکن یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ
برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی منزل سے روشناس کرنے والے قائد کا
خدا،رسول اور اپنے دین و مذہب پر کتنا کامل یقین تھا اور وہ کتنے پختہ
اصولوں کے مالک تھے،شاید اسی وجہ سے جناب مجید نظامی نے کہا کہ”اُن کی
شخصیت کا خمیر سنہرے اصولوں کی روشن مٹی سے اٹھا تھا اور ان کی پوری زندگی
ایک زندہ کرامت تھی ۔“
خواجہ اشرف احمد بیان کرتے ہیں کہ”3مارچ1941ءکو لاہور ریلوے اسٹیشن کے
سامنے آسٹریلیا مسجد میں نماز عصر ادا کرنا تھی،جب قائد تشریف لائے تو مرزا
عبدالحمید تقریر کررہے تھے،مسجد کچھا کچ بھری ہوئی تھی،قائد موٹرکار سے
برآمد ہوئے تو انہوں نے اچکن،چوڑی دار پاجامہ اور بٹلر شوز پہن رکھے تھے،
اُن کی آمد پر لوگوں میں ہلچل پیدا ہوئی،لیکن وہ فوراً سنبھل گئے کہ قائد
اعظم نظم و ضبط کے انسان تھے،وہ مسجد کے بغلی دروازے میں داخل ہوئے ،اگلی
صف تک راستہ بن گیا،لیکن قائد نے یہ کہتے ہوئے اگلی صف میں جانے سے انکار
کردیا ”میں آخر میں آیا ہوں اسلئے یہیں بیٹھوں گا“سیاست میں آگے جانے والا
خانہ خدا میں سب سے پیچھے بیٹھا،نماز سے فارغ ہونے کے پر قائد نے جو کام
فوراً کیا وہ یہ کہ اپنے جوتے اٹھا لیے،ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ قائد کے
جوتے اٹھانے کی سعادت حاصل کرے،لیکن ہر کسی کی حسرت ہی رہی، لوگ بعد میں
اُن کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش ہی کرتے رہے،لیکن قائد کی گرفت آہنی
تھی، وہ ہجوم میں اپنی ریشمی جرابوں سمیت کوئی تیس قدم بغیر جوتوں کے چلے
اور اصرار اور کوشش کے باوجود کسی شخص کو اپنا جوتا نہیں پکڑایا۔
جناب مختار زمن کہتے ہیں کہ ”میرے والد آگرہ میں جج تھے،انہوں نے بتایا کہ
ایک دفعہ قائد اعظم کسی کیس کے سلسلے میں آگرہ تشریف لائے،اس موقع پر مسلم
لیگ نے جلسہ کرنا چاہا،لیکن قائداعظم نے اس میں شرکت سے انکار کردیا اور
کہا،میں اپنے موکل کی طرف سے پیش ہونے آیا ہوں،جس کی وہ فیس ادا کرچکا
ہے،میں خیانت کیسے کروں،آپ جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو بعد میں بلا لیں ،میں
اپنے خرچ پر آؤنگا۔ “نواب صدیق علی خان کہتے ہیں کہ ”جارج ششم شاہ انگلستان
کے زمانے میں ہندوستان کیلئے مزید اصلاحات کے سلسلے میں قائد اعظم لندن
تشریف لے گئے،مذاکرات جاری تھے کہ قصر بکنگھم سے ظہرانے کی دعوت موصول
ہوئی،اُس زمانے میں قصر بکنگھم کی دعوت ایک اعزاز ہی نہیں بلکہ یادگار موقع
ہوتا تھا لیکن قائداعظم نے یہ کہہ کر اس دعوت میں شرکت کرنے سے معذرت کرلی
کہ ”آجکل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں
۔“
تحریک پاکستان کے آخری مرحلے میں قائداعظم نے مسلم عوام سے چاندی کی گولیوں
کی اپیل کی،اس پر عام مسلمان مردوں ہی نے نہیں عورتوں نے بھی لبیک کہا اور
اپنا زیور تک لیگ فنڈ میں دینا شروع کردیا، لیکن قائد اعظم نے اس چندے کو
قبول نہیں کیا،ایک روز بیگم شائستہ اکرام اللہ نے قائد اعظم سے پوچھا،سر یہ
مسلمان خانہ دار عورتیں اتنے شوق سے اپنے ہاتھوں کے کنگن اور بالیاں اتار
اتار کر مسلم لیگ کو دیتی ہیں اور آپ انہیں قبول نہیں کرتے،واپس کردیتے
ہیں،عجیب سا لگتا ہے،کیا یہ ایک قابل قدر جذبے کی توہین نہیں ہے،قائد اعظم
نے کہا نہیں یہ بات نہیں،کوئی اور لیڈر ہو تو شاید اسے اپنی بڑی کامیابی
سمجھے،لیکن میں سیاست میں جذباتیت کو پسند نہیں کرتا،ان خواتین کو چاہیے کہ
وہ زیورات کا عطیہ کرنے سے پہلے اپنے اپنے شوہروں سے پوچھیں،اُن سے اجازت
لیں اور پھر دیں۔“
دہلی مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کا جلسہ امپیریل ہوٹل میں ہورہا تھا،خاکساروں نے
گڑبڑ کی،سارا ہنگامہ قائد اعظم کے خلاف تھا،لیکن سارے ہنگامے میں جو شخص سب
سے پرسکون رہا،وہ خود قائداعظم تھے،جب میٹنگ انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوگئی
تو وہ بڑے اطمینان سے تنہا باہر جانے لگے،یہ دیکھ کر پیرآف مانکی شریف نے
آپ سے کہا ،آپ اس طرح باہر نہ جائیے ،کہیں آپ کو کچھ نہ ہوجائے،ہم آپ کے
ساتھ چلتے ہیں،قائد اعظم نے کہا نہیں،اس کی ضرورت نہیں اور آسمان کی طرف
انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ،کیا وہ (خدا)وہاں نہیں؟۔
اسی طرح 1946ء میں جب قائد اعظم شملہ تشریف لے گئے تو بعض لیگی کارکنوں نے
محسوس کیا کہ قائداعظم کیلئے خصوصی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے،ایک کارکن
نے آپ سے کہا جناب ہمیں معلوم ہے کہ دشمن آپ کی جان کے درپے ہیں،اسلیئے
اجازت دیجئے کہ ضروری حفاظتی اقدامات کئے جائیں،جس پر قائداعظم نے فرمایا
مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے،خدا ہی سب سے بڑا محافظ اور چارہ ساز ہے،آپ
فکر مند نہ ہوں۔
اپریل 1945ءمیں قائد اعظم خان آف قلات کی دعوت پر بلوچستان تشریف لے گئے اس
موقع پر خان آف قلات نے ان سے بچوں کے ایک ا سکول کے معائنہ کی درخواست
کی،قائد اعظم ننے منے بچوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اُن سے گھل مل گئے،
قائداعظم نے ایک بچے سے خان آف قلات کی جانب اشارہ کر کے پوچھا یہ کون
ہیں،بچے نے جواب دیا یہ ہمارے بادشاہ ہیں،قائد اعظم نے بچے سے پوچھا،میں
کون ہوں،بچہ بولا،آپ ہمارے بادشاہ کے مہمان ہیں،قائد نے پھر بچے سے
پوچھا،تم کون ہو،بچہ بولا،میں بلوچ ہوں،قائد اعظم نے خان آف قلات سے کہا،اب
آپ ان کو پہلا سبق یہ پڑھائیے کہ میں مسلمان ہوں اور بچوں سے مخاطب ہوکر
ارشاد فرمایا،بچوں....! تم پہلے مسلمان ہو،پھر بلوچ یا کچھ اور ہو ۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے ایک موقع پر جب قائداعظم
کوئٹہ میں قیام پزیر تھے،ان کی کچھ ایسی تصویریں دکھائیں جو انہوں نے کھنچی
تھیں،قائد اعظم نے اُن سے اپنی مزید تصویریں کھینچنے کی فرمائش کی،یحییٰ
بختیار نے عذر پیش کیا،لیکن قائداعظم نے اُن کا عذر مسترد کردیا،دوسرے دن
جناب یحییٰ بختیار اپنا کیمرہ اور فلیش لے کر قائداعظم کی رہائش گاہ
پہنچے،اُس وقت قائداعظم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر
مشتمل ایک کتاب جس کا ٹائیٹل ”الحدیث“تھا مطالعہ فرما رہے تھے،یحییٰ بختیار
چاہتے تھے کہ کہ وہ قائداعظم کی تصویر ایسے زاویہ سے لیں کہ کتاب کا ٹائیٹل
بھی فوکس میں آسکے،لیکن قائداعظم نے تصویر کھنچوانے سے پہلے کتاب علیحدہ
رکھدی اور یحییٰ بختیار سے فرمایا ”میں ایک مقدس کتاب کو اس قسم کی پبلسٹی
کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا ۔“
قائداعظم کے معالج ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ”ایک
بار دوا کے اثرات دیکھنے کیلئے ہم ان کے پاس بیٹھے تھے،میں نے دیکھا کہ وہ
کچھ کہنا چاہتے ہیں،لیکن ہم نے اُن کو بات چیت سے منع کر رکھا تھا،اسلیئے
الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے،اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کیلئے ہم نے
خود انہیں بولنے کی دعوت دی،تو وہ بولے،”تم جانتے ہو،جب مجھے یہ احساس ہوتا
ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے،یہ مشکل
کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کرسکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا،اب یہ
پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں،تاکہ خدا اپنا
وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے، پاکستان میں سب کچھ
ہے،اس کی پہاڑیوں ،ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات
بھی،انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے،قومیں نیک نیتی،دیانت
داری،اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں،منافقت،زر
پرستی اور خود پسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں ۔“ |