فرمانرواں سعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ملک میں
مالیاتی اور انتظامی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور شکایت کرنے والے ہر سرکاری
عہدیدار کو مناسب تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ انہیں بعد میں کسی
قسم کی انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی
عرب کے انسدادِ بدعنوانی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر خالد الہیسن نے کہاکہ خادم
الحرمین الشریفین کی ہدایت سے ان کی اس معاملے میں دلچسپی اور تشویش کی
عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالد المہیسن کا کہنا ہیکہ سعودی قیادت کرپشن کی تمام
شکلوں سے نمٹنے کے لئے پرعزم ہے اور وہ رشوت خور عناصر سے کوئی رو رعایت
برتنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لئے سعودی عرب کے ویژن 2030 کے تحت بدعنوانیوں
کو بے نقاب کرنے والوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ سعودی حکومت نے اپنی
اولین ترجیح میں ویژن 2030کے تحت ملک میں شفافیت اور بدعنوانیوں کے خلاف
کارروائی کو شامل کیا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سعودی عرب میں شاہ
سلمان بن عبدالعزیز کے دورِ حکومت میں کئی ایک تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی
ہیں۔ ملک میں ایک طرف تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑرہا ہے تو
دوسری جانب شاہی حکومت اپنے شہریوں کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے وسیع تر
انتظامات کررہی ہے۔ ملک کی معیشت کو پٹرول پر انحصار کرنے کے بجائے مختلف
تفریحی پروگراموں اور ذرائع روزگار میں حصہ لینے کیلئے خواتین کے لئے اجازت
دی جارہی ہے۔ سعودی شاہی حکومت شہریوں کے معیار زندگی کو جدیدیت میں ڈھالنے
اور انہیں کھیل کوداور دیگر تفریحی سہولتیں مہیا کرنے کے پروگرام کو قطعیت
دی گئی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس پروگرام کے تحت 2020تک 50ارب سعودی
ریال یعنی 13ارب ڈالر سے زائد رقم صرف کی جائے گی۔ 4؍ مئی کو سعودی عرب کے
دارالحکومت ریاض میں ہونے والی ایک تقریب میں جنرل انٹرٹینمنٹ اتھاریٹی کے
چیرمین احمد خطیب کے مطابق اس پروگرام کے ذریعہ جسے زندگی کے بہتر معیار کا
نام دیا گیا ہے ۔2020 تک روزگار کے تین لاکھ مواقع پیدا ہونگے۔ ان کا کہنا
تھا کہ روزگار کے زیادہ تر مواقع جنرل اسپورٹس اتھاریٹی کے ذریعہ فراہم
ہونگے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ سعودی شاہی حکومت میں حالیہ مہینوں
میں کئی تبدیلیاں ہوئیں ہیں جن میں سینما گھروں کا دوبارہ کھلنا اور اس میں
مزید اضافہ اور موسیقی کی تقریبات کا انعقاد، تفریحی مقامات ، کھیل کے
میدانوں میں خواتین کو جانے کی اجازت دینا اور خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت
دینا شامل ہے۔ سعودی معاشرے میں ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں فی الحال کوئی
خاص مخالفت نظرنہیں آتی اس کا مطلب یہ نہیں کہ سعودی شہری جو مذہبی اقدار
اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہیں ، ملک میں بدلتے حالات کو بآسانی قبول
کرلیں گے ۔ ملک میں شاہی حکومت کی باگ ڈوربہت ہی مضبوط ہے اور ولیعہد
شہزادہ محمد بن سلمان کو جو وسیع تر اختیارات شاہ کی جانب سے حاصل ہیں اس
کے خلاف آواز اٹھانا سعودی شہریوں کیلئے اپنے آپ کو حکومت کے عتاب کا شکار
ہونا پڑے گا۔ ہندو پاک کے عوام جس طرح اپنی حکومت کے خلاف آواز اٹھاسکتے
ہیں ،انہیں جس طرح کی آزادی حاصل ہے اس طرح سعودی شہریوں کوسعودی عرب کی
شاہی حکومت کے خلاف آواز اٹھانا انتہائی مشکل امر ہے۔ اگر کوئی سعودی شہری
شاہی حکومت کے خلاف کچھ کہہ دے توپھر اس کا حشر کچھ بھی ہوسکتا ہے اسی لئے
سعودی شہری جب ایک دوسرے سے آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو وہ اپنی شاہی حکومت
کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ انکا
مدّمقابل حکومت کا جاسوس تو نہیں یا پھر وہ کسی طرح شاہی حکومت کے خلاف کہے
جانے والے الفاظ کسی اور کو کہہ دے تو اسکا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ اسی
طرح دیگر اسلامی و عرب ممالک اور ایران وغیرہ کا بھی یہی حال ہے، یہاں عوام
کوحکومت کے خلاف کسی قسم کا احتجاج کرنیکی اجازت نہیں ہے ۔اسلامی ممالک میں
جہاں قانونِ شریعت کے مطابق ایک شخص کواچھے اور بُرے حالات میں انصاف کے
تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے حق بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے وہ ان اسلامی
و عرب ممالک میں شاید نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خیرسعودی شاہی حکومت جس طرح
ملک میں بدعنوانیوں کے سدّباب کے لئے وسیع تراقدامات کررہی ہے یہ قابلِ
تحسین اقدام ہے کیونکہ ہزاروں تارکین وطنوں کو بھی سعودی عرب میں مقیم رہنے
کے لئے یا فیملی ویزا و دیگر ضروری کاغذات حاصل کرنے کے لئے سعودی کفیلوں
کے ذریعہ یا ایجنٹوں کے ذریعہبعض عہدیداروں کو رشوت دینی پڑتی تھی جس کا
شاہی حکومت کے فیصلہ کے بعد خاتمہ ہوجائے گا اگر واقعی رشوت ستانی اور
بدعنوانی کے واقعات کا خاتمہ ہوتا ہے تو یہ سعودی شاہی حکومت کا سب سے بڑا
کارنامہ ہوگا کیونکہ ملک میں رشوت ستانی کے معاملات میں بے تحاشہ اضافہ
ہواہے ۔
شاہ سلمان ریلیف مرکز کی یمن کے لیے امداد
یمن کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں،حوثی باغیوں کا عبدربہ منصور ہادی
حکومت کے خلاف بغاوت نے ملک بُرے دور سے گزررہا ہے۔ ایک طرف حوثی باغیوں کی
بغاوت اور عوام پر جبرو استبداد تو دوسری جانب سعودی عرب اور دیگر اتحادی
ممالک کی جانب سے حوثی بغاوت کو کچلنے کے لئے فضائی کارروائیوں نے ملک میں
کئی ایک امراض کو جنم دیا ہے۔ اس وقت عوام غذائی اجناس اور ادویات سے محروم
ہیں جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں عوام مزید کئی خطرناک حالات سے دوچار
ہوسکتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت ’’ڈبلیو ایچ او‘‘ کی جانب سے یمنی عوام کو
بیماریوں سے بچانے اور انہیں موثر غذا و ادویات فراہم کرنے کے لئے عالمی
سطح پر اپیل کرچکے ہیں جس کی وجہ سے بعض ممالک یمنی عوام کے لئے امداد
فراہم کررہے ہیں ۔ حوثی بغاوت کو کچلنے کے لئے جس ملک کی قیادت میں حملے
کئے جارہے ہیں وہی ملک یعنی سعودی عرب یمن میں امداد فراہم کرنے میں بھی
پیش پیش دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان انسانی امداد مرکز نے
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے یمن کے جنوبی شہر عدن میں زندگی
بچانے والے گیارہ آکسیجن اسٹیشنزفراہم کردئیے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈبلیو
ایچ او کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہاگیاکہ یہ گیس اسٹیشنز سعودی
عرب کی امدادی تنظیم کی مہیا کردہ امداد سے ہی یمن بھیجے جاسکے ہیں ۔ان میں
سے سات عدن کی بندرگاہ پر پہنچ چکے ہیں اور اب متعلقہ ہاسپتالوں میں ان کی
تنصیب کا کام باقی رہ گیا ہے۔یمن میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر نیویو
زاگاریا نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ ملک میں مراکزِ صحت
میں بنیادی سہولتوں اور ضروریات کا فقدان ہے۔عالمی ادارہ صحت ادویہ ، طبی
سامان ، ایندھن ، پانی اور آکسیجن اسٹیشنوں کی طرح کے آلات ترجیحی بنیاد پر
اسپتالوں کو بھیج رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او اب ان نئے آنے والے اسٹیشنوں کی
تنصیب کے لیے عدن میں گیارہ نئے آکسیجن اسٹیشن گھروں کی تعمیر کی منصوبہ
بندی کررہا ہے ۔زندگی بچانے والے ان آلات کی متحدہ عرب امارات کی انجمن
ہلال احمر ، او ایف ڈی اے اور عالمی بنک کی معاونت سے تنصیب کی جائے
گی۔ڈاکٹر زاگاریا کا کہنا تھا کہ یمن میں جاری لڑائی کو چار سال ہونے کو
ہیں اور یمنی عوام کو بنیادی حفظانِ صحت کی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔ملک کے
نصف سے زیادہ مراکز صحت اورہاسپتال مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں،یا
وہ فعال نہیں رہے ہیں اور اب پہلے سے کہیں زیادہ لوگ وبائی امراض کا شکار
ہونے کا خدشہ ہے۔یمن کے حالات پر قابو پانے کے لئے عالمی سطح پرحوثی باغیوں
سے بات چیت ضروری ہے ، یمن اور شام کی خانہ جنگی اور بغاوت کی وجہ سے سعودی
عرب کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ سعودی عرب کی قیادت میں یمن
میں اتحادی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ آج بھی سعودی عرب کا مجموعی بجٹ
خسارہ میں بتایا جارہا ہے ،وزیر مالیات الجدعان کے مطابق پہلی سہ ماہی
رپورٹ میں مجموعی خسارہ 34.329 ارب ریال بتایا گیا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ
یمن میں سعودی عرب کا حصہ لینا سمجھا جارہا ہے۔ سعودی عرب اپنے دفاع کے لئے
وسیع تر انتظامات کررہاہے جس کی وجہ سے اسے کروڑہا ڈالرس کے دفاعی ہتھیار
خریدنے پڑرہے ہیں ،حوثی باغی جس طرح سعودی عرب پر میزائل حملے کررہے ہیں اس
کے جواب میں سعودی عرب بھی یمن میں موجود حوثی ٹھکانوں کونشانہ بناتے ہوئے
اسے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔یمن میں سعودی عرب اور دیگر ممالک کی
جانب سے دی جانے والی امداد ہاسپتلوں اور مریضوں تک پہنچنی ضروری ہے کیونکہ
ذرائع ابلاغ کے مطابق جو خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں اس کی رو سے یہ بات ظاہر
کرتی ہیکہ آج بھی یمن کے کئی ایسے شہر ، قصبے اور دیہات ہیں جہاں تک امدادی
ورکرس کا پہنچنا ممکن نہیں ۔عرب اتحاد یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر
پھر ایک مرتبہ حملوں میں اضافہ کیا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حملوں
سے حوثیوں کا خاتمہ ہوپائے گا یا حوثی باغی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیں
گے۔8؍ مئی کویمن کے دارالحکومت صنعاء میں عرب اتحاد کے طیاروں نے باغی حوثی
ملیشیا کے زیر کنٹرول وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کی عمارتوں کو نشانہ
بنایا۔اتحادی افواج کے لڑاکا طیاروں نے کتاف، باقم، ملاحیط اور میدی کے
محاذوں پر حوثی ملیشیا کے مورچہ بند ٹھکانوں پر بھی درجنوں حملے کیے۔ حملوں
میں22 باغی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔اتحادی افواج کے لڑاکا طیاروں نے کتاف،
باقم، ملاحیط اور میدی کے محاذوں پر حوثی ملیشیا کے مورچہ بند ٹھکانوں پر
بھی درجنوں حملے کیے۔ادھر یمن کی سرکاری فوج کے میڈیا سینٹر نے صعدہ کے
مشرق میں کتاف کے محاذ پر پیش قدمی اور کتاف ضلع کے مراکز پر دھاوے کی
تصدیق کی ہے۔دوسری جانب یمنی فوج کو باقام میں آل صبحان اور ابوبا کے
علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔ان تمام حملوں کے باوجود حوثی باغی
ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے ۔
مشرقِ وسطیٰ کے حالات مزید سنگین
امریکی صدر ڈ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے
کے اعلان کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی خراب ہوتے
دکھائی دے رہے ہیں ۔ اسرائیل کے مطابق شام میں تعینات ایرانی فورسز نے
اسرائیل کے زیر قبضہ شامی سرحدی علاقے گولان ہائیٹس میں اس کی چوکیوں پر
چہارشنبہ کی نصف شب 20سے زائد راکٹ فائر کئے تھے جن میں بیشتر کواسرائیلی
میزائل دفاعی نظام نے فضا میں ہی نشانہ بناکر تباہ کردیا تھا ۔ اس کے جواب
میں اسرائیلی فوجی جنگی طیاروں نے شام میں لگ بھگ 50ایسی فوجی تنصیبات کو
نشانہ بنایا جو ایرانی فوج کے زیر استعمال ہیں۔شام میں ایران اور اسرائیل
کے درمیان تصادم سے خطہ کے حالات شدید سنگین نوعیت اختیار کرسکتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوتیرس ایران اور اسرائیل پر زور دیا
ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی نئی آگ بھڑکانے سے گریز کریں۔ کیونکہ مشرقِ
وسطیٰ پہلے ہی سے سنگین صورتحال سے دوچار ہے اور اگر ان دونوں ممالک ایک
دوسرے پر فضائی کارروائی کرتے ہیں تو اس سے کئی ممالک جنگ کی لپیٹ میں
آسکتے ہیں۔ ادھر پاکستان نے بھی امریکی سفارتی عملے پر پابندیاں عائد کردیں
ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی عملے کی نقل و حرکت پر پابندیوں کے جواب میں
پاکستان نے بھی امریکی سفارتی عملے پر پابندیاں عائد کردیں۔ اس طرح امریکہ
اور پاکستان کے درمیان بھی حالات خراب ہوتے دکھائی دے ہیں ۔
لبنانی انتخابات کے نتائج اور حزب اﷲ
لبنان میں پارلیمانی انتخابات میں نصف سے زائد نشستیں ایران نواز حزب اﷲ
اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوئے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق غیر
سرکاری نتائج میں کہاگیاکہ حزب اﷲ کو پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ
پارلیمانی طاقت حاصل ہوچکی ہے۔ حزب اﷲ ، تحریک اسرائیل پر شدید تنقید کرتی
ہے اور اس کی کامیابی خطے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافے کا ثبوت بھی
ہے۔ لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کے مطابق ان کی فیوچر موومنٹ نامی پارٹی
بیروت کی پارلیمان میں اپنی اب تک کی سیٹوں میں سے ایک تہائی سے محروم ہو
گئی ہے۔ حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ نے ٹیلی ویژن پر اپنے ایک خطاب میں اس
تحریک کی انتخابی جیت کو مزاحمت کی فتح قرار دیا۔اب دیکھنا ہے کہ لبنان میں
حزب اﷲ کی کامیابی کے اثرات اسرائیل پر کس طرح پڑتے ہیں۔
افغانستان خطرناک صورتحال سے دوچار
افغانستان کی 29 ملین سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے نصف سے زائد شہری2016
اور2017کے مالی سال کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
جرمن ریڈیو کے مطابق یہ بات ایک نئی سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ۔ یہ رپورٹ
افغانستان کے مرکزی محکمہ شماریات اور یورپی یونین نے مل کر تیار کی ہے۔اس
رپورٹ کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور قریب 15 ملین افغان
شہری اپنی تعداد میں ملک کی مجموعی آبادی کے 55 فیصد کے برابر ہیں۔ 2011اور
2012 کے مالی سال میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افغان شہریوں کی
تعداد ملکی آبادی کا 38 فیصد تھی۔ نئی رپورٹ کے مطابق اب 17 فیصد کا اضافہ
ہو چکا ہے اور اب غربت کے شکار افغان شہریوں کی تعداد اکثریت میں ہو گئی
ہے۔ورلڈ بینک کے افغانستان کیلئے ڈائریکٹر کے مطابق اس رپورٹ کا ایک خاص
اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ یہ افغانستان میں سلامتی کی ذمے
داریاں2014میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ملکی فورسز کو منتقل ہونے کے بعد
پہلی بار مرتب کی گئی ہے اور یہ حالات کے کہیں زیادہ پریشان کن رخ اختیار
کر جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔افغانستان کے لئے ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر شوبھم
چوہدری کے مطابق آبادی کے اتنے بڑے حصے کا انتہائی غربت کا شکار ہونا اس
لیے بھی باعث تشویش اور فوری اصلاح کا متقاضی ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان
کی آبادی کا48 فیصد یا قریب نصف حصہ ایسا ہے، جو پندرہ برس سے کم عمر کے
بچوں پر مشتمل ہے۔افغانستان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی کے
بعد دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دہشت گرد انہ حملوں
میں مدارس کے معصوم بچے شہید ہوئے ہیں اس کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکت میں
بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ایک طرف دہشت گرد عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تو
دوسری جانب افغان فوج کی جانب سے مدارس کے جلسوں اور دیگر تقریبات کے موقع
پر دہشت گردوں کی یہاں پر میٹنگ کے نام پر فضائی حملے کئے جاتے ہیں جس میں
معصوم ، بے قصور بچے اور شہری ہلاک ہوتے ہیں ۔ اس طرح افغانستان میں جانی و
مالی نقصان کا بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ افغانستان کی معیشت پر جو
پہلے ہی سے خطِ غربت سے نیچے تھی اب اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے جو
باعث تشویش ہے۔
*** |