جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اچانک نمودار ہوتے ہی بہت سے
خدشات نے بھی جنم لیا تھا، گمان غالب یہی تھا کہ اس کے پیچھے کوئی کہانی ہے،
جو جلد ہی سامنے آجائے گی، سو وہ کہانی سامنے آگئی، یوں کہیے کہ اس قدر
جلدی کی کسی کو توقع بھی نہ تھی کہ غبارہ ابھی اڑنے ہی نہ پایا تھا کہ اس
کی ہوا نکل گئی۔ پرندے تو روزانہ کی بنیادوں پر اڑانیں بھر کر دستر خواں
تبدیل کر رہے ہیں، اگر براہِ راست ہی تحریک انصاف کے دروازے پر دستک دے
دیتے تو یقینا خیرات مل ہی جاتی،کہ آجکل آنے والوں کے لئے دروازے کھلے ہیں۔
عمران خان کے ساتھ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اقتدار کے پہلے نوے دنوں میں
جنوبی پنجاب کا صوبہ قائم کردیا جائے گا۔ اس میں پہلی شرط تو اقتدار ہے،
ظاہر ہے ایسا ہونے کی صورت میں ہی کوئی اقدام کیا جاسکتا ہے، اگر اقتدار
بھی مل جاتا ہے اور نوے دن میں صوبہ بھی نہیں بنتا، اس کے بعد کی منصوبہ
بندی کیا ہوگی؟ اس کا ابھی علم نہیں، کیونکہ یہ صوبہ محاذ والے اب پی ٹی
آئی کی قیادت کے آگے ہتھیار ڈال کر ’’محاذ‘‘ سے وعدہ فردا پر واپس لوٹ چکے
ہیں، اب یہ لوگ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں،اور انہیں پارٹی کی پالیسیوں اور
فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑے گا۔
صوبہ محاذ میں شامل ہونے والے ارکانِ اسمبلی وغیرہ میں سے ایک بھی ایسا
نہیں تھا، تو اپنے ماضی کی کارکردگی سے یہ ثابت کر سکے کہ اس نے فلاں موقع
پر جنوبی پنجاب کے محروم علاقہ کے لئے الگ صوبہ کی بات کی۔ چونکہ اس خطے
میں بہت سے سیاستدان اور ممبران اسمبلی سرائیکی صوبہ، بہاول پور صوبہ یا
پورے خطے کے لئے الگ صوبہ کی بات کرتے رہے ہیں، مگر مجال ہے محاذ کے
علمبرداروں میں سے کسی نے اس قسم کی کسی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔
ہاں خاموشی، غیر جانبداری، عدم دلچسپی کا تاثرہی ملتا رہا۔ جب ان لوگوں نے
کبھی الگ صوبہ کی تحریک کا نام ہی نہیں لیا، تو آخر کیا وجہ ہوئی کہ الیکشن
کے قریب آکر ایک ’’محاذ‘‘ ہی کھڑ ا کردیا؟ یہ لوگ خوب جانتے تھے کہ اس محاذ
کی بنا پر ان کی کامیابی یا پذیرائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس
لئے انہیں کسی بڑی پارٹی میں شامل ہونا ہی تھا، یہ شمولیت پہلے سے طے تھی
تاہم حالات کو ساز گار بنانے کے لئے یہ انضمام کا ڈرامہ رچانا پڑا۔ خیر
جیسے بھی ہوا، اس محاذ کے ایک مرتبہ سراٹھانے سے پنجاب میں دوسرے صوبے کی
ضرورت ایک مرتبہ پھر ابھر کر عوام کے سامنے آگئی۔ نتیجہ یہی ہوا کہ تمام
سیاسی جماعتوں نے پنجاب میں نئے صوبوں میں اپنی اپنی خدمات پیش کردیں اور
بتایا کہ وہ تو بہت پہلے سے یہ کارِ خیر سرانجام دینے کو تھیں، بس ذرا
مصروفیات زیادہ تھیں جن کی وجہ سے وہ تھوڑا سا وقت نکالنے سے قاصر رہے، اب
اقتدار میں آتے ہی یہ اہم گھاٹی بھی عبور کرلیں گے۔
اب عمران خان یہ صوبہ نوے دن کے اندر بنائیں گے، بلاول زرداری نے گزشتہ روز
لیہ میں اپنے خطاب میں بتایا کہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ صرف پی پی ہی
بنائے گی، بس شرط اتنی سی ہے کہ عوام انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر اقتدار
کے ایوانوں تک پہنچا دیں۔ اُدھر پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف
نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ ہم ہی بنائیں گے، کیونکہ ہم نے اس صوبے
کے لئے پنجاب اسمبلی میں قرار داد منظور کرکے عملی طور پر اس کی بنیاد رکھ
دی تھی۔جماعت اسلامی کہتی ہے کہ ہم تو عشروں سے اس اہم ترین ایشو کو اپنے
منشور میں شامل کئے ہوئے ہیں۔ اس صورتِ حال سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ کوئی
جماعت کسی دوسری جماعت کے بنائے ہوئے صوبے کو ٹھنڈے دل سے قبول نہیں کر ے
گی۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کے خطے میں الگ صوبے کو اپنے
انتخابی منشور کا حصہ بنا لیتی ہیں، تو عوام اسی کو ووٹ دیں گے جسے وہ پسند
کرتے ہیں، یوں کوئی ایک پارٹی یہ کریڈٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے
گی۔
سیاستدانوں سے کچھ بھی بعید نہیں، ضروری نہیں کہ الیکشن کے موقع پر کیا
جانے والا یہ وعدہ شرمندہ تکمیل بھی ہو سکے، بہت سے وعدے صرف دکھانے کے لئے
ہوتے ہیں، اب اگر ایک پارٹی نے نوے دن کا وعدہ کر کے کچھ لوگوں کو ساتھ
ملالیا ہے، تو دوسری جماعتوں پر یہ اخلاقی بوجھ آن پڑے گاکہ وہ ان دنوں میں
کچھ کمی کریں، کوئی اسّی دنوں کی بات کرے تو کوئی پچھتر دنوں میں الگ صوبہ
کھڑا کردینے کی کہانی سنائیں۔کرنا کرانا تو بعد کی باتیں ہیں، وعدوں میں تو
دوسروں کو آگے نہ بڑھنے دیں۔ پارٹیاں یقین رکھیں کہ عوام وعدوں، دعووں،
بڑھکوں وغیرہ پر بہت حد تک یقین رکھتے ہیں۔ جس طرح وہ گالم گلوچ اور دوسروں
پر کیچڑ اچھالنے سے خوش ہوتے ہیں، اسی طرح جذباتی وعدے بھی بہت کارگر ہوا
کرتے ہیں۔
پنجاب میں الگ صوبے کی بات چلی ہے تو یہ کام آسان نہیں، ایک تو بہاول پور
صوبہ والوں نے بھی تیس مئی کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے، موجودہ حکومت تو اس ڈیڈ
لائن کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی، یوں یہ ڈیڈ لائن ہی ڈیڈ ہو جائے گی، بہاول
پور صوبہ کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کا امتحان ہوگا کہ آیا وہ اپنا
مطالبہ منانے کے لئے یکسو اور متحد ہیں ، یا ان کے پاس کوئی مقبول اور قابلِ
اعتماد قیادت موجود ہے، یا ماضی کی طرح یہ لوگ اپنے اپنے مفاد کی تکمیل تک
ہی الگ صوبے کے نعرے لگائیں گے؟ جس طرح تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے (مجبوراً
ہی سہی) جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردی ہیں،
بلکہ قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ یہ کام ہم ہی کریں گے، کوئی دوسرا نہیں کر
سکتا۔ تو بہاول پور صوبہ کی بحالی کا نعرہ کہاں جائے گا؟ کون اس نعرے کی
قیادت کرے گا؟ یا کون اس نعرے کے عوض عوام سے ووٹ بٹورے گا؟ دوسری طرف
سرائیکی صوبہ کے حامی بھی جنوبی پنجاب کے نام کے سخت مخالف ہیں، وہ صوبے کا
نام سرائیکی صوبہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ صوبے کی حدود وغیرہ پر بھی ابھی بہت
کام ہونے والا ہے۔ کوئی نہیں جانتا،آنے والے الیکشن کے بعد کونسی پارٹی
برسرِ اقتدار آئے گی، صوبے کے بارے میں اس کی کیا پالیسی ہوگی؟ مگر اس
تحریک سے دیگر صوبوں کی تحاریک کو بھی تحریک ملے گی، ایک صوبہ بننے سے بہت
سے اور بھی بنانا پڑیں گے، ہزارہ والے تیار بیٹھے ہیں، سندھ میں بھی
مطالبات سر اٹھا رہے ہیں۔ صوبہ محاذ تو تحلیل ہو چکا، جنوبی پنجاب صوبہ کی
تحریک بھی تمام پارٹیوں کا موضوع بن چکی، یہ ایشو کسی ایک پارٹی کو فائدہ
نہیں پہنچا پائے گا، عوام لوگ اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کو ہی دیں گے۔گویا
تمام پارٹیاں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے تیار ہیں، بس ایک دفعہ عوام
انہیں اقتدار تک پہنچا دیں۔ |