انوکھی انکوائری

قومیں اپنی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کرتی ہے ، اس آزادی کا کوئی نہ کوئی منشور ضرور ہوتا ہے بغیر منشور کے آزادی ناممکن ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے مذہبی، مسلکی، دینی اور معاشی لحاظ سے اس منشور پر عمل کرتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچا جاتا ہے۔ جس کے لیے قوانین کی تبدیلی ، عوام کی حفاظت ، بروقت اور سستا انصاف فراہم کرنا ، روز گار مہیا کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے معاشی اور دیگر انڈسٹریز کا قائم کرنا ، تعلیمی جیسی انمول اور ریڈھ کی ہڈی کو ترجیحی بینادوں پر چلانا وغیرہ وغیرہ ۔قابل غور امر یہ ہے کہ جیسے جیسے ہم نے انگریز سے چھٹکارا پاتے ہوئے بھارت سے علیحدگی کا نعرہ لگایا اور اس نعرے کے پیچھے ایک ہی منشور تھا کہ اسلام کی بنیاد پر نئی اسلامی ریاست ’’پاکستان‘‘ قائم کی جائے گی اور ہر ایک کو اس کے تحت مواقع ملیں گے۔ لاکھوں قربانیوں کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ آج ہم کہا ں کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب ایک عام آدمی ہی دے سکتا ہے۔ پاکستان بنا نئے معاشرے کی تشکیل ہوئی۔مرہم بھرنے لگے۔ قانون سازی بھی عمل میں آئی، لیکن تحفظ والا فقرہ شاید حذف ہو گیا یا کر دیا گیا یا پھر اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ وہ قوم خاک ترقی کرے گی جسے ہر وقت اپنی جان و مال کے تحفظ کی فکر لگی رہے۔ قوم ٹیکس بھی دے پھر دفاع بھی اپنا خود کرے۔ گھر میں روپیہ پیسہ محفوظ نہیں ، بینک میں رکھے تو نت نئے ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں ۔ عزت محفوظ نہیں۔ چوری، ڈکیتی ، راہزنی، قتل و غارت ، انصاف کا فقدان یہ سب غیر محفوظ معاشرہ کی نشانیاں ہیں یا پھر ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ اگرکسی دَور میں اسلامی سزاؤ ں کی طرف توجہ دلائی گئی ، سیاست کو اداروں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی، تھانہ کلچر کو میرٹ پر عمل کرنے کی ہدایات ملیں تو اس وقت کے سیاسی لیڈر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ توبہ نعوذ باﷲ اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں۔ جب ہمارے ہی لیڈر اسلامی نظام کی تکمیل میں روڑھے اٹکائیں گے تو پھر معاشرہ غیر محفوظ ہی رہتا ہے۔ صرف انصاف اور تحفظ بڑے وڈیرے، سیاست دان کو ہی ملتا ہو گا۔ بات آگے بڑھی تو وہ کہنے لگے یہ جرائم ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے ، جرائم پیدا کیئے جاتے ہیں، ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ ان کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، اور پھر جنگل کا قانون بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ دوسرے نے پوچھا بابا یہ سب کچھ کیو ں کر اور کون کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی عمر اور تجربہ کی بنا کر بتایا کہ جرائم پیدا کرنے میں تین میں کردار ہیں ، سیاستدان ، (علاقے کے ایم۔ این۔ا ے، ایم ۔پی۔ اے حضرات)، متعلقہ تھانہ کا تھانیدار اور سینئرز تیسرے نمبر پر مجبوری(غربت، یاپھر بے مقصد شوق) ان تینوں عوامل کے علاوہ کوئی ایسا عمل نہیں جو جرم کرنے پر مجبور کرے۔ دوسرے نے کہا انصاف ، قبضہ مافیاوغیرہ وغیرہ ۔ بابا جی نے کہا کہ اس میں سیاستدان اور علاقے کا تھانیدار ملوث ہوتا ہے۔

سفر میں تھا کچھ لوگ گفتگو فرما رہے تھے۔ ان کا موضوع معاشرے کا غیر محفوظ ہونا، انصاف کا میرٹ پر نہ ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ اس گفتگو میں ایک بزرگ کہنے لگے کہ اب اس کا ایک ہی حل ہے ، جب اتنی کرپشن، برائی، عزت غیر محفوظ ، تھانہ کلچر سیاسی ہو چکا ہو تو اس کا ایک بہترین حل ہے ، اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو بہت جلد اور سستا انصاف مہیا ہو گا، جھوٹی ایف آئی آر نہ ہونے کے برابر، چوری ، ڈکیتی بالکل ختم ہو جائے گی۔ پھر ایک عورت کو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مجبوراً باہر جانا بھی پڑا تو کوئی اس کی طرف بُری نظر سے نہیں دیکھے گا، آج جو طرح طرح کے چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز آئے روز ہو رہے ہیں، اورویڈیو بنا کر اپلوڈ کرنے والے دندانتے پھر رہے ہیں ان کو بھی لگام ڈالی جائے گی۔ میں بڑے غور سے بات سن رہا تھا ۔ وہ بزرگ کہنے لگے کہ جس بھی علاقہ میں جنسی زیادتی، قتل و غارت، چوری، ڈکیتی ہو اس علاقہ کے تھانیدار، پٹرولنگ ، اور اس سے سینئر ز ، پھر ساتھ ہی سیاسی ایم۔ این۔ اے، اپم۔ پی۔ اے کو بھی لائن حاضر کر لیا جائے ۔ ان سے پوچھا جائے کہ یہ سب کس نے کیا ہے؟ وہ حسب معمول جواب دیں گے پتہ نہیں ، انکوائری ، تفتیش کریں گے تو معلوم ہو گا۔ ان کو دو دن کا وقت دے دیا جائے اور ساتھ بتا دیا جائے کہ اگر خالی ہاتھ یعنی بغیر مجرم کے آئے تو پھر آپ سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ دو دن کے بعد جب وہ دوبارہ پیش ہونگے ، لنگڑے لولے جواب دے کر وقت مانگیں گے۔ اب ان کو مزید وقت دینے کی ضرورت نہیں، جتنا وقت دیتے جائیں گے انکوائری بگڑتی جائے گی اور مجرم کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ وقت دینے کی بجائے ان سب کو لائن میں لگا کر فائر کیا جائے کیونکہ سیاستدان نے علاقہ کے لوگوں سے انصاف، تحفظ اورروز گارکے ساتھ علاقے کی ترقیاتی کاموں کا وعدہ کرکے ووٹ لیا تھا۔ تھانیدار یا دوسرے ملازمین سول انتظامیہ کا کام ہی یہی ہے اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ۔ لہذا یہ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ باباجی کہنے لگے اگر ہر شہر اور ہر صوبے میں ایک ایک ، دو دو ایسی انکوائریاں ہو جائیں تو آپ بالکل محفوظ ہو جائیں گے۔ کہیں مہینوں یا سالوں بعد کوئی ایسا واقعہ سننے یا دیکھنے کو ملے گا۔

میں باباجی کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا ، اس انوکھی انکوائری کے طریقہ پر حیرانگی بھی ہوئی، ان کے مطابق کہ کسی کو تو کچھ کرنا پڑے گا ورنہ جو ہو رہا ہے اس میں دن بدن اضافہ تو ممکن ہے کمی ناممکن ہے۔ آئے روز رونما ہونے والی اور بڑھتی ہو ئی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے بابا کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میرے دوستو! بابا کی اس انوکھی انکوائری پر ذرا سوچیں ، کیا ایسا ممکن ہے، اگر ایسی انکوائری عمل میں لائی جائے تو جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے ہم سب کو شر سے محفوظ رکھے اور بڑھتی ہوئی وارداتوں سے پناہ مانگتے ہیں، اور اﷲ کریم اپنے خاص فضل اور رحمت سے ہمیں اپنے اپنے عہدے پر سچے اور کھرے مسلمان ہونے کی حیثیت سے فرائض سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ، جو کوئی شہری ان جرائم کو سرزد کرنے یا کروانے میں شامل ہیں اسے بھی ہدایت دے آمین ، ثم آمین۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173813 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More