اسلام آباد ملک کا اہم ترین شہر اور وفاقی دارالحکومت
ہے دنیا بھر کی نظریں اس شہر پر مرکوز ہیں۔ایسے میں ہر کس و ناکس عمق نظر
کے ساتھ اس شہر اقتدار کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے کہ اس کی تعمیر و ترقی اور
اس کے رہائشی کو زندگی بسر کرنے کیلئے بنیادی سہولیات میسر ہیں یا کہ نہیں
اور اس طرح یہاں کے باسیوں کے طور و اطوار اور تہذیب و ثقافت و وضع قطع و
سماجی و سیاسی اور مذہبی حالت کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس نہج پر قائم و دائم
ہے۔شہر اقتدار کے وسطی علاقے کے بارے میں تو کوئی بھی فرد بشر متردد نہیں
ہوسکتا کہ وہاں کی حالت و کیفیت دنیاکے اعلیٰ شہروں کے معیار پر قائم ہے
وہاں کی خوبصورتی اور سجاوٹ کی خاطر کثیر تعداد میں پیسہ خرچ کیا جاتاہے
بلکہ پہلے سے بہتر شاہراؤں کو ری کارپٹ بارہا مرتبہ کیا گیا ہے۔ اسی کے
ساتھ وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی الیکشن کے نتیجہ میں سامنے آنے
والی8یونین کونسلوں کا تعلق دیہی علاقے سے ہے یہ دیہی علاقوں کی یونین
کونسلیں یا یہ رورل علاقہ ایسا ہے جہاں پر مقیم افراد کو بنیادی سہولیات
میسر نہیں ہیں کہ پینے کا صاف پانی ناپید ہے تو کہیں بجلی و گیس کی فراہمی
نہیں اور کہیں سیوریج کے مسائل ہیں تو کہیں گلیاں اور شاہرائیں
ناپختہ۔تعلیم و صحت کے بے پناہ مسائل ہیں کہ ٹیکسلا سے ویسٹریج کے درمیان
کا اسلام آباد کا علاقہ دیہی مرکز صحت سے محروم ہونے کے ساتھ آئے روز جی ٹی
روڈ پر ٹریفک حادثات وقع پذیر ہوتے ہیں مگر المیہ ہے کہ مجروحین کی فی
الفور مدد کیلئے ریسکیو 1122کی سہولت غیر موجود ہونے کے ساتھ انڈرپاس اور
راہگیر وں کیلئے بھی کوئی اورہیڈ بریج موجود نہیں ہے۔
2002ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے پرانا
حلقہ48جو اب NA-54ہوچکا ہے پر کامیابی حاصل کی اور میاں اسلم کا دعویٰ ہے
کہ 1962سے لیکر 2002تک اس علاقہ میں ترقیاتی کاموں کیلئے کوئی بھی حکومت
بجٹ منظور نہیں کرتی تھی تاہم ان کی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجہ میں دیہی
علاقہ میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھائے گئے اور دوردراز تک کے علاقوں میں
سوئی گیس کی فراہمی اور گلیوں کی پختگی کے عمل کو مکمل کیا گیا انہی کی
کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج 20ارب سے زائد فنڈ اسلام آباد کی ترقی کیلئے مختص
کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف سابق مسلم لیگ ق کی مخصوص نشت پر منتخب ہونے
والی ایم این اے آسیہ عظیم کے خاوند عظیم چوہدری اور اہلیان سابق این
اے48موجودہ این اے54کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا جال
بچھانے میں بنیادی کردار آسیہ عظیم کا ہے۔ ایم ایم اے میں اختلافات درآنے
کی وجہ سے یہ اتحاد ٹوٹ گیا تو 2008میں اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے انجم عقیل
خان کامیاب ہوئے ۔ جنہوں نے اپنے تائیں اس حلقہ میں ترقیاتی کام مکمل کرائے
تاہم 2013کے الیکشن میں مسلم لیگ ن یہ سیٹ ہارگئی اور یہاں سے تحریک انصاف
کے رہنما اور بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی منتخب ہوئے ۔جاوید ہاشمی چونکہ
متعدد حلقوں سے کامیاب ہوئے تھے تو انہوں نے اس حلقہ کو چھوڑ دیا تو تحریک
انصاف کے رہنما اسد عمراس حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوئے ۔ انتخابات میں
کامیابی کے بعد اسد عمر نے پارٹی پالیسی کے مطابق صرف حکومتی جماعت کو غیر
فعال و متنازعہ بنانے کیلئے اپنی کوشش صرف کیں اور اس کے ساتھ ہی اسمبلی
میں بلدیاتی انتخابات ،پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگر مسائل پر آواز
بلند کی مگراس کے علاوہ حلقہ کی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی قابل ذکر
امور سرانجام نہیں دئیے تاہم انتخابات2018کے قریب آتے ہی اسد عمر حلقہ میں
سرگرم عمل ہوچکے ہیں تاہم ان کی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا دائرہ اپنے
کارکنوں تک ہی محدود ہے عوام الناس کے قلوب و اذہان میں جگہ بنانے میں کس
حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کریگا۔
انتخابات 2018کی تیاری کیلئے تمام سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن ،تحریک
انصاف،پیپلزپارٹی،متحدہ مجلس عمل،تحریک لبیک یارسول اﷲ،ملی مسلم لیگ سمیت
دیگر تنظیمیں اپنے امیدواروں کو میدان عمل میں اتارنے کیلئے خصوصی ٹاسک دے
دیا ہے کہ وہ اپنی اہلیت و قابلیت اور عوامی ہمدردی و محبت کو ثابت کریں
تاکہ ٹکٹ جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدوار کو دیا جائے۔ٹکٹ کے حصول کیلئے
مسلم لیگ ن کے انجم عقیل خان، چوہدری واجد ایوب،تحریک انصاف کے اسد عمر،
عامر مغل،کامران گجر، پیپلزپارٹی کے راجہ عمران اشرف ،متحدہ مجلس عمل کے
میاں اسلم ،زبیر فاروق خان میدان میں مصروف عمل ہیں،سابق امیر جماعت اسلامی
کو اپنے مقامی حلقہ سے انتخاب لڑنے کی خواہش ظاہر کرنے پر ابتداً مرکزی
نائب امیر کی مخالفت کے باعث امارت سے برطرف کرنے سمیت ان کی بنیادی رکنیت
بھی ختم کی گئی تھی بعدازاں ان کی بنیادی رکنیت تو بحال کردی گئی ہے مگر
کیا وہ انتخاب این اے54سے لڑینگے یا کسی دوسرے حلقے سے اس کا فیصلہ جلد
متوقع ہے تاہم زبیر فاروق خان اپنی انتخابی کارنرمیٹنگز کو جاری رکھے ہوئے
ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اور عوامی خدمت
کیلئے اختیارکیا اور مجھے امید واثق ہے کہ جماعت اسلامی کے اراکین ضلع کی
طرح مرکزی تحقیقاتی کمیٹی بھی مجھ پر اعتماد کا اظہار کرے گی اور کامیاب
ہوکر حلقہ کی تقدیر بدلنے کیلئے انتھک محنت و جدوجہد کروں گا ۔جبکہ سابق
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اب آزاد امیدوارکی حیثیت سے ملک ظہیر اعوان
ایڈووکیٹ بھی اس حلقہ میں حصہ لینے کیلئے شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں۔بڑی
جماعتیں جس کسی کو بھی ٹکٹ جاری کریں مگر حلقہ کی عوام کا کہنا ہے کہ اس
بار امیدوارمقامی ہونا چاہئے تاکہ عوام اپنے روزمرہ کے مسائل سے متعلق
سفارش و تجاویز وآراء اور حل کیلئے بآسانی رسائی حاصل کرسکیں۔
پانامہ کیسز کی وجہ سے مسلم لیگ ن زیر عتاب ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے
ورکرز میں باہم اتحاد و اتفاق دکھائی نہیں دیتا کہ ہرایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
بناکر اپنا قبلہ درست کررہاہے اور اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے دیرینہ
عہدیدار عامر مغل اپنی برادری اور مقامی ہونے کی حیثیت سے ٹکٹ حاصل کرنے کے
خواہاں ہیں اس کے ساتھ ہی کامران گجر سیاسی گھرانے کے باعث اکھاڑے میں
اترچکے ہیں اور جماعت اسلامی کے مرکزی پارلیمانی بورڈ نے میاں اسلم کو این
اے54سے انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا تو زبیر فاروق خان نے آزاد
حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو جماعت نے ان کی 35سالہ دیرینہ رفاقت
کو یک جنبش قلم فروگذاشت کرتے ہوئے ان کو امارت اسلام آباد اور بنیادی
رکنیت سے فارغ کردیا بعدازاں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی جس کی سفارش پر ان
کی رکنیت تو بحال کردی گئی تاہم اب تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ زبیر فاروق
جن کا آبائی علاقہ و حلقہ NA-54ہے اس سے الیکشن لڑینگے یا میاں اسلم کے حق
میں دست بردار ہوچکے ہیں۔ایم ایم اے کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا ہے کہ
مولانا سمیع الحق،عبداﷲ گل، حافظ سعید اور مولانا احمد لدھیانوی کی قیادت
میں ایک نیا دینی اتحاد سامنے لانے کی کوشش ہورہی ہے اگر یہ اتحاد قائم
ہوجاتاہے تو مذہبی ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے کے امید وار کو
شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
سیاسی جماعتوں کے امیدوارباوجود اس کے کہ اپنے متعلقہ احباب و کارکنان سے
ملاقاتیں اور کارنرمیٹنگ کررہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ غیر یقینی صورتحال
سے بھی دوچار ہیں کہ مبادا الیکشن ملتوی نہ ہوجائیں ،مسلم لیگ ن یہ کہتی
نظر آرہی ہے کہ یہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی، جبکہ متحدہ مجلس عمل کے
رہنما میاں اسلم کہتے ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں اس میں
ایک روز کا التویٰ تباہ کن ثابت ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی امیدوار
اس حلقہNA-48سابقہ اور نیاحلقہNA-54سے کامیاب ہو اس کا تعلق اپوزیشن سے
ہویا حکومتی جماعت سے دونوں صورتوں میں وہ حلقہ کے مسائل حل کرنے کیلئے
سنجیدہ ہونے کے ساتھ عوام کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہنا چاہئے۔ |