زندگی میں ہم بہت سی باتوں کو بہت دیر سے سیکھتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ میری ایک دوست کے ساتھ ہوا۔ انعم نے جب اپنی آپ بیتی بتائی تو
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔میں بھی اس کی کہانی سن کر خاموش تھی۔کبھی کبھی
تسلی دینے کے لیے الفاظ کم لگتے ہیں۔ انعم کی کہانی آپ اسی کی زبانی سنیں۔
ہمارے گھروں میں شروع سے ہی اچھے بُرے کا فرق بتایا جاتا ہے۔کچھ ماں باپ ،
اچھائی اور بُرائی کے فرق کو اچھے اور بُرے انسان کی مثال دے کر سمجھاتے
ہیں ۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی تھا لیکن فرق یہ تھا کہ میں نے بُرائی اور
بُرے انسان میں فرق کرنا نہیں سیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے جیسے میں بڑی
ہوئی ،میری سوچ نے مجھے میرے ارد گرد کے لوگوں سے ہی دور کرنا شروع کر دیا۔
یہاں تک کہ میری کوئی دوست کسی کی بُرائی کرتی تو میں اس سے غیر محسوس
طریقے سے علحدگی اختیار کر لیتی۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوئی تو میرے مجھے
محسوس ہوا کہ میرے گھر والے بھی بہت سی بُرائیوں میں مبتلا ہیں ، میرے والد
،میری والدہ اور میرے سب بہن بھائی کسی نہ کسی بُرائی میں مبتلا نظر آئے ۔
میں دھیرے دھیرے تنہائی کا شکار ہونے لگی۔مجھے ہر انسان میں اچھائی کی
بُرائی ہی نظر آتی۔
میرے ماں باپ میری سوچ اور طرز زندگی سے پریشان ہو نے لگے۔ میری امی نے
مجھے سمجھانے کی کوشش کی تو میں نے اُلٹا ان کی بے عزتی یہ کہتے ہوئے کر دی
کہ وہ خود جھوٹ اور غیبت میں مبتلا ہیں ۔رشتوں میں ریا کاری کرنے والا
دوسروں کو کیسے بتا سکتا ہے کہ رشتے کیسے بنائیں جا سکتے ہیں ۔ امی افسردگی
سے انکھوں میں آنسو لیے کمرے سے باہر چلی گئی۔ مجھے اپنے کیے پر کوئی
ندامت محسوس نہیں ہوئی۔
میں بی اے کر چکی تھی ۔ میری کوئی دوست نہ تھی۔ میرے والدین کو میری
بدتمیزیوں سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ نظر آیا ، انہوں نے میری شادی طے
کر دی۔ والدین کی منت سماجت کو دیکھ کر میں مان گئی۔ مگر سسرال میں بھی وہی
مسلہ دربیش آیا۔ ایک کے بعد ایک فرد اپنی بُرائی کے ساتھ مجھ پر کھل گیا۔
میں پھر اس سے نفرت کرنے لگی۔ سب سے بُرا یہ ہوا کہ میرے شوہر سے مجھے نفرت
ہونے لگی۔اس میں یہ بُرائی تھی کہ وہ دوسروں کے سامنے تو مجھ سے بہت عزت
اور محبت سے پیش آتا لیکن اکیلے میں اس کا لہجہ بدل جاتا ، میں نے اس کی
بُرائی کو منافقت سے تعبیر کیا۔وہ شیخی خور تھا ،وہ دوسروں کے سامنے اپنی
اچھائی بیان کر کے مجھ سے تصدیق چاہتا ، میں سچ بول کر اس کی سب کے سامنے
بے عزتی کا باعث بننے لگی۔ باتیں تو بہت چھوٹی چھوٹی تھیں مگر بڑھتے بڑھتے
بڑھ گئی۔میں ناراض ہو کر میکے آ گئی ۔ نہ وہ سدھرنے کو تیار تھا نہ میں
بدلنے کو۔
چھ ماہ بعد میری بیٹی پیدا ہوئی۔ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور بیٹی
بھی مجھے دے دی۔ میرے ماں باپ میری وجہ سے بے حد پریشان تھے۔مجھے ان کی
پریشانی بے معنی لگتی تھی۔ میری ماں نے مجھے حد درجہ سمجھانے کی کوشش کی کہ
انسان خطا کرتا ہے۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ کمیاں رکھتا ہی ہے ۔ بُرائی سے
مکمل نجات ممکن نہیں ۔ مگر میں نے غصے سے اپنی ماں سے کہا۔ انسان اپنی
بُرائی پر دہ ڈالنے کے لیے بہانے کریدتا ہے۔ آپ ہمیشہ مجھ سے کہتی تھی کہ
تمہارے باپ کی سخت طبعیت کی وجہ سے میں جھوٹ بول جاتی ہوں ۔مجھے دیکھیں میں
نے تو کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بُرائی پر۔ امی نے افسردگی سے کہا۔ اسی لیے
آج تم اسی گھر میں بیٹھی ہو۔ اپنی بیٹی سے اس کے باپ کا پیار چھین لیا۔
مجھے لگا امی اپنے اوپر بات کو برداشت نہیں کر پائی اس لیے وہ ایسا کہہ رہی
ہیں ۔ میں نے بڑے فخر سے کہا مجھے اس بات پر کوئی بچھتاوا نہیں۔
وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ میری بیٹی دس سال ہو چکی تھی۔ میں اسے اپنے جیسا
بنانا چاہتی تھی۔ اسی لیے اس پر حد درجہ سختی کرتی کہ کہیں وہ کسی قسم کی
بُرائی میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ میں خود ایک سکول میں پڑھانے لگی تھی۔ اس
لیے مجھے اخراجات کے معاملے میں بھی کوئی مسلہ درپیش نہ تھا۔ میری مومنہ
سیدھی سادی سی بچی تھی ۔ و ہ میری ہر بات فوراً سے مان لیتی ۔ وہ مجھے
سمجھتی ہے ایسا میں سوچتی تھی۔ وہ میرے ساتھ ہی سکول آتی اور گھر جاتی ۔
میں اس کی طرف سے پرسکون تھی۔ میرے سر میں کچھ درد تھا تو میں سٹاف روم میں
موجود کچن میں آ گئی تا کہ چائے بنا کر پی لوں ۔سٹاف روم میں کوئی نہ تھا۔
ایسے میں مس صدیقہ سٹاف روم میں آئیں ۔ ان کے پیچھے مومنہ تھی ۔میں نے
جیسے ہی مومنہ کو دیکھا تو سٹاف روم میں موجود الماری کے پیچھے والے صوفہ
پر چائے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ مومنہ رو رہی تھی ۔ میں خاموشی سے بیٹھی رہی تا
کہ ٹیچر کو پتہ نہ چلے کہ وہ میری بیٹی ہے ۔ کیونکہ صدیقہ نئی ٹیچر تھی ۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ مومنہ میری بیٹی ہے۔مجھے مومنہ اور اس کی ٹیچر کی
باتوں سے پتہ چلا کہ ٹیچر نے اسے چوری کئے ہوئے کارڈ کے ساتھ پکڑا ہے۔ اس
نے اپنی ساتھی طلباکی چوری کی تھی۔ اس کی ٹیچر اسے سمجھا رہی تھی تو میں
وہا ں ہی بیٹھی تھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے منہ پر بہت ذور
کا طمانچہ مارا ہو۔ وہ کوئی او ر نہیں میری اپنی بیٹی تھی۔
اس کی ٹیچر نےاسے پیار سے کہا۔ مومنہ بیٹا اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائیں ۔ اگر
آپ میری طرف دیکھیں گی نہیں تو سمجھیں گی کیسے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔
مومنہ کو نہیں پتہ تھا کہ میں سٹاف روم میں ہی دوسری طرف بیٹھی ہوں ۔ ٹیچر
نے مومنہ سے پوچھا ، بیٹا آپ نے چوری کیوں کی۔مومنہ نے افسردگی سے کہا ،
میں دیکھنا چاہتی تھی کہ پاپا اپنی محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں ، میم ۔
مومنہ پھر رونے لگی۔ ٹیچر نے اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ آپ کے پاپا
کہاں ہیں ۔ مومنہ نے روتے ہوئے کہا پتہ نہیں ۔ مگر میری مما کہتی ہیں وہ
اچھے نہیں ہیں مگر میم وہ خود نہیں جانتی کہ وہ خود کتنی بُری ہیں ۔ دوسروں
کی بےعزتی کرتے ہوئے انہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ بھی بُرائی ہے۔ میری
مما بہت بُری ہیں ،میں ان سے بہت نفرت کرتی ہوں ۔ مومنہ کی بات سن کر ،میں
نے اپنے گرتے ہوئے آنسووں کو اپنی ہتھیلی میں چھپا لیا اپنی ہچکیوں کو
اپنے سینے میں ہی دفن کر لیا ۔ اپنی دس سال کی بیٹی کے منہ سے اپنی شخصیت
کی ترجمانی مجھ پر ایک راز کی طرح کھلی تھی۔
اس کی ٹیچر نے اسے پیار سےتھپتھپایا اور بولیں بیٹا ۔ نفرت برُے سے نہیں
بُرائی سے کی جاتی ہے۔ اگر تمہاری مما کسی قسم کی بُرائی کا شکار ہیں تو ان
سے نفرت نہ کرو ۔ بلکہ اپنی محبت اور توجہ سے اس بُرائی کو ان سے دور کرنے
کی کوشش کرو۔ مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔ وہ نانی جان کی بات نہیں سنتی ۔ میری
کیا سنیں گی ۔ انہیں تو بس اپنے آپ سے پیار ہے ،کیونکہ ان کی نظر میں وہ
ہر بُرائی سے پاک ہیں ۔
آپ کو میرے بیگ میں مریم کے پاپا کا دیا ہوا کارڈ ملا تو آپ نے ساری کلاس
کے سامنے مجھے بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ یہاں جبکہ سٹاف روم میں کوئی نہیں
ہے تو آپ نے مجھ سے پوچھا۔ مگر اگر یہاں میری مما ہوتی اوروہ دیکھ لیتی کہ
میں نے کارڈ چوری کیا ہے تو وہ ایک تھپڑ سب کے سامنے میرے منہ پر مارتی اور
چیخ چیخ کر ساری کلاس کو بتا دیتی کہ انہوں نے مجھے چوری کرتے پکڑ لیاہے۔وہ
یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ہے۔ ایسی نیک سیرت ہیں
میری مما ۔ میم کاش انہیں کوئی سمجھائے کہ پردہ پوشی کرنا ، دوسروں کے دل
کو نہ توڑنا ۔اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی اچھائی ہے۔ مومنہ کی ٹیچر نے اسے
پیار سے کہا۔ بیٹا شاہد آپ کی مما کوبُرائی اور بُرے کے درمیان فرق کرنا
نہیں آیا ، یہی وجہ ہے کہ وہ بُرے انسان سے نفرت کرتی ہیں جبکہ ایک بُرا
انسان اچھے انسان کے لیے کام کا درجہ رکھتا ہے ۔ وہ اسے اپنی محنت ،محبت
اور کوشش سے اچھائی کی طرف راغب کرئے۔مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔ ایسا ہے تو
میری مما نے میرے پاپا کو اچھائی کی طرف راغب کیوں نہیں کیا وہ تو اپنے آپ
کو ہر اچھائی کا مرکز سمجھتی ہیں ۔ مومنہ روتی جا رہی تھی ۔ اس کی ٹیچر
خاموش تھیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مومنہ کو کیا جواب دوں ۔میری
ماجو بات مجھے نہ سمجھا سکی آج میری بیٹی نے مجھے سمجھائی۔ میں نے رشتوں
کی مٹھاس ختم کر کے یہ جانا کہ کوئی انسان مکمل طور پر بُرائیوں سے دور
نہیں ہوتا ۔ وہ انسان جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر بُرائی سے دور ہے تو وہ
سمجھ لے کہ یہ بھی ایک بُرائی ہے ۔ اللہ اکڑ کر چلنے والے کو پسند نہیں
کرتا۔ اللہ پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے پردہ پوشی کو پسند نہیں کیا۔
اپنی جنت اپنی ماں کا ہمیشہ دل دُکھایا ۔ آج جب میرا دل دُکھا تو اندازہ
ہوا کہ میری ماں کو میری باتوں سے کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔ اپنی بیٹی سے
مجھے نفرت محسوس نہیں ہوئی ۔ بلکہ مجھے لگا اس نے جو کہا لفظ بالفظ درست
کہا۔ میں کسی چور کی طرح الماری کے پیچھے ہی چھپی رہی ۔ مومنہ اور صدیقہ کے
جانے کے بعد باہر آئی تو میں اس خول سے بھی باہر آ چکی تھی جو میں نے
اتنے سالوں میں بنایا تھا۔
اس دن جب میں گھر آئی تو بہت روئی ۔ مومنہ نے مجھ سے اور میں نے اس سے اس
بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ میں جو اتنے سالوں سے کرتی آ رہی تھی۔ یعنی
منہ پر سب کی بےعزتی ،مجھے خوف محسوس ہو ا کہ مومنہ بھی ایسا ہی نہ کرئے۔
آج پہلی بار میں سوچ رہی تھی کہ میری بیٹی میری طرح نہ ہو۔
میں نے مومنہ سے اس دن کا کبھی تذکرہ بھی نہیں کیا۔ وہ واقعی میرے جیسی نہ
تھی ، اس نے کبھی مجھ سے اپنی نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ شاہد وہ میرادل
دُکھانا نہیں چاہتی تھی۔ اگر میں پہلے جیسی ہوتی تو میں سوچتی کہ وہ اپنے
باپ کی طرح منافق ہے، ظاہر میں اور کرتی ہے اور باطن میں اور مگر اب میں
جان چکی ہوں کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ بُرائی رکھتا ہے اور ہمیں انسان سے
نہیں بُرائی سے نفرت کرنی چاہیے۔
|