شہید کی حیات

ادا نے کمرے میں جھانکا تو زریاب ابھی تک بے خبر پڑا سو رہا تھا. اس کو شرارت سوجھی اور بے اختیار ہی اس نے تھوڑا سا پانی زریاب کی طرف اچھال دیا. زریاب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور ادا کے پیچھے بھاگا.

ارے ٹہرئے! آپ یہ کسی ٹین ایج کپل کی کہانی نہیں پڑھ رہے. یہ کرنل زریاب علی اور ادا علی کی پریم کتھا ہے. سولہ سال پہلے ادا جعفری نے زریاب علی کی بیگم بن کر ادا علی کا نہ صرف نام اختیار کیا بلکہ وہ اس "آشیانہ ہاؤس " کے ہر مکین کے دل میں بھی گھر کر گئیں. اللہ نے ان کو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت بھی عطا کیا تھا. وہ اپنے سسرال کی آنکھوں کا تارا تھیں. اللہ نے ان کو سولہ سال میں تین بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا. وہ آج بھی روز اول کی طرح خوبصورت اور نازک اندام تھیں. ان کی شادی عمر کی بیسویں سیڑھی پر ہوگئی تھی. اس لئے سولہ سالوں نے ان کو نکھارا ہی تھا. پھر چاہے جانے کا احساس ایسا نشہ ہے جو انسان کو خوبصورت ہی رکھتا ہے.

ابھی ادا نے ناشتے کی ٹیبل لگائی ہی تھی تمام گھر والے زریاب کا انتظار ہی کر رہے تھے. اچانک زریاب وردی پہنے ہوئے ڈائننگ روم میں داخل ہوئے. ادا نے بے اختیار ہی پوچھا :
خیریت ! آپ کل ہی تو آئے تھے؟ زریاب ہنس کر بولا :

بیگم صاحبہ آپ فوجی کی بیوی ہیں اور جانتی ہیں کہ ہمارا فرض ہماری زندگی سے بڑھ کر ہے.

سب نے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا. ناشتےکے بعد زریاب نے اماں ،ابا اور بچوں سے اجازت لی.

بڑے پندرہ سالہ بیٹے کو چند نصیحتیں کیں. ادا بوجھل دل سے اپنے کمرے میں چلی آئی. زریاب نے اس کے پیچھے آکر نرمی سے اس کو خدا حافظ کہا. ادا نے بے اختیار ہی کہا

ہماری پرسوں شادی کی سالگرہ ہے. میں نے آپ کی اور اپنی بہنوں کو دعوت پر بلا بھی لیا تھا زریاب نے ہنس کر کہا :

پگلی! پرسوں تک تو میں تمہارے پاس ہونگا.

زریاب بلوچستان کے مشن پر نکل گئے. آج ان کی شادی کی اینورسری کی دعوت تھی. ادا دعوت کے انتظامات میں مصروف تھی. سارے رشتے دار آچکے تھے. اب اس کی نندوں نے پیچھے پڑھ کر اس کو بھی اچھا سا تیار کردیا تھا. کیک آچکا تھا. اچانک پورچ میں گاڑیاں رکنے کی آواز آئی. ادا بھاگ کر بے اختیار باہر آئی. اس نے بے یقینی سے دیکھا. پورچ آرمی والوں سے بھرا ہوا تھا اور ایک گاڑی سے ایک لکڑی کا تابوت جس پر پرچم لپٹا ہوا تھا اور اس پر پڑی ٹوپی کو تو وہ آنکھیں بند کرکے بھی پہچانتی تھی. کب وہ زمین پر گر پڑی اور کب ہوش و حواس سے عاری ہوگئی.

جب اسے تین دن بعد ہوش آیا تو اس کی دنیا لٹ چکی تھی. بلوچستان کے آپریشن میں اس کے جانباز میاں نے نہ صرف دہشت گردوں سے معصوم جانوں کو بچایا تھا بلکہ اپنی یونٹ کے جوان کی جان بچاتے ہوئے چھاتی پر چار گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کیا تا.

آج پورے چالیس دن گزر گئے تھے. اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک ریگستان میں بے سائبان کھڑی ہے. پورا رمضان کیسے گزرا اس کو پتا ہی نہ چلا.اب کل عید تھی. اس نے بے اختیار آنکھیں بند کی اور زیر لب بڑبڑائی.

عید کی ہے پھر آمد آمد
شور ہے ہر طرف سلامت سلامت...
میں اپنی سونی کلائیوں کو حسرت سے تکتی ہوں
پھر اپنی حنا سے عاری ہتھیلیوں کو سونگھتی ہوں
اچانک دو موتی میری ہتھیلی پر ٹپک جاتے ہیں
میرا وھ کنگن اور حنا لانے والا جیالا پاسبان
تو دور افق میں اب بستا ہے
پھر مسکرا کر سوچتی ہوں
شہید کی بیوھ روتی نہیں ہے.
آج میری بانہیں اور ہتھیلیاں سونی ہیں تو کیا؟
مگر بہت سی بہنوں کے سہاگ ہیں سلامت
بہت سے بچوں کے ہیں خواب سلامت
بس یہ سوچ کر نیر خشک کرلیتی ہوں.
یہ جو شہید کی موت ہے یہی تو قوم کی حیات ہے.

یہ سوچ کر اس نے ایک عزم سے اپنی آنکھیں خشک کیں.اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بھی اس وطن کا پاسبان بنانا تھا. وہ اپنے سسر کے کمرے کے پاس سے گزری تو اس کے کانوں میں ان کی تلاوت کی آواز سنائی دی.
“وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللھ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔” (البقرة:۱۵۴)

ترجمہ:… “اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم کو احساس نہیں۔”

بے شک اللہ نے اس کو اشارہ دے دیا تھا. وہ ایک نئے اور محکم ارادے سے اٹھ کھڑی ہوئی.
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281110 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More