نوازلیگ میں انتشار

محترم لیاقت بلوچ نے کہا ’’ نوازشریف کا بیانیہ ملک وملت کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کے لیے بھی ’’پریشانیہ‘‘ بن چکا ہے۔ خود شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی اپنے قائد کے بیانیے سے متفق نہیں‘‘۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہم لفظ ’’بیانیہ‘‘ سے ناآشنا تھے لیکن پھر اِس لفظ کی اتنی تکرار سُنی اور پڑھی کہ ہم نے بھی اپنے کالموں میں اِسے استعمال کرنا شروع کر دیا ، ہمیں اپنی ’’وجاہتِ علمی‘‘ کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ اب محترم بھائی لیاقت بلوچ نے بیانیہ کا ہم وزن ’’پریشانیہ‘‘ متعارف کرا دیا ہے۔ اُمیدِواثق ہے کہ عنقریب یہ لفظ بھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لے گا۔ ویسے ہمیں محترم لیاقت بلوچ کے اِس ’’سیاسی بیان‘‘ سے مکمل اتفاق ہے، واقعی نوازلیگ میں انتشار کی سی کیفیت ہے اور اکابرینِ تحریکِ انصاف کا ’’پریشانیہ‘‘ واضح۔ ہمارے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کا ’’پریشانیہ‘‘ تو قابلِ دید ۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں یہ کہتے ہوئے کھڑاک کر دیا کہ جس کے پیٹ میں درد ہے، وہ بولے اور جتنا جی چاہے بولے۔ وزیرِاعظم کے اِس بیان پر اپوزیشن روٹھ گئی اور ایسی روٹھی کہ اجلاس سے ’’واک آؤٹ‘‘ ہی کر گئی۔ ویسے ہمیں یقین ہے کہ اگر وزیرِاعظم کو پتہ ہوتا کہ اُن کے اِس جملے پر اپوزیشن واک آؤٹ کر جائے گی تو وہ کہتے ’’جس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں، وہ جتنا جی چاہے بولے‘‘۔ آخر اپوزیشن کو سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ نوازلیگ میں خواجہ آصف سیالکوٹی کی کمی کسی نہ کسی نے تو پوری کرنی ہی تھی سو وزیرِاعظم نے کر دی۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہماری پارلیمانی سیاست میں غیرپارلیمانی الفاظ کا ’’دِل خوش کُن‘‘ اضافہ محترم عمران نیازی کی کرشمہ سازی ہے جو سپریم کورٹ سے بھی یہ ’’سند‘‘لے آئے کہ لفظ ’’شرمناک‘‘ گالی نہیں ہوتا۔

میاں نوازشریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کرکے جہاں ایک طرف زورآوروں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں اور ’’ڈرتے ورتے‘‘ کسی سے نہیں، وہیں اپنی جماعت کو بھی اندرونی انتشار کا شکارکر گئے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں محترمہ مریم نواز کا ٹویٹ بھی سامنے آجائے کہ ؂
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بہگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

عین اُس وقت جب عام انتخابات کی آمد آمد ہے، نون لیگ انتشار کا شکار ہوچکی ۔یہ انتشار نوازلیگ سے ہمدردی رکھنے والے ووٹرز کی پریشانی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ ڈان نیوز میں خبر آنے کے بعد میاں شہبازشریف نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب ایسا کہہ ہی نہیں سکتے۔ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا کہ اِس انٹرویو کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے لیکن میاں نوازشریف نہ صرف اپنے مؤقف پر قائم ہیں بلکہ دو قدم آگے بھی بڑھ چکے ۔ یہ بجا کہ میاں صاحب نے جو کچھ کہا، وہ پہلے بھی کئی لوگ کہہ چکے لیکن نااہلی کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ جیسے نعرے کے تناظر میں اُن کے اِس بیان کو مختلف معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب ’’رازکھولنے‘‘ کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اِس لیے اپوزیشن اور کچھ تجزیہ نگاریہ آگ اُگل رہے ہیں کہ میاں صاحب کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ میاں صاحب کے بیان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے اِس بیان کو یکسر مسترد کر دیا۔ نوازلیگ کے قائد میاں نوازشریف صاحب کو یہ تو علم ہی ہوگا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بیٹھی اعلیٰ سول قیادت کے ہر فرد کا تعلق نوازلیگ سے تھا جو اُنہیں اپنا قائد تسلیم کرتی ہے ، اِس کے باوجود بھی اُنہوں نے سلامتی کمیٹی کے رَدِعمل کو افسوسناک اور خطرناک قرار دے کر مسترد کر دیا جو یقیناََ نوازلیگ کی مقبولیت میں دراڑیں ڈالنے کا باعث ہوگا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ میاں صاحب قومی سلامتی کمیٹی کو براہِ راست نشانہ بنانے کی بجائے صرف اپنے بیانیے پر ہی قائم رہتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ اُنہوں نے جو کچھ کہا، وہ غلط نہیں تھاکیونکہ ماضی میں حکومتی پالیسی بھی یہی تھی اور ممبئی حملوں پر اُن کا بیان سابق صدرِپاکستان آصف علی زرداری، سابق وزیرِداخلہ رحمٰن ملک، سابق آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا اور سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل (ر) محمود دُرانی سے مختلف نہیں تھا۔ میاں صاحب ’’دبنگ‘‘ تو بن گئے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے ’’بھِڑوں کے چھَتّے‘‘ میں ہاتھ ڈال دیا ہے جس سے نقصان ہو گا تو صرف اُن کی اپنی جماعت (نوازلیگ) کا۔ اُنہیں یہ تو یاد ہو گا کہ جب آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کی ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘‘ کی بات کی تھی تو اُنہوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات سے بھی انکار کر دیا تھا۔ آج ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنی ہی جماعت کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کو دباؤ میں رکھنا چاہتے تھے (اُنہوں نے ممبئی حملہ کیس کی عدم تکمیل پر بھی سوال اُٹھایا ہے) تو براہِ راست تصادم کی بجائے وہ کئی اور طریقے بھی اختیار کر سکتے تھے۔ ممبئی حملہ کیس کا ذکر کیے بغیر بھی اُن کا بیانیہ مقبول ہو رہا تھا اور عوام کی اکثریت یہی سمجھ رہی تھی کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن اُنہوں نے براہِ راست تصادم کی راہ اختیار کی اور وہ بھی اُس وقت جب عام انتخابات سَر پر ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میاں صاحب کو اِس ’’خود کُش مِشن‘‘ کی راہ کِس نے دکھائی؟۔

جلاطنی کا دُکھ جھیلنے والے میاں نوازشریف جب جلاوطنی کاٹ کر وطن پہنچے تو ایک دِن اُنہوں نے اَزراہِ تفنن کہا ’’لوگ کہتے تھے ،قدم بڑھاؤ نوازشریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا‘‘۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال آج بھی ہے۔ قوم کی آواز تو یہی ہے کہ قدم بڑھاؤ نوازشریف ،ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن میاں صاحب نے جِن سنگلاخ راہوں کا انتخاب کر لیا ہے، اُنہیں دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ؂
منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنّا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اِس راہ میں آخر اِک اِک ساتھی چھوٹ گیا

دَست بستہ عرض ہے کہ نوازلیگ تو اب بھی میاں صاحب کی پُشت پر کھڑی ہے ۔ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اور بعد اَزاں پارلیمنٹ میں اپنے تئیں اپنے قائد کی بھرپور حمایت کی کوشش کی، میاں شہباز شریف نے بھی ’’غلط رپورٹنگ‘‘ کاکہہ کر اپنے قائد، بڑے بھائی اور اپنی سیاسی جماعت کو بچانے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے اُن کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ ارکانِ پارلیمنٹ جو تمامتر مشکلات کے باوجود پُراعتماد تھے کہ آمدہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز ہی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھرے گی، وہ بھی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ نوازلیگ آج بھی پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے (قومی اور بین الاقوامی سرویز یہی کہہ رہے ہیں) لیکن اِس نئے ’’طوفان‘‘ کے بعد حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں،کچھ پتہ نہیں۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642942 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More