نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے
‘مسلم لیگ ن کو پسندیدہ ترین جماعت کا مرتبہ حاصل ہوچکا تھا ۔ خلائی مخلوق
کی حمایت کے باوجود سیاسی حریفوں کو 2018ء کے الیکشن میں کامیابی مشکل
دکھائی دے رہی تھی ۔ نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے کا فیصلہ بھی عوامی
سطح پر ناقابل قبول قرار پاچکا تھا اور توقع یہ کی جارہی تھی کہ دو تہائی
اکثریت حاصل کرنے کے بعد ترمیم کے ذریعے نواز شریف کی نااہلیت ختم کردی
جائے گی ۔اس بات کا اشارہ رانا ثنا ء اﷲ اپنی پریس کانفرنس میں کرچکے ہیں ۔
اب صرف الیکشن کے دن کاانتظار تھا کہ ایک بار پھر اقتدار ‘ مسلم لیگ ن کی
جھولی میں جاگر ے گا۔عمران خان اور آصف زرداری ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔اچانک
نواز شریف نے ایک ایسا زہریلا بیان دیا جس نے صورت حال کو یکسر تبدیل کرکے
رکھ دیا۔ وہ بیان بھارت میں مقبول ترین بیانیہ بن گیا جبکہ پاکستان میں ہر
جانب نفرت کی آگ بھڑک اٹھی ۔ فوج کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار اور بعد
ازاں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مذمتی قرار داد کا اعلامیہ اس بات کا
ثبوت تھاکہ قومی حلقوں میں نواز شریف کے اس بیان کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ
سے دیکھاگیا ہے ۔ کئی حلقوں کی جانب سے تو غدار وطن قرار دینے کا سلسلہ اب
تک جاری ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت ملک کی دیگر عدالتوں اور پولیس
اسٹیشنوں میں غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی درخواستیں مسلسل دی جارہی ہیں ۔اگر
یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس بیانے نے تمام مسلم لیگی رہنماؤں اور
کارکنوں کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی صدارت
میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کااجلاس ہوا جس میں میاں شہباز شریف بھی
شریک تھے ۔ اجلاس میں اکثریتی ارکان نے نواز شریف کے بیان کو سخت الفاظ میں
مسترد بھی کیااور جذباتی انداز میں نعرے بھی لگائے " مودی کا جو یا ر ہے وہ
غدار ہے "۔ کچھ اراکین نے یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف کے اس بیان نے ہمیں
عوام میں جانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔ ہم جہاں جاتے وہاں ہمیں غدار کی تکرار
سننی پڑتی ہے ۔ پچاس سے زیادہ اراکین اسمبلی پہلے ہی پارٹی کو چھوڑ کر پی
ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ مزید لوگ بھی نقل مکانی کے لیے بوریا بستر
باندھ رہے ہیں ۔چودھری نثار احمد جیسے دلیر اور بہادر سیاسی لیڈر جو ہر
مشکل میں پارٹی کادفاع کیا کرتے تھے وہ بھی نواز شریف کی ہٹ دھرمی کا شکار
ہوکر گوشہ نشین ہوچکے ہیں ۔اگر یہی حالات رہے تو وہ بھی پی ٹی آئی میں
جاسکتے ہیں ۔وہ لیگی کارکن جو دھڑلے سے اپنے قائد کی وکالت کرتے اور سینہ
تان کر سڑکوں پر نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ بھی
اب چھپتے پھرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اس بدترین مقام پر پہنچانے کا کارنامہ
کسی اور نے انجام نہیں دیابلکہ خود مسلم لیگی قائد نواز شریف نے اپنی ہی
جماعت پر ایسا خود کش حملہ کیاہے کہ جس کے منفی نتائج الیکشن میں بخوبی
دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ بات نواز شریف کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے
پاکستانی کو ایٹمی طاقت بنایا ملک میں جتنے بھی میگا پراجیکٹس پایہ تکمیل
کو پہنچے ان سب پر نواز شریف کی مہر لگی ہوئی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے
بالاتر ہے کہ نواز شریف کے پیٹ میں بھارت کی محبت اور مودی کی غلامی کا شوق
کب سے پیدا ہواہے ۔ پاکستانی قوم مر تو سکتی ہے ‘ بھارت سے محبت نہیں
کرسکتی ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارت ازل سے ہی پاکستان کا جانی دشمن ہے۔
ملک میں جتنی تخریب کاری اور دہشت گردی ہورہی ہے ‘بلوچستان کو پاکستان سے
علیحدہ کروانے ‘ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے ‘ پاکستانی دریاؤں کے پانی
پر ڈیم بنانے کی جتنی بھی پیش رفت ہورہی ہے اس کے پیچھے بھارت کی پاکستانی
دشمنی ہے ۔ بھارت پاکستان کو چاروں اطراف سے گھیر کر پیاسا مارنا چاہتا ہے
۔کراچی کو بارود کا شہر بناکر وہاں قتل عام کروانے میں بھی بھارت کا ہاتھ
ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ایسے غیر ریاستی عناصر کا قلع قمع کرنا بہت
ضروری ہے جو دوسرے ملکوں میں جاکر وارداتیں کرکے بین الاقوامی سطح پر
پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں لیکن بھارت کے حق میں یہ بیان دینے کا
موقع ہرگز نہیں تھا۔اگر بیان دے ہی دیاتھا تو اس کی تردید کردیتے لیکن ڈٹ
جانے سے نواز شریف آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں جا دھنسے ہیں ۔شاید
یہی وجہ ہے کہ خود مسلم لیگی اراکین اسمبلی بھی پارلیمانی اجلاس میں یہ
نعرے لگانے پر مجبور ہوئے کہ" مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے" ۔ رانا ثنا ء
اﷲ بھی اپنی جماعت پر اکثر خود کش حملے کرتے رہتے ہیں ۔ان کا تازہ بیان کہ
ہم خلائی مخلوق کو شکست سے ہمکنار کر کے رہیں گے اس بات کو بھی ہر سطح پر
نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ خلائی مخلوق
کا اشارہ ان عسکری حلقوں کی جانب ہے جنہوں نے پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی
جانیں قربان کی ہیں ۔سیاسی کردار کو چھوڑ کر پاکستانی قوم کا ہر فرد اپنی
فوج سے محبت کرتا ہے ۔وہ کیسے برداشت کرے گا کہ رانا ثناء اﷲ جیسے احمق
وزیر اپنی ہی فوج کو شکست دینے کا اعلان کررہے ہیں ۔ شہباز شریف اسی لیے
فوج اور دیگر تمام حلقوں کے لیے قابل قبول ہیں کہ وہ حالات کا رخ دیکھ
کربات کرتے ہیں ۔ فوج سمیت ہر ریاستی ادارے کا دل سے احترام کرتے ہیں اور
یہی بات ان کے کریڈٹ میں جاتی ہے۔ بہتر ہوگا نواز شریف سیاست سے کنارہ کش
ہوکر اپنے مقدمات پر توجہ مرکوز کریں اور شہباز شریف کو صدر کی حیثیت سے
مسلم لیگ ن کو منتظم ‘مستحکم کرنے دیں ۔اگر نواز شریف اسی طرح زہریلے
بیانات اگلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب مسلم لیگ ن بھی پیپلز پارٹی کی طرح
قصہ پارینہ بن جائے گی ۔ ختم نبوت کی شقوں میں تبدیلی کا سیاہ کارنامہ اور
ممتاز قادری کی شہادت نے پہلے ہی مذہبی حلقوں کو مضطرب کررکھا ہے ۔نوازشریف
پر جوتا پھینکنے ‘ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکے اور احسن اقبال پر
فائرنگ کرنے والوں کا تعلق ایک ہی مذہبی جماعت سے ہے ۔کرپشن کے الزامات تو
نواز شریف کا تعاقب کر ہی رہے تھے اب وہ اینٹی پاکستانی بھی مشہور ہوچکے
ہیں۔الیکشن مہم میں ان کا نام لینا بھی ووٹروں کو ناراض کرنے کے مترادف
ہوگا ۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ قومی الیکشن میں مسلم لیگ ن کامیابی حاصل کرے
تو انہیں اپنا بیان واپس لینے اور بھارت کی پاکستان میں تخریب سرگرمیوں کی
مذمت کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے ۔مودی کی محبت اور غلامی کو ہمیشہ کے
لیے دل سے نکالنا ہوگا۔پاکستانی عوام بھارت سے نفرت تو کرسکتی ہے محبت ہرگز
نہیں ۔
|