’بھارت ایک کھوج ‘ دور درشن پر ایک سیریل دکھایاجاتا
تھا جوفلمی دنیا کے مشہور ڈائرکٹر شیام بینیگل نے اپنی ہدائت کاری
میں۵۳؍ایپیسوڈ میں پیش کیاتھا۔یہ ڈرامہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی تصنیف
’ڈسکوری آف انڈیا(Discovery of India)‘سے تیار کیا گیا تھا جو بھارت کی
پانچ ہزار سال کی تاریخ ہے جسکا احاطہ ۱۹۴۷ءیعنی بھارت کی آزادی کے کچھ
پہلے تک کیا گیا ہے۔
اس کھوج میں ایک اورکھوج شامل ہے جس نے بھارت کو تلاش کیا۔’واسکو ڈی گاما‘
24.12.1524) - 1469 یا (1460 ایک پرتگالی باشندہ جس نے سمندری راستہ سے
بھارت کو تلاش کیا اور دنیا سے متعارف کرایا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بھارت کی
شہرت واسکو ڈیگاما کی رہین منت ہے۔ چینی سیاہ ’فاہیان‘ ، ’واسکو ڈیگاما‘ سے
تقریباً سوا گیارہ سو سال پہلے بھارت کو کھوج چکا تھا، مطلب وہ بھارت آچکا
تھا۔وہ ۱۱؍سال تک بھارت میں رہا۔فاہیان نے پیشاور، تکش شلا،متھُرا،
کنّوج،شراوستی، کپل وستو، سار ناتھ کے علاوہ بہت سی دوسری جگہوں کا دورہ
کیا۔بھارت سے وہ شری لنکا گیا اور وہاں دو سال رہ کر 414ء میں چین واپس
چلا گیا۔
بہت ہی شروعات میں آریوں نے بھی بھارت کو کھوج نکالا تھا اور یہاں آکر بس
گئے اور سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ یہاں کے مقامی باشندوں کو غلام
بنایا اور خود ان پر حکومت کرنے لگے۔مقامی لوگوں پر جب حکومت کے توسط سے
مظالم بڑھنے لگے تو کبھی ’جین‘ مذہب بنا کر لگ ہو گئے اور کبھی بدھ مذہب کی
شکل میں الگ ہو گئے۔مسلمانوں کے ساتھ ہی عیسائیوں نے بھی بھارت میں قدم
رکھا تھا،ان کے رابطہ میں آنے پرہندو مذہب ترک کر کے عیسائی اور مسلمان
ہونے لگے۔کیوں کہ وہاں ظلم اور نابرابری تھی اور یہاں پیار اور برابری ۔
عیسائیوں کے مقابلہ میں،ستائے ہوئے لوگ مسلمانوں سے زیادہ متاثر ہوئے وجہ
یہ تھی جو دلت تھا اسے مسلمان ہونے کے بعد مسجد میں میاں صاحب یا خانصاب کے
برابر میں کھڑے ہونے کا موقع ملتا تھا ۔آج بھکت لوگوں نے یہ خبر بھی کھوج
کر رکھی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ذبردستی سے ہندو قوم کو مسلمان بنایا۔ اب
ان کو کون سمجھائے کہ ’مارے باندھے بازار نہیں لگتی‘۔کیونکہ کسی کو ذبردستی
اس عقائد سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔
بھکتوں! یہ جھوٹ کی لاش کب تک اپنے کندھے پر ڈھوتے رہوگے؟ہندو راشٹروادی
شری سبرامنیم سوامی کی بیٹی پر کس نے ظلم کر کے اُسے مسلمان بنایا۔آج بھی
لوگ اپنی مرضی سے مسلمان ہو رہے ہیں۔بھارت میں عیسائی اور مسلمان تقریباً
ایک ہی وقت میں آئے تھے لیکن عیسائی کی آبادی مردم شماری 2011کے مطابق
بھارت میں2.3فیصد ہے وہیں مسلم آبادی 14.9فیصد ہے۔عیسائی مشنری بہت خرچ
کرتی ہے،خدمت بھی کرتی ہے،تعلیم اور صحت کا بھی خیال کرتی ہے وہیں مسلمان
دلتوں کو راغب کرنے کے خرچ نہیں کرتا ہے بلکہ صرف برابری کا حق دیتا ہے۔
بات ایجادات کی چل رہی تھی، دنیا میں بہت سے سائنس داں ہوئے ہیں جنہوں نے
بہت سی کھوجیں کی ہیں جیسے نیوٹن نے’لاء آف موشن اور زمین کی کشش کھوجی،
گیلولیونے ’ٹیلی اسکوپ‘ کھوجا اور مارکونی نے’ریڈیو‘کی سوغات ہمیں دی ۔جن
کے فائدے ہم اُٹھا رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اُٹھاتے رہیں گے۔لیکن ہمارے
راشٹروادیوں کی ایجادات کا کچھ عجب نظام ہے۔ وہ آج انتخابی ریلی کے ڈائس پر
بیٹھ کرپتہ نہیں کیا کیا کھوج لیتے ہیں۔ایک صاحب نے کھوج کر بتایا کہ ہمارے
پراچین بھارت میں ’پشپک ومان‘ تھا اور اس کے بنانے کا طریقہ بھی تھا جسے
انگریز چرا لے گئے تھے اوراُسے اپنی قوم کے نام پیٹنٹ کرا لیا۔اب ہم اپنی
ہی ٹکنالوجی کا مال اُن سے خرید کر لاتے ہیں۔
جس دور میں جو ایجادات ہوتے ہیں اس کا فائدہ اس وقت کے لوگ کم اُٹھا پاتے
ہیں، اس کا فائدہ آگے کی نسلیں اُٹھاتی ہیں۔مثال کے طور پرجب پہیہ کی ایجاد
ہوئی (اسٹون ایج میں)توکیا کسی نے سوچا تھا بیل گاڑی سے لیکر ریل گاڑی اور
ہوائی جہاز تک میں اس کا استعمال ہوگا، گھرّیوں کا استعمال کر کے بھاری وزن
بھی اُٹھائے جا سکتے ہیں۔
ہمارے بھارت میں اس وقت’ کل ےُگ‘ کا ’بھکتی ےُگ‘ چل رہا ہے۔بھکت لوگوں نے
سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے اور ایجادات کی ذمہ داری بھی ان کے ہی
پاس ہے۔آج کا بھکت فلاسفر بھی ہے،سائنس داں بھی ہے،تاریخ داں بھی
ہے،جغرافیہ کا ماہر ہے یعنی نزلہ ، زکام ،چوٹ، موچ اوربخار میں کام آنے
والا ’جھنڈو بام‘ کا کام بھکت کرتا ہے۔یہ جھنڈو بام کی خوبی رکھنے والے
موجد بھی ہے۔ ان لوگوں نے آج کے زمانے میں بیٹھ کریا کھڑے ہوکر(کوئی فرق
نہیں پڑتا)پانچ ہزار سال پہلے کی باتیں کھوج نکالی ہیں۔ ۸۳؍ سال میں علی
گڑھ میں جناح کی فوٹو بھی کھوج نکالتا ہے۔ تریپُرا کے وزیر اعلی مسٹر’ بپلب
دیب‘ کہتے ہیں کہ مہابھارت کے زمانے میں’انٹر نیٹ‘تھا اور اسی کی مدد سے
راجہ دھرشٹراج جو اندھے تھے کے مشیرسنجئے نے کورو اور پانڈو کے مابین جنگ
کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے رہتے تھے۔مہابھارت کے مطابق راجہ دھرشٹراج
کے مشیر (سنجئے)کو قدرتی بصیرت ملی ہوئی تھی۔لیکن ترپرا کے وزیر اعلی کے
نزدیک یہ ویب سائٹ اور سیٹ الائٹ کا کمال تھا۔
یوں تو بی․جے․پی․میں بہت سے نیتا ہیں جنہوں نے اپنے سر کچھ نہ کچھ ایجادات
کا سہرا باندھ رکھا ہے۔ہمارے مودی جی بھی کسی سے کم نہیں ہیں انھوں نے بھی
ایک ایجاد کیا ہے ۔یہ ایجاد ایسے وقت کا ہے جس وقت کا تعیےن نہین کیا جا
سکتا ۔ایک میڈکل سیمینار میں آپ نے فرمایا کہ آج سے بہترپرانے زمانے کی
’پلاسٹک سرجری ‘ تھی۔شنکر جی نے کتنی سفائی سے ہاتھی کے سر کو اپنے بیٹے
’گنیش‘کے کندھوں پر کتنی نفاست اور خوبصورتی سے سل دیا تھا۔اب یہ بات دوسری
ہے کہ جب پلاسٹک سرجری ہی کرنی تھی تو گنیش کا اصل سر ہی جوڑ دیتے۔بہر حال
بڑے دِل گردے کی بات ہے کہ Myth کو سچ کا درجہ دیا جا نا۔مودی جی کی
ایجادات سے ایک بات اور جڑی ہے کہ مہابھارت کے وقت میں ’جینیاتی سائنس‘ کے
بھی ماہر لوگ تھے جنہوں نے یہ پتہ لگا لیا تھا کہ ’کرن‘اپنی ماں کے پیٹ سے
نہیں پیدا ہوا تھا۔
اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلی،رمیش پوکھریال، جواس وقت ایم․پی․ہیں نے
پارلیمنٹ میں نہ صرف مودی جی کے ایجاد کی تائد کی ساتھ میں اپنی بھی ایجاد
کو شامل کرتے ہوئے کہا کہ ’’کناد نام کے ایک قدیم رِشی نے قبل مسیح دوسری
صدی کے آس پاس ایک جوہری تجربہ کیا تھا‘‘۔ یعنی یہ جوہر ی کھوج کچھ نئی
نہیں ہے۔
ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ستیہ پال سنگھ نے ایک فہرست تیار کی ہے جن میں
اُن ایجادات کا ذکر کیاہے جسکو آج کا طبقہ نہیں جانتا ہے۔مثال کے طور پر
شواکر بابو جی تالپڑے جو ہوائی جہاز کے پہلے موجد تھے جنہوں نے ’رائٹ
برادرس‘ (1904-05)سے آٹھ سال پہلے ہوائی جہاز کی کھوج کر لی تھی۔مسٹر سنگھ
نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انجینئرنگ کے طلبا کو رامائن کے زمانے کے ’پشپک
ومان‘ کے بارے میں بھی بتایا جانا چاہئے۔
مودی جی نے بھارت کی معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے کچھ ٹِپس ایجاد کیے ہیں
جیسے کہ ’لڑکیاں اگر اچار بیچیں تو خوب بکے‘لہذاچار کا کار و باربہت منافع
بخش ثابت ہو سکتا ہے ۔اسی طرح سے ہمارے نوجوان بچے نوکری کی تلاش میں در در
بھٹکتے رہتے ہیں، اپناوقت برباد کرتے ہیں، کسی آفس کے سامنے پکوڑے کا ٹھیلہ
لگائیں اور شام کو دو سو روپے کما کر گھر لے جائیں۔سمبت پاترا نے ایک شو
میں بتایا کہ ایک گائے کا گوبر کوہ نور ہیرے سے بھی زیادہ قیمی ہوتا ہے‘۔یہ
پاترا جی کی تحقیق ہے جو سپریم کورٹ کے حوالہ سے لائے ہیں میرے خیال سے ان
کا اشارہ ُاوپلا پاتھ انڈسٹری‘ قائم کرنے کی طرف ہے۔ ہمارے صوبہ اتر پردیش
کے وزیر اعلی نے گائے پالنے کی ترغیب دی ہے کہ’بے روزگار لوگ گائے پالیں
اور دو سال میں لکھ پتی بن جائیں‘۔دودھ کے کارو بار کے ساتھ اگر ’کنڈا‘
انڈسٹری بھی لگا لیں تو ’امبوانی‘ بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ |