مسلم لیگ ن اور پی ٹی آ ئیکے بعد پیپلز پارٹی کے منشورکا
بھی ایک جائزہ پیش ہے۔۔پیپلز پارٹی کا برسوں سے روٹی ، کپڑا اور مکان کا
نعرہ رہا ہے۔ 2013میں اس نعرے میں اضافہ کی گیا ۔ اضافی نعرہ شاعری کی صورت
میں دیا گیا ۔
روٹی ، کپڑا اور مکان
علم ، صحت، سب کو کام
دہشت سے محفوظ عوام
اونچا ہو جمہور کا نام
یہ نعرہ نما رباعی تھی۔ دعوے ، نعرے ، وعدے ہماری سیاست کا اٹوٹ حصہ بن رہے
ہیں۔ ووٹر کو متاثر کرنے کے لئے نئے وعدے ہوتے ہیں۔ ان کو منشور میں جگہ
دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں منشور کی سیاست کا بالکل رواج نہیں۔ منشور پر
عوام بھی کوئی توجہ نہیں دیتے۔یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشروں کی شایان نہیں۔
ہمیں تمام پارٹیوں کے منشور کے بارے میں آگاہ رہنا چاہئیے۔تا کہکبھی مذکورہ
بارٹی کو کم از اس کا منشور ہی یاد دلا سکیں۔ پیپلز پارٹی کے منشور 2013کے
نکات اہم تھے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دعویٰ کر رہے تھے کہ پارٹی
نے اپنے2008کے منشور اور میثاق جمہوریت پر 85فی صد سے بھی زیادہ عمل
کیا۔پارٹی نے اپنے منشور کا آغاز بھٹو صاحب کے اس بیان سے کیا ، ’’ ہم اپنے
خیالات کو یکجا اور زہنوں کو صاف کرنے کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کر رہے
ہیں۔ نظریاتی سرحدوں سے پیچھے ہٹے بغیر ہمیں سیاسی جنگ بندی کرنے کی ضرورت
ہے‘‘۔ منشور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ، سب کے لئے صحت، نیشنل صحت
انشورنس، میڈیکل تعلیم میں اصلاحات، فیملی پلاننگ، یونیورسل اور کوالٹی
تعلیم تک پہنچ، مزدوروں اور کسانوں کی بااختیاری، ہاؤسنگ سب کے لئے، خواتین
کا اختیار، اقلیتوں کا تحفظ، نوجوانوں کا اختیار، بچوں کے حقوق، آزادی
اظہار، لاپتہ افراد کی تلاش، سمند پار پاکستانی، غربت کا خاتمہ، روزگار،
زراعت کی جدید کاری، سرمایہ کاری،ماحولیات، وائلڈ لائف اور قدرتی وسائل کا
تحفظ، مقامی حکومتیں با اختیاری، بہاولپور اور جنوبی پنجاب نئے صوبے،
احتساب، جوڈیشل اصلاحات، سول سروسز اصلاحات، فاٹاوغیرہ کا تذکرہ تھا۔ منشور
میں پانچ سالہ کارکردگی اور آئیندہ کے وعدے درج تھے۔ منشور کو عوام کے ساتھ
مقدس وعدہ قرار دیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کے مشن کے تحت قائد اعظم محمد علی
جناح کا پاکستان، قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو کا پاکستان، شہید محترمہ
بینظیر بھٹو کا پاکستان اور بلاول بھٹو زردار کا پاکستان کا تذکرہ کیا گیا۔
2018ء تک آبادی کی موجودہ شرح کو 2فی صد سے کم کر کے 1.6فی صد پر لانے کا
وعدہ، بے گھر افراد کے لئے 5لاکھ گھروں کی تعمیر، 12ہزار ملازمین مستقل،
60ہزار ورکرز کی نوکریوں پر بحالی اور 6لاکھ60ہزار افراد کو ملک سے باہر
روزگار دلانے کی بات۔ایک لاکھ انٹرنشپس دینے، 50لاکھ خواتین میں 70ارب روپے
کی تقسیم ، بیت المال سے 7ارب روپے غریبوں کو دینے،سیلاب زدگان میں 52ارب
روپے کی تقسیم ، کم از کم تنخواہ 18ہزارروپے، بی آئی ایس پی کے تحت ماہانہ
گرانٹ 2ہزار، تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا 4فی صد، تھر کول منصوبے پر عمل،
گلگت بلتستان کو سیلف رول اور اٹانومی دینے، زلزلہ متاثرہ آزاد کشمیر کی
تعمیر نو کے لئے تمام وسائل فراہم کرنے، آئیندہ بھی تعمیر نو کا کام جاری
رکھنے، آزاد کشمیر کے عوام کو حقوق دینے اور گورننس میں بہتری لانے کا دعویٰ
تھا۔ فوج کے بجٹ کوپارلیمنٹ میں لانے، دفاعی اخراجات پر نظر رکھنے کا تذکرہ
تھا۔ ـ’’ خطے میں استحکام اور امن کو خاص اہمیت دیں گے، جموں و کشمیر کے
عوام کے ساتھ سفارتی اور اخلاقی کمٹ منٹ کو قربان نہیں کیا جائے گا۔‘‘ لیبر
لاز کو فاٹا، پاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تک وسعت دی جائے گی۔آزاد
کشمیرکے انفراسٹرکچر میں اضافہ کیا جائے گا۔بھارت کے ساتھ کور ایشو کشمیر
سمیت تمام تصفیہ طلب ایشوز کے حل کے لئے ایماندارانہ اور خلوص مند ڈائیلاگ
جاری رہے گا۔ علاقائی امن کے لئے تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا اور سفری
پابندیوں میں آسانی علاقائی امن کے لئے پارٹی کا عزم تھا۔
پیپلزپارٹی تمام لوگوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا موقف رکھتی ہے۔ کشمیری
عوام کے حقوق کی حمایت کرنے کی دعویدار رہی ہے۔ 2013میں کہا گیا کہ پی پی
پی حکومت نے 2008سے 2013تک بھارت کے ساتھ کشمیر پر بھی ڈایئلاگ پراسس
ایجنڈا شروع کیا اور اسے جاری رکھا۔ کہا گیا کہ اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ
ایک ایجنڈے پر پیشرفت نہ ہونے سے دوسرے ایجنڈے پر پیش رفت نہ کی جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ترک کئے بغیر لائن آف
کنٹرول(جو کہ اصل میں سیز فائر لائن ہے) پر آزاد اور محفوظ سرحدوں کے تصور
کی حمایت کا موقف پیش کیا تا کہ کشمیری عوام کو سماجی طور پر متحد کیا جا
سکے۔ پی پی پی نے نوٹ کیا کہ بھارت اور چین کا سرحدی تنازعہ ہے ۔ پھر بھی
ان کے ٹنشن فری تعلقات ہیں۔کشمیری عوام کے ساتھ ان کے مسلمہ خواہشات کو
سمجھتے ہوئے مکمل اظہار یک جہتی بر قرار رکھی جائے گی اور ان کی اخلاقی ،
سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی۔ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں
اعتماد پیدا کرنا کی بات درج تھی۔ بھارت کے ساتھ تصفیہ طلب ایشوز اور
تنازعات پر پر امن اور بلا رکاوٹ ڈائیلاگ کی حمایت کا نعرہ تھا تا کہ
کشیدگی کا خاتمہ ہو۔یہ چند اہم نکات تھے کہ پی پی پی نے پانچ سالہ دور
اقتدار میں کیا کام کیا اور پھر کیا کرنے کی امید دلائی گئی۔پارٹی وفاق میں
حکومت نہ بنا سکی تا ہم اس نے 2013سے 2018تک اہم اپوزیشن پارٹی کا کردار
ادا کیا۔پارٹی کی سندھ میں حکومت رہی ۔سندھ میں پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ
لیا جا سکتا ہے کہ اتخابی منشور میں ووٹر کے ساتھ کئے گئے وعدے کس تناسب سے
پورے ہوئے۔پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور2018 سے ماضی کے منشور کا تقابلی
جائزہ لینے سے بات واضح ہو سکتی ہیکہ پی پی پی کی کار گزاری کیا ہے۔ عزائم
کیا ہیں۔ منشور ایک جامع دستاویز ہوتی ہے۔ اس سے پارٹیوں کی پالیسی اور
پروگرام ، وژن کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس پیپلز پارٹی کا
2008اور2013کے انتخابی منشور ہیں تو ان کا2018کے منشور سے ضرورموازنہ کریں۔
|