ایک ہفتے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے میڈیا پر نہ
آنے کے حوالے سے چہ میگوئیاں جاری ہیں ایرانی اور روسی میڈیا نے ایک ہفتہ
پہلے خبر دی کہ محمد بن سلمان ایک ماہ سے منظر عام سے غائب ہیں اور یہ
امکان ظاہر کیا کہ یا تو محمد بن سلمان شدید زخمی ہیں یا پھر ان کی موت
واقع ہوچکی ہے اس کے بعد یہ خبر عالمی میڈیا تک پہنچی جس کے بعد رسمی طورپر
سعودی حکومت کو اس حوالے سے بیان جاری کرنا پڑا جس میں ایک تصویر کو منتشر
کرنے کے بعد کہا گیا کہ محمد بن سلمان خیر و عافیت سے ہیں اور اپبنے دوستوں
کے ساتھ چھٹیاں منا رہے ہیں جہاں تک اس خبر کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تعلق
ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران سعودی عرب کا بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے جس
نے جھوٹ کا سہار لے کر اس خبر کو پھیلا کر سعودی حکومت کو کمزور کرنے کی
کوشش کی ہے۔
مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی مجھے صرف
عالم اسلام کے بدلتے ہوئے حالات سے غرض ہے جن کو بگاڑنے میں محمد بن سلمان
کا بہت بڑا ہاتھ ہے میرے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ جس دن سے امریکی صدر
ٹرمپ کو سعودی عرب میں غیر معمولی پذیرائی دی گئی اس دن سے لےکر آج تک میں
محمد بن سلمان کے اقدامات سے نا صرف پریشان رہا ہوں بلکہ اس حوالے سے بہت
کچھ لکھا بھی ہے۔
عالم اسلام کے لئے سعودی حکمرانوں کی خدمات سے کسی کو کوئی انکار نہیں ہے
خادم الحرمین شریفین کا ٹائٹل رکھنے والے اکثر سعودی بادشاہوں نے اسلام کے
لئے گراں قدر خدمات انجام دیں اس حوالے سے شاہ فیصل کا نام سرفہرست ہے لیکن
سابقہ سعودی بادشاہوں کی اسلام کے لئِے خدمات اور محنتوں کو جس طرح محمد بن
سلمان نے زائل کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک طرف محمد بن سلمان نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے مال و دولت کے دروازے
ٹرمپ پر کھول دیئے تو دوسری طرف ایک اسلامی ملک پر چڑھائی کردی جس کے بعد
جماعت اسلامی جیسی سعودی بادشاہوں کی خدمات کی معترف اور حامی جماعت کو بھی
سعودی عرب کی جاری پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا
پڑے۔
شاہ سلمان کے پیشرو تمام بادشاہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ یمن کےساتھ نرم
رویہ رکھا جائے اور جنگ تو کسی بھی صورت نہ کی جائے لیکن محمد بن سلمان نے
اقتدار میں آتے ہی یمن پر چڑھائی کر دی جو سعودی عرب کی تباہی کا نقطہ آغاز
ثابت ہوئی۔
یہی نہیں محمد بن سلمان نے اپنے باپ کے مخالف سمت چلتے ہوئے اندرون ملک
ثقافتی اصلاحات کے نام پر اسلام کا جنازہ نکال دیا محمد بن سلمان کے
اقدامات کی وجہ سے سعودی عرب میں گزشتہ چند مہینوں میں ماحول بڑی تیزی کے
ساتھ تبدیل ہوا۔
سنیماؤں سے لے کر جوا خانوں اور شراب خانوں کے افتتاح مذہبی شخصیات سے
کروائے گئے جس پر ملک میں موجود اسلام پسندوں میں اضطراب کی لہر دوڑ
گئی۔اسلامی تعلیمات کے محافظ و امانتدار آل الشیخ نے اس حوالے سے مزاحمت کی
بھی کوشش کی اور محمد بن سلمان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح اسلامی
تعلیمات کا جنازہ نہ نکالیں لیکن جواب میں طاقت کا استعمال کیا گیا اورآل
الشیخ سے تعلق رکھنے والے علما کی ایک بڑی تعداد کو یا تو مکمل طور پر غائب
کر دیا گیا یا پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان علما میں سے ایک بڑی تعداد
ابھی تک غائب ہے ان کے بارے میں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ زندہ بھی ہیں یا
نہیں۔
ان حالات میں بچ جانے والے اسلام پسند علما نے ظاہری طور پر تو اپنی زبان
بند رکھی ہوئی ہے لیکن یہ لوگ محمد بن سلمان کے لئے وہ لاوا ہیں جو اسلام
مخالف کسی بھی شخصیت کو جلا کر بھسم کردے گا۔
ان حالات میں اس بات کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے کہ محمد بن سلمان زندہ
ہیں یا نہیں؟ لیکن سعودی عرب میں اسلام پسندوں کے ذہن میں جنم لینے والی
نفرت سے اس بات کا انداز لگانا بہت آسان ہے کہ اگر محمد بن سلمان زندہ بھی
ہیں تو آل الشیخ کے لوگوں سے نہیں بچ سکتے اس لِئے کہ اندرون خانہ شاہی
خآندان اور آل الشیخ میں فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں دونوں خاندان ایک دوسرے کے
خون کے پیاسے نظر آتے ہیں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیئے کہ آل الشیخ شاہ
سلمان کے بعد سعودی عرب کا مقتدر ترین خاندان ہے۔یہ خاندان فسلطین کے حوالے
سے بھی شدید تحفظات رکھتا ہے اس لئے کہ یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے
کہ اسرائیل کی پشت پر سعودی عرب کھڑا ہے اور گزشتہ دنوں امریکی سفارت خانے
کی یروشلم منتقلی بھی سعودی حمایت سے ہی ممکن ہو سکی ہے حتی باخبر ذرائع کے
مطابق امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی تقریب میں سعودی سفیر نے بھی
شرکت کی تھی۔ حالات و واقعات سعودی عرب میں ایک بڑی تباہی کی نشان دہی کر
رہے ہیں جن کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر محمد بن سلمان اس وقت
زندہ بھی ہیں تو وہ اسلام پسند علما سے نہیں بچ سکیں گے جو ان کو مارنے کے
لئے ہر وقت موقع کی تلاش میں ہیں۔ |