آجر کا مزدور سے ، مالک کا خادم یا نوکر سے اور حاکم کا
اپنی رعایا سے جو رشتہ یا تعلق باہم استوار ہوتا ہے وہ محبت کا رشتہ نہیں
ہوتا البتہ اسے صلہ ء رحمی کہا جاتا ہے جو کسی آجر کی جانب سے ، کسی مالک
کی جانب سے یا پھر حاکم کی جانب سے اپنے خادموں ، مزدوروں اور رعایا کو
زندگی گزارنے کیلئے سہولیات کی فراہمی ہوتی ہے اور اس میں ان سے کچھ زیادہ
مشقت نہیں لی جاتی ، اس صلہ رحمی کے نتیجہ میں رعیت میں آنے افراد عقیدت
اور احترام کے جذبے سے منسلک ہو کر خلوص سے اپنے ذمہ کاموں کو انجام دیتے
ہیں ۔ دنیا بھر میں آپ کہیں بھی نظر دوڑا لیں ، ہر خطہ ، ہر قریہ ، ہر کوچہ
، ہر گوشہ میں اسی طرح کی صورتحال ملے گی ، صلہ ء رحمی کے عوض ہمیشہ احترام
کا جذبہ ملے گا مگر آپ یہ کہہ لیں کہ حاکم اپنے عوام سے یا مالک اپنے خدام
سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا کا بڑا جھوٹ تصور کیا جاتا ہے۔کیونکہ ایک
تخلیق کار کو اپنی تخلیق سے محبت ہوسکتی ہے، جیسے ہمارے رب کو اپنی مخلوق
سے محبت ہے کتنی ۔۔؟ کہا جاتا ہے کہ ایک ماں کو جتنی محبت اپنی اولاد سے
ہوتی ہے اس کو ستر درجہ مزید بڑھالیا جائے تو وہ اﷲ کی جانب سے اپنی اس
خوبصورت تخلیق سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔اﷲ کو اپنی مخلوق سے محبت ہے یہی
وجہ ہے کہ اس کی بہتری اور ہدایت کیلئے اس نے اپنے نیک افراد منتخب کیے جو
اعلیٰ ترین خاندانی پس منظر بی رکھتے تھے۔اﷲ کے نیک بندے اﷲ کی جانب سے
ہدایت اور نیکی کا پیغام لیکر آئے ، یہ الگ بات ہے کہ لوگ اﷲ کے پیغمبروں
کے سامنے شیطان کی پیروی کو ترجیح دینے لگے لیکن طے ہے کہ خالق کو اپنی
تخلیق سے محبت ہوتی ہے لہٰذا اس خالق ِکائنات نے ایک بار پھر اپنے پیارے
اور محبوب بندے کو اس فکر میں مبتلا کیا تاکہ وہ اس عظیم ترین خلق کو خرابی
سے بچالے۔
اﷲ نے اپنے اس پیارے نبی ﷺ کو پوری دنیا کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے اور آپ
ﷺ نے انسانوں کیلئے بہترین نظام ِ ہدایت بناکر نافذ کردیا جس کے تحت ہر
حاکم بنیادی طور پر رعایا کا محکوم ہوگا ، ان کی خدمت کرے گا اور اس کا صلہ
اسے اﷲ رب العزت کی ذات عطا کرے گی۔ حضو ر ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے اس
فکر کو اپنے لئے خدمت کیلئے منتخب کیا اور دنیا میں اقتدار کرنے کی اعلیٰ
ترین مثال قائم کی ۔ سیاست میں امانت و دیانت کو اولین ترجیح دی اور دنیا
کو سیاست کی اصل روح سے آشنا کیا۔ مذہب میں سیاست اور سیاست مذہب کے بغیر
تاثر زائل ہوا تاہم جوں ہی مسلمانوں نے مذہب بیزاری اختیار کی سیاست میں
صرف چنگیزی رہ گئی۔
ہمارے یہاں کی سیاست میں عوام اور اس کے مسائل کو ترجیح دینے کا چلن ہے
البتہ جوں اقتدار حاصل ہوتا ہے مقتدر لوگ اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے
ہوئے اپنے گھر کو بھرنے کی کرتے ہیں جبکہ عوام سے محبت کا جھوٹا اظہار بھی
جاری رہتا ہے ۔ سیاست کے اصولوں میں سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ سیاست دان
کبھی بھی صاحب ِ ثروت نہیں رہتا بلکہ اسے اپنا کاروبا ر بھی اس راہ میں صرف
کردینا پڑتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ مالی طور بہت مستحکم نہیں رہتا
مگر اس کا معاشرہ میں مقام بہت بلند ہوچکا ہوتا ہے ۔
پاکستان میں سیاست دان ہمیشہ مالی طور مستحکم ہونے کیلئے سیاست کا رخ کرتے
ہیں، انہیں عوام کا درد اس وقت تک ستاتا ہے جب تک وہ اقتدار کی منزل نہیں
پالیتے اور جوں ہی وہ صاحب ِ اقتدار ہوجاتے ہیں انہیں دیگر کئی درد لاحق
ہوجاتے ہیں جس کا درماں کرتے کرتے وہ عوام کا درد بھول جاتے ہیں ۔ وہ اپنے
اور اپنی اولاد کیلئے جو پسند کرتے ہیں وہی اقدامات عوام کیلئے کرنے کیلئے
قاصر دکھائی دیتے ہیں اور اگر ان سے اس متعلق سوال کیا جائے یا شکوہ کیا
جائے تو وسائل کا رونا رو کر بات گول کردیتے ہیں، البتہ ان کے اندر عوام کا
درد پنہاں رہتا ہے اور وہ موقع کے ملنے کا لولی پاپ عوام کو دے کر ان کا دل
بہلاتے ہیں اور اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک بار حضرت امام ابو حنیفہ کے پاس ایک معاملہ آیا کہ ایک شخص نے اپنے
دوست کو اشرفیوں بھر ا تھیلا اپنی موت قریب محسوس کرتے دیا کہ جب اس کے بچے
بڑے ہوجائیں تو جو جی میں آئے انہیں دے دے۔وہ شخص فوت ہوگیا ، بچے بڑے
ہوگئے ، بچوں نے والد کے اس تھیلے کی واپسی کا تقاضہ کیا تو اس نے خالی
تھیلا بچوں کو دے دیا۔ بچوں نے مال کا تقاضہ کیا، اس نے جواب میں کہا کہ
تمہارے والد کی نصیحت کی تھی کہ جو جی چاہے بچوں کو دے دینا ۔ امام ابو
حنیفہ نے معاملہ کی تہہ میں جاکر مسئلہ سمجھا اور اس شخص کو بلوایا اور اس
سے بچوں کے والد کی وصیت سے متعلق دریافت کیا، اس نے وہی جواب دیا۔ امام
ابوحنیفہ نے کہا کہ تمھارا کیا جی چاہتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا جی چاہتا
کہ مال میں لے لوں اور خالی تھیلا بچوں کو دے دوں ۔ امام ابوحنیفہ نے کہا
کہ مسئلہ حل ہوگیا ، جو تمھارا جی چاہتا ہے یہی تو بچوں کے والد نے کہا تھا۔
وہ شخص شرمندہ ہوا اور اس نے سارا مال بچوں دے دیا لیکن صورتحال یہ ہے کہ
ہمارے یہاں مقتدر لوگوں کو جی اپنے لئے کچھ اور جبکہ عوام کیلئے کچھ اور
چاہتا ہے حالانکہ جو اپنے لئے جی چاہتا ہے عوام کیلئے بھی اسی طرح کا احساس
ہونا ضروری ہے ۔
اگر یہ کیفیت ہمارے سیاست دانوں میں محسوس کی جانے لگے تو عوام ان سے
والہانہ محبت کرنے لگے گے اور اس کیلئے پھر سیاست دانوں کو عوام اجتماعات
میں آئی لو یو I LOVE YOU کا نعرہ نہیں لگوانا پڑے گا اور نہ ہی کسی کی
کردار کشی کرکے اپنے لئے عوام کے دلوں جگہ بنانے کی زحمت کرنے پڑے گی۔ |