خبردار۔۔۔۔چور اور کرپٹ کو پکڑنے سے جمہوریت اور قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے

اس ملک کو چلانے والا طبقہ گذشتہ ستر سال سے اپنی لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔۔اگر سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سرمایہ دار و جاگیردار، سول اور فوجی بیوروکریٹوں کے اس طبقے نے معاشرے کو تنزل و تباہی سے ہمکنار کر دیا ہے۔۔۔۔۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اس فرسودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اگر کوئی ادارہ تھوڑی دیر کے لئے جاگ جائے اور اس میں کام کرنے والا کوئی دیانتدار افسر آ جائے اور ان کا احتساب کرنے کی جرات کر بیٹھے تو یہ ’’ششدر‘‘ رہ جاتے ہیں اور ان کے لئے جمہوریت، انسانی حقوق اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ملکی خزانہ چوری کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف کیس کیا جائے ۔۔تو وہ یہ کہتے پھر تے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو گئی۔۔۔۔کسی کرپٹ صحافی کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے تو آزادی صحافت کو خطرات لاحق ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔کسی سول یا فوجی بیورو کریٹ کو کرپشن میں پکڑنے کی کوشش ہوتی ہے تو قومی سلامتی کو خطرات آ گھیرتے ہیں۔۔۔کسی وکیل یا جج کو کرپشن میں پکڑا جائے تو قانون کی بالا دستی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اگر ان بڑے مگر مچھوں میں سے کوئی پکڑا جا ئے تو وہ دوسروں کو اپنے سے بڑا’’چور‘‘قرار دیتا ہے۔۔۔اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اسے پکڑا جائے۔۔۔۔کسی کرپٹ اور جھوٹے سیاست دان کو پکڑا جائے تو وہ کہتا پھرتا ہے کہ فوجی جرنیل کو کیوں نہیں پکڑتے۔۔۔۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب قوموں کے مٹنے کے دن آتے ہیں تو زندگی کا ہر شعبہ فرسودگی کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔اس فرسودگی کی اصل وجہ حکمران طبقہ ہوتا ہے۔۔۔ملک کا سیاسی نظام جب مفاد پرست اور جھوٹی قیادت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے تو پھر زندگی کے کسی بھی شعبے کو تباہی و بربادی سے نہیں بچایا جا سکتا۔۔۔ زوال پذیر سوسائٹی میں سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ایک استحصالی طبقہ پیدا ہو جاتا ہے جوایک طرف تو معاشی لوٹ کھسوٹ کو دوام بخشنے کے لئے لئے قومی اداروں کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے اور دوسری طرف ملکی سیاست کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے۔۔تاکہ وہ اپنے ’’چوری ‘‘کے مال کو محفوظ بنا سکے۔۔ رفتہ رفتہ یہ طبقہ ایک باقاعدہ مافیا کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اپنے جڑیں زندگی کے ہر شعبے تک دراز کر دیتا ہے۔۔اس کے نتیجے میں صحافیوں کی ایک فوج، اہل قلم کی ایک فوج، اہل مذہب کی ایک فوج اور اس طرح سیاستدانوں، بیورو کریٹوں، سول و ملٹری ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن جاتی ہے۔۔اور ہمہ وقت ان کے دفاع کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح بے بسی سے اور اپنی جہالت سے معاشرے کا اکثریتی طبقہ ان کے ہاتھوں میں آہستہ آہستہ یرغمال بن جاتا ہے۔۔۔یہ’’ استحصالی مافیا‘‘ ملک کے تمام اداروں اور شعبوں میں ہمہ وقت قانونی یا غیر قانونی ہتھکنڈوں اور حیلے بہانوں سے کرپشن کو جاری وساری رکھتی ہے۔۔۔۔اس وقت وطن عزیز کی یہی حالت زار ہے۔۔۔ایک طرف سے شروع ہو جائیں تو کسی بھی ادارے یا منصوبے کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں۔۔کرپشن اور بدعنوانی موجود ہے۔۔۔۔ملک کا معاشی نظام تو استوار ہی اس مخصوص مافیا کی لوٹ کھسوٹ پر ہے۔۔۔لیکن اس سے زیادہ بدقسمتی اور تباہی یہ ہے کہ یہ سب لوٹ کھسوٹ اس پیسے کی ہو رہی ہے جو کہ بیرونی سامراجی اداروں اور بینکوں سے قرضے لئے گئے۔۔۔۔ بیرونی قرضے سے بڑے بڑے پراجیکٹ لگا کر اپنا مال بٹورنا۔۔۔بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروانا اور بیرون ملک جائدادیں بنانا یہ تو عام کلچر ہے جس کے نتیجے میں قوم کا ہر بچہ عالمی سامراجی اداروں کا مقروض ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔۔کرپشن اور بد عنوانی کا یہ زہر تمام اداروں میں یکسر سرایت کر چکا ہے۔۔صنعتی نظام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔۔۔تجارت کو زوال پذیر کر دیا گیا ہے۔۔۔وہی تجارت اور صنعت پنپتی ہے جس کا فائدہ اس ’’چور‘‘مافیا کو ہوتا ہے۔۔۔قومی اداروں کو تباہ کر کے بیچا جا رہا ہے۔۔۔بد انتظامی اور نااہلی کی وجہ سے توانائی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔۔۔گلی ،محلے اور شہر بنیادی سہولیات کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے گندگی اور غلاظت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔۔۔سوائے پوش علاقوں کے جہاں یہ مافیا اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔۔۔۔تعلیمی شعبے کو لے لیں،چانسلر ،استاد، پرو فیسر اور کلرک سے لے کر چپڑاسی تک سب کرپشن میں مصروف ہیں۔۔۔شعبہ صحت کو دیکھیں۔۔۔۔ایک سیکرٹری، وزیر، ڈائرکٹر سے لے کر انسپکٹر تک اور ڈاکٹر سے لے کر ایک نرس تک سے کسی نہ کسی طرح سے کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہیں۔۔۔خوراک کے شعبے کا جائزہ لیں۔۔۔تو ایک وزیر،سیکرٹری،ڈائرکٹر اور فوڈ انسپکٹر سب کرپشن اور بد عنوانی سے مستفید ہو رہے ہیں اور لوگوں کو جعلی اور مضر صحت اشیاء خوردو ونوش مہیا کرنے میں ہمہ وقت سرگرم ہیں۔۔۔۔چاہے یہ اشیاء خوردونوش بنانے والی فیکٹریاں ہوں یا انہیں فٹ پاتھوں پہ فروخت کرنے والے ہوں سے اس دھندے میں انسانیت سوز ظلم میں ہمہ وقت ملوث ہیں۔۔۔۔پولیس کا نظام ہو یا ٹریفک کا نظام۔۔۔صرف اپنی رشوت اور لوٹ کھسوٹ سے عبارت ہے۔۔۔۔نہ انسانیت کی خدمت کی تربیت اور ان کے تحفظ کا احساس۔۔۔ان پڑھ جاہل اور بعض اوقات مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو پولیس میں بھرتی کیا جاتا ہے۔۔۔۔اور یہ ادارے پھر اس ’’چور‘‘مافیا کے دست راست بن کر مال بھی بناتے ہیں اور ان کا تحفظ کرتے ہیں۔۔۔۔۔عدالتی نظام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔۔۔وکیلوں کے نام پہ ایک طبقہ لوٹ کھسوٹ میں تمام طبقات کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔۔۔ایک عام آدمی ہو یا خاص آدمی ان سے مال بٹورنا اور کئی کئی سال عدالتوں کے چکر کٹوانے میں انتہائی ماہر ہیں۔۔۔۔۔اپنے مخصوص مفادات کے لئے یہ ہمہ وقت متحد رہتے ہیں۔۔۔قانون کے نام پہ عام انسانوں کی درگت بنانے ، جھوٹ و سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔۔۔عام لوگ ان کے پاس اپنا کیس لے جانے سے ڈرتے ہیں۔۔۔اور انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

ایک فرسودگی نیچے سے اوپر تک پھیلا دی گئی ہے۔۔۔۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ چونکہ سیاسی نظام ہی تمام شعبہ ہائے زندگی کی تشکیل و ترقی میں کرداد ادا کرتا ہے لہذا اس ملک کے سرمایہ داروں ،جاگیرداروں نے اسے اپنے کنٹرول میں کر کے خود ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے ۔۔۔۔اس کے نتیجے میں تمام اداروں کو اس بدترین فرسودگی اور کرپشن میں ڈبو دیا ہے۔۔۔۔مہنگائی،اور بنیادی ضروریات سے محروم اکثریتی سوسائٹی اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ اس ملک کو چلانے والا طبقہ گذشتہ ستر سال سے اپنی لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔۔اگر سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سرمایہ دار و جاگیردار، سول اور فوجی بیوروکریٹوں کے اس طبقے نے معاشرے کو تنزل و تباہی سے ہمکنار کر دیا ہے۔۔۔۔۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اس فرسودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اگر کوئی ادارہ تھوڑی دیر کے لئے جاگ جائے اور اس میں کام کرنے والا کوئی دیانتدار افسر آ جائے اور ان کا احتساب کرنے کی جرات کر بیٹھے تو یہ ’’ششدر‘‘ رہ جاتے ہیں اور ان کے لئے جمہوریت، انسانی حقوق اور قومی سلامتی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ملکی خزانہ چوری کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف کیس کیا جائے ۔۔تو وہ یہ کہتے پھر تے ہیں کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو گئی۔۔۔۔کسی کرپٹ صحافی کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے تو آزادی صحافت کو خطرات لاحق ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔کسی سول یا فوجی بیورو کریٹ کو کرپشن میں پکڑنے کی کوشش ہوتی ہے تو قومی سلامتی کو خطرات آ گھیرتے ہیں۔۔۔کسی وکیل یا جج کو کرپشن میں پکڑا جائے تو قانون کی بالا دستی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اگر ان بڑے مگر مچھوں میں سے کوئی پکڑا جا ئے تو وہ دوسروں کو اپنے سے بڑا’’چور‘‘قرار دیتا ہے۔۔۔اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے اسے پکڑا جائے۔۔۔۔کسی کرپٹ اور جھوٹے سیاست دان کو پکڑا جائے تو وہ کہتا پھرتا ہے کہ فوجی جرنیل کو کیوں نہیں پکڑتے۔۔۔۔

فی زمانہ چونکہ عالمی سامراجی نظام میں جمہوریت کا ڈول زیادہ پیٹا جاتا ہے۔۔۔اور سامراجی دنیا میں جمہوریت کو انتہائی تقدس کا درجہ حاصل ہے لہذا جتنے بھی تیسری دنیا کے چور سیاست دان ہیں انہوں نے جمہوریت کی ڈھال میں اپنے آپ کو چھپایا ہوا ہے۔۔۔کبھی اگر ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی احتسابی عمل شروع ہوتا ہے وہ اپنا بیانیہ ’’جمہوریت ’’خطرے میں پڑ گئی یا۔۔جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ بنادیتے ہے۔۔۔۔۔اور اس طرح سے جمہوریت کے نام پہ پوری قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے اور ان کا استحصال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔۔۔ضروت اس امر کی ہے کہ جب تک ملک کے مرکزی سیاسی نظام اور اس کے ذیلی اداروں کو اس ’’چور اور نااہل‘‘مافیا سے مکمل طور پہ آزاد نہیں کرا یا جاتا۔۔۔۔۔اس کے بغیر فقط کسی ایک ادارے کو لعن طعن کرنا اور دوسرے ادارے کی کرپشن اور نااہلی کو چھپانے سے کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں آ سکتی۔۔۔۔عام طور پہ ہمارے ہاں فیشن بن گیا ہے کہ اگر جمہوریت کا چیمپئن بننا ہے اور انسان دوست اور ترقی پسند کا تاج پہننا ہے تو فوج کو خوب لعن طعن کرو۔۔۔۔دراصل یہ ایک طرح کی ایسی حماقت اور بے شعوری ہے جو کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔کیونکہ ایک نظام کے ذیلی ادارے کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔اس کے اندر اگر خرابیاں موجود ہیں تو وہ مرکزی نظام کی تبدیلی سے درست ہو جائیں گی۔۔۔لیکن اگر مرکزی نظام اسی مافیا کے ہاتھ میں ہے تو کسی ذیلی نظام کی درستگی صرف خام خیالی ہے۔۔۔۔ مثلاًایک مخصوص طبقہ اس وقت ایک’’ سرمایہ دار خاندان‘‘ کو جمہوریت کا سمبل قرار دے کر اس کی سر توڑ حمایت کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ اس طبقے کے نزدیک فوجی طالع آزماؤں نے ملک میں جمہوریت نہیں آنے دی۔۔۔لیکن اگر شعوری طور پہ دیکھا جائے تو ایک استحصالی سرمایہ دار خاندان جس نے اپنی لوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پہ اس ملک کے ہر ادارے میں اپنے ایجنٹ پیدا کر لئے ہیں اور جس نے اس غریب قوم کی دولت کو بے دردی سے لوٹا کی حمایت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ فوج کے تعصب میں ایک’’چور‘‘مافیا کو اس ملک میں مضبوط بنا رہے ہو۔۔۔اور قانون اور عدالتوں کی بے توقیری میں مصروف ہیں اور معاشرے کو مزید زوال کی طرف لیجانے میں اپناکردار ادا کر رہے ہیں۔

مرکزی سیاسی نظام کی تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسی سیاسی وسماجی شعور رکھنے والی تربیت یافتہ جماعت تیار ہو اور اس ملک میں اجتماعی انقلابی تبدیلی کے لئے جدو جہد کرے۔۔۔۔۔بد قسمتی سے اس وقت ملکی سیاسی افق پہ موجودسیاست ، جمہوریت اور انقلاب کے نام پہ وجود میں آنے والے گروہ فقط اسی استحصالی مافیا کے تشکیل شدہ ’’استحصالی نظام‘‘ کو مضبوط کر رہے ہیں۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136141 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More