رمضان المبارک شروع ہوتے ہی ہرطرف جنید
جمشید کاتذکرہ ہونے لگا اور ہر کوئی ان کو یاد کرنے لگا۔
میں بھی اپنا ایک چھوٹا سا واقعہ ان سے متعلق آپ حضرات کے گوش گزار
کرناچاہتی ہوں۔
آج سے چار سال پہلے اسکول میں اعلان ہوا کہ کچھ مہمان تشریف لارہے
ہیں،تھوڑی دیر بعد جنید جمشید کچھ حضرات کے ساتھ راونڈ پر تشریف لائے،نیچے
سے فسٹ فلورپھر سیکنڈ فلور پرتشریف لائے،باہر سے کلاسز کا جائزہ لیتے رہے
جب کلاس ششم کے قریب پہنچے تو اس کلاس کی طالبات بے اختیار اٹھ کر باہر ان
کے پاس آگئی اور ان سے درخواست کی "ہماری کلاس میں آجائیں" یہ سنتے ہی فورا
وہ کلاس کی طرف لپکے،انھوں نے کوئی عذر کوئی مصروفیت کا بہانہ جیسے عموما
لوگ کرتے ہیں،بچوں کی بات نظر انداز کردیتے ہیں،انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا
کلاس میں جاکر بیٹھے بچیوں نے ایک اور فرمائش کرڈالی "آپ ہمیں نعت
سنائیں"انھوں نے "مدینہ مدینہ بڑا لطف دیتا ہے نام مدینہ"اپنے مخصوص انداز
میں سناتے رہے۔
ایک وہ دن تھا اور ایک وہ دن تھا جب ان کی شہادت کی خبر نے ہر دل کو رلایا۔
وہی کلاس تھی اسی کلاس میں میری امتحان ڈیوٹی تھی ،کلاس میں میرے داخل ہوتے
کے ساتھ ہی سلام کے بعد بچے شروع ہوگئے ،میں نے ان کو خاموش کرایا اور ایک
ایک کرکے سب کو بولنے دیا یہ ون ٹوکےبچے تھے مگر جس طریقے سے وہ کل ہونے
والےجہاز حادثہ کی تفصیلات بتارہے تھے اس سے لگ رہاتھا بچوں نے پیپر کی
تیاری سے زیادہ خبرسننے اور دیکھنے میں وقت گزاراہے۔
جب بچے اپنی بات سنا چکے تو میں نے کہا بیٹا !جہاں آپ لوگ پیپر دینے بیٹھے
ہیں یہاں بیٹھ کر انھوں نے بیٹھ کرکبھی نعت سنائی تھی اس بات پر بچے بڑے
حیران ہوئے،اس کے بعد بچوں نے ان کےلئے دل دل میں سورہ الاخلاص پڑھ کر دعا
ئے مغفرت کی،یہ بچوں کی ان سے محبت کی دلیل ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہ خودآئے
تھےاور آج ان کی میت لا نےکی تیاریا ں ہورہی تھی۔ تو اسکول کی ہماری جلدی
چھٹی دیدی گئی۔
میرا بیٹا عمر جو چار سال کا ہے میرے ساتھ تھا،بضد ہوگیا
مما!مجھے جنید جمشید دکھائیں ۔
سب کہہ رہے ہیں وہ آرہےہیں۔
میں نے کہا کہ جی!وہاں آرہے ہیں میں نے قبرستان کی طرف اشارہ کیا۔
تحریر مکرمہ کلیم. |