امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع سانتا فی ہائی سکول میں
فائرنگ کے واقعہ کو کئی دن گزرچکے ہیں۔ وہی واقعہ جس میں 17 سالہ پاکستانی
طالبہ سبیکا عزیز شیخ بھی شہید ہو گئی جو ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا
گئی اور امریکی انتہا پسندی میں ہلاک ہونے والے طلباء میں شامل ہوگئی۔اس دن
کے بعد سے میڈیا کے ذریعے دنیا کو سبیکا کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا اور
ان کے اہل خانہ اور دوست احباب سے بھی تعریفیں سننے کو ملیں۔وہکئی خوبصورت
خوبیوں کی مالک تھیں، لیکن ان میں سب سے خاص خالص اور پاکیزہ انداز میں
پُرامید رہنا تھا۔مستقبل کو روشن بنانا تھا۔ امریکہ سے سیکھ کر پاکستان کی
خدمت کا جذبہ تھا۔ شمالی کیرولینا میں بیرون ملک ایکسچینج طلباء کی ایک
نشست کے دوران سبیکا نے کہا کہ وہ ہر رات ایک پُرامن دنیا میں نیند سے
جاگنے کی دعا مانگتی ہیں۔اس وقت امریکا کی عالمی ساکھ انتہائی متاثر ہے،
مسلمان امتیاز اور ناروا سلوک کے شکار ہیں، تب بھی لوگوں کو امریکا میں کچھ
اچھا ہی نظر آ رہا ہے۔کبھی امریکا محفوظ اور خاص جگہ فراہم کرتا تھا۔شاید
اب ایسا نہیں۔ آ ئے روز سکولوں یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں سر پھرے انتہا
پسند معصوم بچوں اور خواتین کو اندھا دھند گولیاں مار کر ہلاک کر رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مارچ میں مشی گن یونیورسٹی میں فائرنگ سے دو افراد مارے
گئے ۔ کئی زخمی ہوئے۔ فروری کو فلوریڈا کے سکول میں طالب علم نے اپنے ساتھی
طلباء اور اساتذہ پر فائرنگ کر دی جس سے 17افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
گزشتہ برس نومبر کو ایک سفید فام امریکی شہری نے ٹیکساس کے ایک چرچ میں
داخل ہو کر فائرنگ کی جس میں عبادت میں مشغول 26افراد ہلا ک اور اسی تعداد
مین زخمی ہوئے۔تعلیمی اداروں یا چرچوں میں دہشتگردی خود امریکی نوجوان کر
رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ نوجوان بے بس اور معذور افراد کو بھی نشانہ بنا
رہا ہے۔ 2015میں امریکی ریاست سان برناڈینو میں ایک نئے شادی شدہ جوڑے نے
معذور افراد کے مرکز میں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کی اور 14اپاہج افراد
کو ہلا ک اور 22کو مزید معذور بنا دیا۔ اسی امریکی دہشگردی اور انتہا پسندی
کا نیا نشانہ سبیکا بنیں۔جن کا تعلق کراچی سے تھا، جہاں اب پہلے جیسی
دہشتگردی نہیں ہے۔ حصولِ تعلیم کے لیے امریکا جانا سبیکا کا اپنا فیصلہ
تھا۔اس سلسلے میں واشنگٹن میں وڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار اسکالرز سے
وابستہ سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین نے سبیکا کے نام ایک مکتوب لکھا ہے
جس میں سبیکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلاشبہ، پاکستان اور اس سے
دور، جنگ کے زخموں سے متاثر، امراض سے بے حال اور تعصب کے شکار نوجوانوں کی
ایک بڑی تعداد ہے، اور اس کے ساتھ طاقتور سوشل میڈیا کے مرہون منت عالمی
سطح کے ہم عمر افراد کا درد دیکھ کر وہ صدمے کا شکار ہیں، انہیں جلد سے جلد
بڑا ہوجانا چاہیے۔مختصراً، اگر تم تنگ ہوکر بیٹھ جاتی یا غصیل ہوجاتی تو یہ
اچنبھے کی بات نہ ہوتی۔مگر تم نہ تنگ آئی نہ غصیل بنی، بلکہ پُرامیدی
تمہارے اندر گہرائی تک بسی ہوئی تھی اور تمہاری موت تک تمہارے اندر ہی بسی
رہی۔کتنے دکھ بھری اور المناک بات ہے کہ وہ ملک جسے تم پسند کیا کرتی تھی
اور جو ملک تمہیں اس قدر امیدیں باندھنے کی وجہ بنا، اس ملک نے نہ صرف
تمہیں شرمندہ کیا بلکہ تمہاری جان تک لے لی۔اب تم بھی بدترین امریکی گن
کلچر (دہشگردی اور انتہا پسندی)کے متاثریں میں سے ایک بن چکی ہو، وہ کلچر
جو اس ملک میں نہ جانے کتنی جان نگل چکا ہے، مگر ان واقعات کا سلسلہ رکتا
ہی نہیں۔مجھے ایک دوسری بات نے بھی ہلا کر رکھ دیا ہے: تمہاری موت نے کئی
امریکیوں کے ذہنوں میں پلتے ایک نظریے کو بدل دیا ہے۔تقریباً 8 برس قبل،
نیوزویک نے اپنی ایک شہہ سرخی میں پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک
قرار دیا تھا۔ آج بھی کئی امریکی، جو اکثر ڈینیل پرل کی موت اور اسامہ بن
لادن کی پاکستان میں موجودگی کے ببانگ دہل حوالہ دے کر پاکستان کو سب سے
زیادہ بالخصوص امریکیوں کے لیے خطرناک ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔مگر
پاکستان میں اب اﷲ کے فضل سے امن ہے۔ ملک ترقی کر رہا ہے۔ جمہوریت پروان
چڑھ رہی ہے۔ پاکستان کو ایک ناکام سٹیٹ بنانے کی سازش کرنے والے خود ناکام
ہو چکے ہیں۔اور ایک پاکستانی طالبہ جو ایک امریکی دہشتگرد کے ہاتھوں ماری
گئیں۔ وہ بھی امریکا کی زمین پر۔آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے جس عینک سے امریکی
پاکستان کو دیکھتے تھے اب وہی عینک پاکستان نے پہن لی ہے، اس عینک میں
امریکا کا بدصورت مہلک چہرہ صاف نظر آتا ہے۔ اب بھی کئی افراد اس چہرے کو
امریکا کا چہرہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔واضح انداز میں نظر نہ آنے
والا یہ چہرہ ایک تلخ حقیقت ہے، جو امریکا کے بہتر پلوؤں پر توجہ مرکوز
کرنے کے تمہارے عزم کو اور بھی زیادہ قابل تعریف بنادیتا ہے۔تمہارے والد نے
کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ تمہاری موت کے بعد امریکا جلد ہی گن اصلاحات
لائے گا۔افسوس کے ساتھ، ایسا مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس سے قبل
اسکول میں فائرنگ کے درجنوں واقعات ہوئے، جن میں 2012ء میں ہونے والا واقعہ
بھی شامل ہے جس میں 6 سے 7 برس کے 20 بچے مارے گئے تھے، ان واقعات کے بعد
بھی کوئی تبدیلی نہ آسکی۔نہ ہی امریکا کی تاریخ کی سب سے سرگرم مہم کوئی
تبدیلی لاسکی، جو فروری میں پارکلینڈ، فلوریڈا اسکول میں ہونے والی فائرنگ
کے واقعے میں بچ جانے والوں نے شروع کی تھی۔سانتا فی میں فائرنگ کے واقعے
کے بعد سے ہم وہی پرانا راگ سن رہے ہیں: امریکی سیاسی لیڈران ہر چیز کو ان
واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ اس کے پیچھے وڈیو گیمز ہیں، ناکافی
مذہبی تربیت، بہت زیادہ منشیات کا استعمال، حتیٰ کہ اسکول میں زیادہ
دروازوں کو بھی اس کی وجہ بتایا جارہا ہے، مگر اسکول میں ہونے والے قتلِ
عام میں استعمال ہوتے اسلحے یا گنز کا نام کوئی نہیں لیتا۔بلاشبہ امید کی
کرن شاید ہی نظر آئے مگر ہمیں امید کی کرن تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی،
شاید اس طرح اس انسان کو خراج تحسین پیش کرسکیں جو اپنے اندر بے شمار
امیدیں روشن رکھتا تھا۔تم پاکستان اور امریکا کو قریب لے آئی، لیکن کتنی
المناک بات ہے کہ یہ قربت خیر سگالی کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے غم کی وجہ
سے ہے۔ایک اور بھی امید کی کرن ہے، اور وہ یہ کہ تم نے ایک گونج دار آواز
میں یہ یاددہانی کرادی ہے کہ نوجوان ہی پاکستان کا سب سے عظیم اثاثہ ہیں۔
ایک ایسا ملک جہاں دو تہائی آبادی کی عمر 30 سے کم ہے اور جہاں آبادی کی
اوسط عمر 23 برس ہے، ان میں کئی سبیکائیں نظر آئیں گی جو نوجوان، ذہین،
پُرامید اور پاکستان سمیت دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے
پُرعزم ہوں گی۔ہم امید کرتے ہیں مستقبل میں ہمیں یہاں دوسری سبیکاؤں کے
بارے میں سننے کو ملے گا، جی نہیں ان کی المناک موت کی خبریں نہیں بلکہ
اپنی زندگیوں میں اثرانگیز کاموں کی وجہ سے۔ چھوٹی سی عمر میں سبیکا کے بڑے
بڑے خواب تھے اوروہ غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت لڑکی تھی۔مگر امریکی
دہشتگردی کا شکار ہو گئی۔پاکستان میں ملالہ دہشتگردی کا شکار بننے سے بچ
نکلیں تو نوبل انعام ملا۔ امریکہ میں سبیکا دہشتگردی کا شکار ہوگئی۔مگر
امریکی دہشتگردی کا کوئی چرچا نہ ہوا۔ |