ان دنوں نگران وزیر اعظم کے لئے موجودہ وزیر اعظم اور
قائد حزب اختلاف کے درمیان ملاقاتیں جاری ہیں اور تا حال کسی نام پر اتفاق
نہیں ہو سکا۔ اگر کسی نام پر اتفاق ہو بھی چکا ہے تو میڈیا کے سامنے ابھی
وہ نام پیش نہیں کیا گیا۔ جو نام سامنے ہیں ان میں ذکا اشرف، جلیل عباس
جیلانی، عشرت حسین، ملیحہ لودھی اور تصدق حسین جیلانی شامل ہیں۔ بدقسمتی کی
بات یہ ہے کہ اس فہرست میں ہمارا نام ہی نہیں۔ واقعی لیاقت اور قابلیت کی
فی زمانہ کوئی قدر نہیں۔یوں بھی تمام جماعتوں کے اپنے مقاصد ہیں اور ملک کے
ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں سو کسی بھی بھی نظر ہم پر نہیں پڑی حالانکہ ہماری
ناچیز رائے میں اس عہدے کا ہم سے زیادہ حق دار کوئی نہیں۔
نگران وزیرِ اعظم کی مدت دوسے تین ماہ ہوتی ہے اور اس دوران اسے انتخابات
کروانے ہوتے ہیں۔ انتخابات کے دوران یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ دھاندلی نہ
ہو اور حق دار کو اس کا حق پہنچے۔ تاہم تجربہ یہ کہتا ہے کہ نگران حکومت
کوئی بھی ہو دھاندلی ہوتی ہے اور خلائی مخلوق اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ درج
بالا شخصیات اپنے اپنے شعبوں کی یقیناً ماہر ہیں اور ان کا وہاں نام ہے مگر
انھوں نے شاید ہی کبھی نگرانی کا کوئی کام کیا ہو تو اتنی بھاری ذمہ داری
ان پر ڈالنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمارا نگرانی کا ڈیڑھ عشرے سے زائد کا
تجربہ ہے۔ آج کل کے بچے بھی خلائی مخلوق سے کم نہیں اور امتحانوں میں نقل
کے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان بچوں کو ہم اپنی رعب دار اور گرج دار
آواز سے نقل سے روکتے ہیں۔ علاوہ ازیں نقل کرنے والا کا پرچہ لے لینا ہمارے
پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ اتنا سخت استاد بھلا نگران کیسے اچھا نہ ہو گا؟
کیا اس کے آگے کسی خلائی مخلوق کا وار چل سکتا ہے۔
ہمیں فیس بک پر بہت سے گروپ اور پیج کے منتظم و نگران ہونے کا اعزاز رہا ہے۔
ان گروپوں میں کبھی بھی ہم نے کوئی قابل اعتراض حرکت نہیں ہونے دی۔ دراصل
ہمارے نگران بنتے ہی گروپ ہماری دہشت اور اصول پسندی کا بوجھ سہہ نہیں پاتے
تھے اور یوں راہی ملک عدم ہو جاتا تھا۔ انتظامی تجربے اور اہلیت کے بعد
ہمارا حق تھا کہ ہمیں نگران وزیر اعظم بنا دیا جاتا۔ نامزد امیدواروں میں
کسی کی اتنی اہلیت ہے تو سامنے لائیں۔ہمارا نام پر غور نہ کرنے کی ایک وجہ
یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ہمیں اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ انھیں
اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں دو تین ماہ ہی مل گئی خواہ عبوری مدت کے لئے ہی
تو ہم وہ وعدے جو سیاسی جماعتیں کئی کئی سالوں میں کرنے کے دعوے کر رہی ہیں
چند ہی دن میں کر لیں گے اور سب جماعتوں کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔
سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے۔ اس کی وجہ سے ملک
قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے اور معیشت کی نمو نہ ہونے کے برابر ہے۔
تمام پارٹیاں حکومت میں آنے سے پہلے کرپشن فری پاکستان کا دعویٰ کرتی ہیں
مگر وہ صرف انتخابی دعویٰ ہی ثابت ہوتا ہے۔ ہم حقیقی معنوں میں ملک کو
’’کرپشن فری پاکستان‘‘ بنائیں گے یعنی کہ کرپشن سب کے لئے فری ہو گی۔ یہ
نہیں کہ مالدار اور باوسائل تو اس گنگا میں اشنان کریں اور کمزور اور غریب
کی غربت جرم ٹھہرے۔ ہم ہر شہری کو کرپشن کے یکساں مواقع فراہم کریں گے۔ اس
سے ملک میں عدل و انصاف کا نظام بھی قائم ہو گا۔کرپشن کی اس صنعت سے کوئی
کتنا فیض پاتا ہے یہ اس کی لیاقت اور محنت پر ہے۔ حکومت کا کام تو وسائل
فراہم کرنا ہے۔ حکومت کو البتہ اس نیک کمائی میں سے دس فیصد دینا ہو گا۔جس
نے کرپشن کے جتنے گھر سکھائے اس کو اتنی ہی ترقی ملے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ
ڈپٹی وزیر اعظم ہی بن جائے۔ یہ محض معاشی سرگرمی نہیں ہو گی بلکہ اس کا ایک
فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لوگ مصروف ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کی عیب جوئی کا
وقت نہین ملے گا جس سے عوام کی آخرت بھی بہتر ہو گی۔ اچھی حکومت وہی ہوتی
ہے جو عوام کی دنیوی و دینی بھلائی کا سوچے۔
ایک اور جماعت کہتی ہے کہ اس نے لاہور کو پیرس بنا دیا ہے اور اگر دوبارہ
حکومت ملے تو کراچی اور پشاور کوبھی لندن اور نیویارک بنا دے گی۔ اس پر وہ
حکومت 5 سال اور کھربوں روپے خرچ کرے گی حالانکہ اس کا کم خرچ اور بالانشین
نسخہ ہمارے پاس ہے۔ وہ یہ کہ ہم عبوری مدت میں ہی کراچی کا نام نیویارک اور
پشاور کا نام بدل کر لندن رکھ دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکا اوربرطانیہ
والے ہم سے ناراض بھی ہو جائیں اور احتجاجاً اپنے شہروں کا نام کراچی اور
پشاور رکھ لیں مگر یہ ہمارا مسئلہ تھوڑی ہے۔
بے روزگاری ، مہنگائی ، امن و عامہ، اسکولوں کی فیسیں، ملاوٹ پی آئی اے کا
خسارہ ،قرضوں سے نجات ،امریکا کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ، سی پیک
غرض ہر مسئلے کا حل ہمارا پاس موجود ہے اور وہ ہم انھیں نوے دن میں لاگو
بھی کر دیں گے۔ تمام تفصیلات ابھی ہم ظاہر نہیں کر سکتے کہ یہ پارٹیاں کہیں
ہمارا منشور ہی نہ چرا لیں۔ بس ایک مرتبہ ہمیں مسند اقتدارپر بیٹھنے دیں
اور پھر دیکھیں کہ ملک کیسے بدلتا ہے۔
آپ کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہمارے نام کے ساتھ نگران وزیر اعظم لگا
کر اس کی ایک پوسٹ بنا کر ہر ایک کی وال اور سارے گروپس میں شیئر کرنی
چاہیے۔ اس پوسٹ کو پھر اتنا پھیلائیں کہ عنانِ حکومت ہمارے ہاتھ آ جائے۔ اس
کے علاوہ ہمارے کالم نگار دوستوں پر ہمیں حیرت ہے کہ ان کی نظر انتخاب ہم
پر نہیں پڑی حالانکہ ان کی نظر سے تو کچھ بھی اوجھل نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ
اس کالم کے بعد وہ اپنی سوچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ہمارے حق میں مہم چلائیں
گے۔ ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم احسان فراموش نہیں ہیں اور انھوں ان کی
کاوشوں کا خوب صلہ دیا جائے گا۔ جونہی نگران وزیرِ اعظم کے لئے ہمارا
انتخاب ہوا ہم سعودی عرب سے واپس رخت سفر باندیں گے اور پاکستان میں گرمی
اور لوڈشیڈنگ کی پرواہ کیے بغیر پہنچ جائیں گے کیونکہ ہم ملک کی بے لوث
خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ |