آخری عشرے سے متعلق چند امور پر انتباہ

رمضان المبار ک کا آخری عشرہ فضیلت کے لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اسی میں اعتکاف ہے اوراسی میں شب قدر ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے ۔ قرآن کا نزول بھی اسی مبارک رات میں ہوا بنایں سبب رسول کریم ﷺ اس عشرے میں طاعات پر زیادہ محنت کرتے اور اپنے اہم وعیال کو بھی اس کی دعوت دیتے ۔ ہم بھی اپنے پیارے نبی کی پیاری سنت پر عمل کرتے ہوئے آخری عشرے میں بھلائی کے کاموں پر زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور شب قدر پانے کے لئے خوب خوب اجتہاد کریں ، اس کے لئے اﷲ سے توفیق طلب کریں اور کثرت سے شب قدر کی دعا پڑھا کریں ۔
مندرجہ ذیل سطور میں آخری عشرہ سے متعلق چند ایسے امور پر اطلاع دینا مقصود ہے جن کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں یا بے دینی کو دین سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے ۔
(۱)آخری عشرہ میں تساہلی:
مشاہدے میں بات آئی ہے کہ شروع رمضان میں لوگوں میں عبادت وبھلائی کا ذوق وشوق زیادہ ہوتا ہے ، یہ شوق عشرہ گزرنے کے ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ آخری عشرہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
(۲)الوداعی جمعہ کا حکم:
جواب : آخری عشرے سے متعلق ایک بات لوگوں میں الوداعی جمعہ سے متعلق رائج ہے جو اصل میں عوام کی مشہور کردہ غلط فہمی ہے ، اس کا علماء سے اور کتاب وسنت سے تعلق نہیں مگر اب عوام کے ساتھ کچھ علماء بھی متاثر ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا، خطبہ میں یا محفل قائم کرکے اس کے گزرنے کا مرثیہ پڑھنا سراسر دین میں زیادتی اور نئی ایجاد ہے ۔کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے الفاظ سلف صالحین کے یہاں ملتے ہیں۔ ہرہفتے جمعہ کا دن آتا ہے تو پھر کسی ایک مہینے کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا بالبداہت بھی صحیح نہیں ہیاور جمعہ توہفتے کی عید ہے وہ بھی رمضان المبارک کا جمعہ اس پہ بیحدخوشی ہونی چاہئے خواہ پہلا جمعہ ہو یا آخری جمعہ۔ یاد رکھیں رمضان کے آخری عشرہ میں ہی شب قدر ہے ہمیں اعتکاف اور شب بیداری و اجتہاد کے ذریعہ اسے پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان ایام میں خاص طور سے فضول کام اور تضییع اوقات کا سبب بننے والے امور سے بچنا چاہئے ۔
اس مناسبت سے ایک پیغام امت مسلمہ کے نام دینا چاہتا ہوں کہ رمضان کا آخری جمعہ رخصت ہوتے ہی رمضان بھی ہم سے قریب رخصت ہوجائے گا ،تو الوداعی جمعہ منانے کی بجائے میں دین اور اعمال صالحہ پر اسی طرح قائم رہنے کی تلقین کرتاہوں جس طرح رمضان میں قائم تھے ۔ نیکی صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔جس طرح ایثاروقربانی ، اعمال صالحہ، طاعات وبھلائی ، صدقات وخیرا ت ، عبادت وذکرالہی اور دعوت الی اﷲ کی طرف رمضان میں مائل تھے اسی طرح رمضان بعد بھی کرتے رہیں تاکہ دین پر استقامت حاصل رہے اور اسی حال میں موت آئے ۔ ایسے لوگ اﷲ کے پسندیدہ بندے ہیں اوردین پر ہی وفات پانے سے اس کے فضل واحسان سے جنت میں داخل کئے جائیں گے ۔
(۳)معتکف کا درس دیناکیساہے ؟
جواب : اگر مسجد میں موجود لوگوں کو تعلیم کی ضرورت ہو اور معتکف (اعتکاف کرنے والا)ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہے تو انہیں درس دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں پابندی کے ساتھ اعتکاف کے اپنے قیمتی اوقات کو درس پر ہی صرف نہ کرے ، اعتکاف دراصل عبادت کے لئے فراغت کا نام ہے لہذا اس مقصد کی تکمیل میں کوشاں رہے ۔
شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ سے سوال کیا گیا کہ کیا معتکف کا کسی کو تعلیم دینا یا درس دینا صحیح ہے تو شیخ کا جواب تھا :
الأفضل للمعتکف أن یشتغل بالعبادات الخاصۃ کالذکر والصلاۃ وقراء ۃ القرآن وما أشبہ ذلک ، لکن إذا دعت الحاجۃ إلی تعلیم أحد أو التعلم فلا بأس ، لأن ہذا من ذکر اﷲ عز وجل(فتاوی الشیخ محمد صالح العثیمین 1/549)
ترجمہ: متعکف کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے مثلا ذکر،نماز،قرآن کی تلاوت اور جو اس قبیل سے ہوں لیکن اگر کسی شخص کو تعلیم دینے اور سکھلانے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بھی اﷲ کے ذکر میں سے ہے ۔
(۴)خواتین کا گھر میں اعتکاف :
اعتکاف عورت ومرد دونوں کے حق میں مسنون ہے اور دونوں کے لئے اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے مگر مسلکی علماء اختلاط اور فتنہ کے خوف سے خواتین کو گھروں میں اعتکاف کی تعلیم دیتے ہیں ،یہ سنت کی مخالفت ہے ۔ یہاں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کے لئے علاحدہ جگہ نہ ہو وہاں عورتیں اعتکاف نہ کریں اور جہاں عورتوں کے لئے جگہ مخصوص ہو وہاں اعتکاف کریں ، اس سے اختلاط اور فتنے کا خوف رفع ہوجائے گا۔
(۵)شب قدر میں وعظ ونصیحت کا حکم:
جواب : شروع رمضان سے ہی اکثرمساجد میں تراویح کے بعد دروس ومحاضرات اور تفسیرقرآن کا لمبا لمباسلسلہ چلتا رہتا ہے جو نمازیوں کے لئے باعث مشقت ہے ۔حالانکہ یہ جائزوناجائز یا بدعت کا مسئلہ نہیں ہے ،یہ بھی منجملہ رمضان کے نیک اعمال میں سے ہے لیکن تراویح کے بعد کوئی سلسلہ طوالت کا لوگوں کے لئے مزید مشقت کا سبب ہے ۔ میرے خیال سے تراویح کے بعد مختصر دروس اور مختصر تفسیر پہ ہی اکتفا کرنا چاہئے،یا لمبے دروس وتفسیر کے لئے کوئی اور مناسب وقت متعین کرنا چاہئے جس میں لوگ بلامشقت اور نشاط کے ساتھ درس وتفسیر سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس وقت دروس ومحاضرات کا سلسلہ آخری عشرے اور اس کی طاق راتوں میں بھی شروع کیا جانے لگا ہے ۔کچھ لوگ چارچار رکعت کے بعد وعظ کرتے ہیں تو کچھ لوگ تراویح کے آخرمیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آخری عشرے میں درس دینا لوگوں کے لئے مناسب ہے اور شرعا اس عمل کی کہاں تک گنجائش ہے ؟
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ دینی دروس بہرحال مفید ہیں مگر اس کے لئے مناسب وقت کا تعین ضروری ہے ، اس عمل کے قبیل سے لوگوں میں جوازوعدم جواز سے متعلق دوقسم کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ جواز والوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی خیر کے کاموں میں سے ہے اور چونکہ نبی ﷺ سے کسی خیر کی ان راتوں میں ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی رسول اﷲ ﷺ نے آخری عشرے کے لئے خیر کے کاموں کو مخصوص کیا ہے بلکہ آزادی ہے جس قسم کا بھی کارخیرکرے ۔ اس بات پر عرض یہ ہے کہ بلاشبہ درس دینا دعوت الی اﷲ اور خیرکا کام ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے مگر اس قدر اجر وثواب والا عمل ہونے کے باوجود سلف سے آخری عشرے میں یہ کام منقول نہیں ہے ۔ ہاں کوئی ان ایام کی فضیلت کے تعلق سیایک آدھ مرتبہ لوگوں کو کچھ نصیحت کرناچاہے تو مجھے اس میں کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا لیکن باقاعدہ ان راتوں میں اجلاس یا دروس کا سلسلہ قائم کرنا محل نظر ہے ۔ اگر جوازوالے ان راتوں میں پابندی سے درس کے قائل ہیں جوکہ کارخیر ہے تو پھران کی نظرمیں دسیوں علماء کوبلابلاجلسہ منعقد کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے جبکہ اس بات کے وہ بھی قائل نہیں ہوں گے تومعلوم یہ ہواکہ یہ راتیں عبادت کے لئے فارغ ہونی چاہئے ۔ آئیے ایک حدیث کی روشنی میں نبی ﷺ کا اسوہ دیکھتے ہیں کہ آخری عشرہ میں آپ ﷺ کیا کرتے تھے؟ ۔
عنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَہُ وَأَحْیَا لَیْلَہُ وَأَیْقَظَ أَہْلَہُ(صحیح البخاری:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اﷲ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو (عبادت کے لئے)کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہیں ۔
(ا) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(ب)احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(ج) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
نبی ﷺ کے اسوہ کو اپناتے ہوئے آخری عشرے میں ہمارا بھی یہی طرزعمل ہونا چاہئے تاکہ شب قدر اور اس کی فضیلت کو پاسکیں ۔
(۶) شب قدر کی مخصوص نماز:
جب آخری عشرہ شروع ہونے لگتا ہے تو مسلمانوں کے بعض طبقوں میں عموما شب قدر کی مخصوص نماز سے متعلق رسالہ تقسیم کیا جاتا ہے جس میں 21، 23، 25، 27، اور 29 کی راتوں کے لئے الگ الگ طریقے سے پڑھی جانے والی شب قدر کی نماز کا مخصوص طریقہ مع اذکار لکھا ہوتا ہے ۔ رسول کریم ? کی سنت میں شب قدر کی کوئی مخصوص نماز نہیں ہے اور جب شب قدر ہی مخصوص نہیں تو اس کی نماز کیسے مخصوص ہوسکتی ہے،اصلا یہ صوفیوں کا طریقہ ہے اس سے بچاجائے اور دوسروں کو بھی بچایا جائے ۔
(۷)آخری عشرہ کی مخصوص دعا:
ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر لوگوں نے تینوں عشروں کی مخصوص دعا ایجاد کردی ہے ۔ پہلے عشرہ میں رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین، دوسرے میں استغفر اﷲ ربی من کل ذنب واتوب الیہ اور تیسرے میں اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنا ۔
ان میں پہلے اور دوسرے عشرے کی مخصوص دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے البتہ تیسرے عشرہ کی جو دعا ہے وہ شب قدر کے لئے ہے لہذا ہم آخری عشرہ میں تمام دن پڑھ سکتے کیونکہ شب قدر اسی آخری عشرہ میں ہے ۔
(۸)آخری عشرہ میں دو مرتبہ قیام اللیل کرنے کا حکم:
جواب : عموما رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کی نماز پڑھ لی جاتی ہے اور بعض جگہوں پر آدھی رات کے بعد دوبارہ جماعت سے قیام اللیل کا اہتمام کیا جاتا ہے ،لوگ پوچھتے ہیں کہ جب تراویح آٹھ ہی رکعت ہے تو پھردوبارہ قیام کیوں کیا جاتا ہے اور اس کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں نبی ? دوسرے عشرے کی بنسبت زیادہ عبادت کرتے تھے بلکہ آخری عشر ہ تو عبادت کے لئے بیدار رہنے کا نام ہے ۔ ان ایام کی راتوں میں جس قدر ہوسکے عبادت پر اجتہاد کرنا چاہئے ،کوئی رات بھر عبادت کرے، کوئی دو تین باراٹھ اٹھ کر عبادت کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہیخواہ کوئی فجر تک پڑھے ۔ نبی ? کا فرمان ہے :
صلاۃُ اللیلِ مثنی مثنی ، فإذا خشی أحدُکم الصبحَ صلی رکعۃً واحدۃً ، توتِرُ لہ ما قد صلی.(صحیح البخاری:990 و صحیح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
رمضان میں کثرت سے مستحب اعمال انجام دینا چاہئے اور نفلی عبادتیں مستحب اعمال میں سے ہیں ، اگرکوئی امام کے ساتھ آٹھ رکعات تراویح کی نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کے لئے دوبارہ اٹھ کر قیام کرنے کی ممانعت نہیں ہے خواہ پہلا عشرہ ہو یا آخری عشرہ اور آخری عشرہ عبادت پر اجتہاد کے اعتبار سے کافی اہم ہے کیونکہ اسی میں شب قدر ہے لہذا آخری عشرے کی ساری راتوں میں پوری پوری رات جگ کر عبادت کرنا مستحب ومسنون عمل ہے ۔
(۹)عید کی اڈوانس میں مبارکبادی دینے کا حکم:
جواب : سنت سے عید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔ مبارکبادی کے الفاظ ہیں : تقبل اﷲ منا ومنک۔ کوئی عید مبارک کے الفاظ کہتا ہے تو بھی درست ہے ۔جہاں تک عید کی مبارکبادی دینا قبل از وقت تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ، عید کی مبارکبادی تو عید کے دن ،عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئیکہ اﷲ کے فضل کے سبب ہمیں عید ومسرت میسر ہوئی ۔اس سلسلے میں بعض علماء ایک دودن پہلے تہنیت پیش کرنے کے قائل ہیں مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عید سے پہلے مبارکبادی پیش کرنے کو سنت کی مخالف کہی جائے کیونکہ لوگ اس وقت ہرچیز کے لئے مبارک پیش کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کتنے دنوں پہلے سے ہی ۔ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ کم اور مبارکبادی پیش کرنے کا رواج زیادہ ہوتا نظر آرہاہے ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اﷲ سے عید سے ایک دودن پہلے مبارکبادی پیش کرنے کے متعلق سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیاکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،مبارکبادی توعید کے دن یا عید کے بعد والے دن مباح ہے لیکن عید کے دن سے پہلے مبارکبادی دینے سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ اسلاف سے کچھ ثابت ہے تو پھر لوگ عید سے پہلے کیسے تہنیت پیش کرتیہیں جس کے متعلق کچھ ثبوت نہیں ہے ۔
(۱۰)مسجدوں کی بجائے بازاروں میں چہل پہل :
شروع میں کہا گیا ہے کہ لوگوں میں آخری عشرہ کی آمد پرعبادت کے تئیں سستی پیدا ہوجاتی ہے جبکہ اسی میں سب سے زیادہ چستی پھرتی چاہئے ۔ رات تو جاگتے ہیں مگر عبادت کے لئے نہیں بات چیت،، کھل کود، سیروتفریح بطور خاص عید کی تیاری کے لئے بازار میں بکثرت سے آمد ورفت ۔اس قدر اہم راتیں اور ہم بازاروں کو رونق بخشتے ہیں یہ ہماری غفلت ، رمضان کی ناقدری اور ہرقسم کی بھلائی سے محرومی کی دلیل ہے ۔
(۱۱) فطرانے کی ادائیگی میں غلطی :
کتنے سارے مسلمان صدقۃ الفطر شروع رمضان سے ہی نکالنا شروع کردیتے ہیں ، کتنے لوگ مفتی صاحب سے فیکس فطرہ کی رقم معلوم کرکے گھرکے سارے افراد کی طرف سے رقم اکٹھا کرلیتے ہیں اور رمضان میں آنے والے سائلوں میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔ صدقۃ الفطر فیکس ڈھائی کلو اناج میں سے ادا کرنا ہے اور اس کا افضل وقت عید کا چاند نکلنے سے نماز عید تک ہے ۔ ہاں ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے تاہم کئی دن پہلے ادا کرنا جائز نہیں ہے نہ ہی اناج کو پیسہ بناکر دیا جاسکتا ہے الا یہ کہ اس کی کسی کو ضرورت ہو۔
(۱۲)خواتین کی بے عملیاں :
عورتوں میں شب قدت کی عبادت کے تئیں کافی سکوت پایا جاتا ہے، وہ خود کو گھر کے انتظامی امور کا ملکہ سمجھتی ہیں ۔ نئے کپڑوں کا انتخاب، گھروں کی زیبائش، عمدہ پکوان کی تیاری اور مصنوعی زیب وزینت کی مصروفیت میں غرق رہتی ہیں ۔ کچھ اﷲ کی بندیاں اچھی بھی ہیں مگر نوجوان نسل تو اﷲ کی پناہ ۔ حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب اجنبی مردوں سے اپنے ہاتھوں پر مہندیاں سجاتی ہیں ۔اﷲ کے لئے اپنے مقام کو پہچانو، اپنی عزت کرو، دنیاوی معاملات پر دین کو ترجیح دواور آخری عشرہ میں شب بیداری کرکے عبادت پر محنت کرو۔

اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آخری عشرہ میں سنت نبوی کی اقتداء کرنے کی توفیق دے اور اپنے فضل وکرم سے شب قدر کی توفیق دے کر اس کی ہربھلائی سے نواز دے ۔ آمین
 

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 320 Articles with 350456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.