ماہِ رمضان کو کلام الٰہی کے ساتھ بہت ہی خاص مناسبت حاصل
ہے۔ ایک مناسبت تو یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی تمام آسمانی کتابیں عموماً اسی
ماہِ مبارک میں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ
دُنیا پر تمام کا تمام اسی ماہ میں نازل ہوا اور وہاں سے حسبِ موقع تھوڑا
تھوڑا تیئس (23) سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔ اِس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے صحیفے اسی ماہ کی یکم یا تین تاریخ کو عطاء ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ
السلام کو زبور اٹھارہ (18) یابارہ(12) رمضان کو ملی۔ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو توراۃ چھ (6)رمضان المبارک کو عطاء ہوئی۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو انجیل (12) یا (13) رمضان المبارک کو ملی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے
کہ اس ماہ کو کلام الٰہی کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ اسی وجہ سے تلاوت کی کثرت
اس مہینہ میں منقول اور مشایخ کا معمول ہے۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال رمضان المبارک میں تمام قرآن مجید حضورِ
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو سناتے تھے۔ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت
جبرئیل علیہ السلام حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے قرآنِ مجید سنتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب حضرت جبرئیل علیہ
السلام آپ سے ملاقات کرتے تو آپ بہت زیادہ سخی اور فیاض ہوجاتے۔ حضرت
جبرئیل علیہ السلام آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کرتے اور
دونوں حضرات باہم قرآنِ مجید کے سننے سنانے کا عمل (دور) کرتے تو رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم بھلائی اور خیر کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی
اور فیاض ہوجاتے۔ (صحیح بخاری)آج کل رمضان المبارک وغیرہ میں قرآنِ مجید کے
دور کرنے کا جو سلسلہ چل رہا ہے علمائے کرام نے اس قسم کی احادیث کے پیش
نظر اس کو مستحب قرار دیا ہے۔
دوسر ی مناسبت یہ ہے کہ قیامت کے دن میدانِ حشر میں رب کے حضور جب روزہ حق
تعالیٰ شانہ سے روزہ دار کے لئے شفاعت کا سوال کرے گا تو اس وقت قرآنِ مجید
بھی اﷲ تعالیٰ سے روزہ دار کے لئے شفاعت کا سوال کرے گا۔ چنانچہ حضرت عبد
اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ روزہ اور قرآن شریف دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں ۔ روزہ عرض
کرتا ہے کہ یا اﷲ! میں نے اِس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھامیری شفاعت
قبول کیجئے! اور قرآن شریف کہتا ہے کہ یا اﷲ! میں نے اِس کو رات کو سونے سے
روکے رکھا میری شفاعت قبول کیجئے! پس دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔(مسند
احمد)ایک دوسری روایت میں آیا ہے حضرت سعید بن سلیم رحمۃ اﷲ علیہ حضورِ
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے
نزدیک کلام پاک سے بڑھ کر کوئی سفارش کرنے والا نہ ہوگا، نہ کوئی نبی، نہ
فرشتہ وغیرہ۔(شرح احیاء العلوم) ایک حدیث میں آیاہے حضرت جابر بن عبد اﷲ
رضی اﷲ عنہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ قرآنِ مجید
ایسا شفاعت کرنے والا ہے کہ جس کی شفاعت قبول کی گئی اور یہ ایسا جھگڑالوہے
کہ جس کا جھگڑا تسلیم کیا گیا۔بعض روایات میں آیا ہے کہ قرآنِ مجید جواں
مرد کی شکل میں آئے گااور کہے گا کہ میں ہی ہوں جس نے تجھے راتوں کو
جگایااور دن میں پیاسا رکھا۔ (فضائل قرآن)ایک روایت میں آیاہے کہ جب آدمی
مرجاتا ہے تو اس کے گھر کے لوگ اس کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوجاتے ہیں
اور اس کے سرہانے نہایت حسین و جمیل صورت میں ایک شخص ہوتا ہے، جب کفن دیا
جاتا ہے تو وہ شخص کفن کے اور سینہ کے درمیان ہوتا ہے، جب دفن کرنے کے بعد
لوگ لوٹتے ہیں اور منکر نکیر آتے ہیں تو وہ اس شخص کو علیحدہ کرنا چاہتے
ہیں کہ سوال یک سوئی میں کریں، مگر یہ کہتا ہے کہ یہ میرا ساتھی ہے، میرا
دوست ہے، میں کسی حال میں بھی اس کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، تم سوالات کے اگر
مامور ہوتو اپنا کام کرو، میں اس وقت تک اس سے جدا نہیں ہوسکتا جب تک کہ
اسے جنت میں داخل نہ کرالوں، اس کے بعد قرآنِ مجید اپنے ساتھی کی طرف متوجہ
ہوکر کہتا ہے کہ میں وہی قرآن ہوں جس کو تو کبھی بلند پڑھتا تھااور کبھی
آہستہ، تو بے فکر رہ، منکر نکیر کے سوالات کے بعد تجھے کوئی غم نہیں ہے، اس
کے بعد منکر نکیر جب اپنے سوالات سے فارغ ہوجاتے ہیں تو قرآنِ مجید ’’ملا
اعلیٰ‘‘ سے آدمی کے لئے بستر وغیرہ کا انتظام کرتا ہے جو ریشم کا ہوتا ہے
اور اس کے درمیان مشک بھرا ہوا ہوتا ہے۔(مسند بزار)
تیسری مناسبت یہ ہے کہ جس طرح روزہ رکھنے میں بھی شانِ صمدیت کی بناء پر
آدمی کو تشبہ بالحق ( یعنی حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ایک خاص قسم کی مشابہت
)حاصل ہوتی ہے، یعنی یہ کہ جس طرح حق تعالیٰ شانہ کھانے، پینے سے بالاتر
اور منزہ و مبرا ہیں اسی طرح روزہ دار آدمی بھی روزہ کی حالت میں کھانے،
پینے کو چھوڑ کر حق تعالیٰ شانہ کی ایک صفت کو کچھ دیر (صبح سے شام تک)کے
لئے اختیار کرتا ہے اور اسے روزہ سے تشبہ بالحق ( یعنی حق تعالیٰ شانہ کے
ساتھ ایک خاص قسم کی مشابہت )حاصل ہوتی ہے، اسی طرح کلام الٰہی کی تلاوت سے
بھی آدمی کو تشابہ بالحق ( یعنی حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ایک خاص قسم کی
مشابہت )نصیب ہوتی ہے۔ اِ س لئے کہ قرآنِ مجید صرف آسمانی کتاب ہی نہیں
بلکہ یہ کلام الٰہی (یعنی اﷲ تعالیٰ کا کلام) بھی ہے، جس کے ذریعہ آدمی
اپنے پروردگار سے ہم کلام ہوتا ہے اور اُس سے راز و نیاز کرتا ہے۔ چنانچہ
ایک حدیث میں آتا ہے کہ قرآنِ مجید سے برکت حاصل کیا کرو! کیوں کہ یہ اﷲ کا
کلام ہے۔ (کنز العمال)یعنی اس کی ذات سے نکلا ہے۔تو قرآنِ مجید کے کلام
الٰہی ہونے کی وجہ سے تلاوت کرنے والے کو حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ایک خاص
قسم کی مشابہت ہوجاتی ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ نے بھی اس کلام کو پڑھا ہے اور آج
بندے بھی اس کلام کو پڑھتے ہیں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے لوگ قرآنِ مجید کو اﷲ
تعالیٰ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور و تدبر کرتے تھے اور دن کو
اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ اس کے حروف اور زبر زیر تو بہت درست کرتے ہو
مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے اور اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ عام دنوں میں بھی اور رمضانُ المبارک کے مہینہ میں تو
خصوصیت کے ساتھ دن کو بھی کلام الٰہی کی تلاوت کی جائے، اس کے معانی و
مطالب میں غور و تدبر کیا جائے اور رات کو قیام اللیل میں اﷲ تعالیٰ کے
حضور کھڑے ہوکر اس پاک کلام کی تلاوت کی جائے اور اسے سننے کی سعادت حاصل
کی جائے کہ یہ کلام الٰہی ہے اور راہِ حق کا بہترین داعی ہے۔
|