یہ وولر بیراج کا متبادل منصوبہ ہے۔دریائے نیلم کو بھارت
کشن گنگا کا نام دیتا ہے۔وہ اس کا رخ موڑ کرجھیل وولر میں ڈال رہاہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تنازعہ حل کئے بغیر اس کا افتتاح کر دیا۔
جو کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی بینک پاکستان کے شواہد اور
شکایات کو ناکافی قرار دے رہا ہے۔ اس کے باوجود وزارت خارجہ کے ترجمان
ڈاکٹر محمد فیصل پر امید دکھائی دیتے ہیں۔یہ منصوبہ 2007سے جاری ہے۔جس دور
میں جنرل پرویز مشرف اور پی پی پی کی حکومت تھی۔ کئی سال بعد پاکستانی
حکومتخواب خرگوشسے بیدار ہوئی۔ اس نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت
نے سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کا موقف سنا۔ دی ہیگ(ہا لینڈ) میں
قائم عدالت کے ججوں اور ماہرین نیمقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں اس دریا
کا دورہ کیا۔ عدالت نے2013میں جزوی ایوارڈ یا فیصلہ جاری کر دیا ۔عدالت نے
کہا کہ فیصلہ اتفاق رائے سیلیاگیا۔ عدالت نے بجلی پیداوار کے لئے بھارت کو
کشن گنگا کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔ بھارت کوکشن گنگا بجلی گھر سے بہنے
والا پانی بونر نالے میں ڈالنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ بھارت کوکشن گنگا
ہایئڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر اور چالو اس طرح کرنے کا کہا گیا کہ اس سے
کشن گنگا میں کم از کم پانی کا بہاؤ ممکن ہو سکے۔ عدالت نے پانی کے بہاؤ کی
اوسط کا فیصلہ حتمی یا تفصیلی فیصلے میں دینا تھا۔ بھارت کو ڈیم تعمیر کرنے
کی اجازت مل گئی۔ ڈیم میں ڈیڈ سٹوریج لیول کا خیال رکھنے کا کہا گیا۔ جزوی
فیصلے میں بھارت پر کشن گنگا پلانٹ کی تعمیر یا چالو کرنے کے سلسلے میں
مزید کو ئی پابندی نہیں رہی۔ کشن گنگا یا نیلم دریا میں پانی کے کم ازکم
بہاؤ کے تعین کے لئے دونوں ممالک عدالت کو مزید معلومات فراہم کرنا تھیں۔
یہ معلومات پاکستان اور بھارت نے جون 2013کو عدالت کے سامنے پیش کیں۔ دونوں
ممالک نے ایک دوسرے کی معلومات پر اپنے اعتراضات دیئے۔عدالت نے
23ستمبر2011کو پاکستان کی درخواست پر کئے گئے عبوری اقدام بھی ختم کر
دیئے۔عدالتی کارروائی پر کتنا خرچہ ہوا اس کا تعین بھی عدالت اپنے حتمی
فیصلہ میں کرنا تھا۔اس فیصلے پر جن کے دستخط ہیں ان میں چیئر مین سٹیفن ایم
شیویبیل(جج)، رجسٹرار الوئی سیوس لیمزون، پروفیسر ہاورڈ ایس وھیٹر فرینگ،
سر فرینکلن برمن کے سی ایمجی کیو سی، برونو سیما(جج)، پیٹر ٹومکا(جج)،
پروفیسر لوسیس کیفلیش، پروفیسر جان پال سن شامل ہیں۔کشن گنگا بھارت کا
منصوبہ ہے۔ یہ کثیر الجہتی منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت اورحساسیت کا
اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں پر اعتماد نہ کیا۔ تمام
مزدور، انجینئرز، جیالوجسٹ، ماہرین ،سب بھارت سے لائے۔ منصوبہ مقبوضہ کشمیر
کے ضلع بانڈی پورہ میں شروع کیا گیا۔ اس کے لئے بھارتی فوج استعمال ہوئی۔
مقبوضہ کشمیر کے کئی دیہات پر جبری قبضہ کیا گیا۔ باغات کو کاٹ دیا ۔
سرنگین کھودی گئیں۔ مقامی آبادی کے لئے بانڈی پورہ کا یہ علاقہ گریز تک نو
گو ایریا بن گیا۔ دریائے کشن گنگا کا رخ موڑنا اور اس علاقے میں پانی ایک
بڑے ڈیم میں جمع کرنا بھارت کا مقصد تھا۔ لیکن بھارت نے دنیا کی ایک بڑی
جھیل وولر میں دریائے کشن گنگا اور جہلم کا پانی جمع کرنے کا بھی منصوبہ
بنایا تھا۔
دریائے نیلم کا پانی انتہائی صاف و شفاف ہے۔ کئی ندی نالے اس میں شامل ہوتے
ہیں۔ اس کی لمبائی 245کلو میٹر ہے۔ 50کلو میٹر مقبوضہ کشمیر اور 195کلو
میٹر آزاد کشمیر سے بہتا ہوا یہ دریا مظفر آباد میں مقبوضہ کشمیر سے آنے
والے دوسرے دریا جہلم سے مل جاتا ہے۔ بھارت اس دریا کا رخ موڑ کر 330میگا
واٹ اور پاکستان اس دریا اور جہلم کو ملا کر 970میگاواٹ بجلی پیدا کرنا
چاہتا ہے۔ بھارت نے کشن گنگا پروجیکٹ شروع کیا۔اس وقت پاکستان حکومت سوئی
رہی۔ پھر عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان چلا گیا۔1960کے سندھ طاس معاہدے کے
تحت عدالت کی تشکیل پائی۔پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم کے آبی وسائل و
زراعت کے لئے سپیشل سکریٹری کمال مجید اﷲ ایجنٹ بنے، بھارت نے مرکزی وزارت
آبی وسائل کے سکریٹری ڈھورو وجے سنگھ کو یہ ذمہ داری سونپی۔ پاکستان کی
جانب سے خلیل احمد (سفیر)، محمد کریم خان آغا(پراسیکوٹر جنرل نیب)، مرزا
آصف بیگ مرزا(پاکستانی کمشنر انڈس واٹرز)کو شریک ایجنٹ بنایا گیا۔ پاکستان
کے وکلاء میں پروفیسر جیمز کرافورڈ ایس سی(کیمبرج یونیورسٹی میٹریکس چیمبرز)،
پروفیسر ووگہان لووئے کیو سی(آکسفورڈ یونیورسٹی ایسکس کورٹ چیمبرز)، سموئل
ورڈز ورتھ(ایسکس کورٹ چیمبرز)، شمائلہ محمود (سینئر لیگل کنسلٹنٹ حکومت
پاکستان)شامل کئے گئے۔ پاکستان کے نمایئندے کے طور پر عامر شوکت(چارج ڈی
افیئرز پاکستانی سفارتخانہ)، فارس قاضی(ڈپٹی کمشنر انڈس واٹرز)کو عدالت میں
رکھا گیا۔ آزاد کشمیر حکومت کی نمائیندگی کے لئے موجودہ رجسٹرار آزاد کشمیر
سپریم کورٹ سردار عبدالرحیم ( اس وقت سکریٹری آبپاشی و زراعت)کو منتخب کیا
گیا۔ پاکستان کے لئے وقار زکریا(ایم ڈی ہیگلر بیلی پاکستان)، سید محمد مہر
علی شاہ(پرنسپل انجینئر نیسپاک)، ڈاکٹر گریگوری ایل مورس(جی ایل ایم کوپ)،
ڈاکٹر جیکی کنگ (ریور ایکالوجی اینڈ انوائرنمنٹ سپیشلسٹ ساؤدرن واٹرز)کو
عدالت میں ماہر ین کے طور پر رکھا گیا۔ منظر نعیم قریشی (پاور اکانومکس
ماہر ہیگلر بیلی پاکستان)، سلیم وارثی(فلو میجر منٹ ایکسپرٹ واٹر ریسورسز
اینڈ پاور ڈیوپلمنٹ اتھارٹی)ڈاکٹر جینز کرسٹین ریفسگارڈ(جیولوجیکل سروے آف
ڈنمارک اینڈ گرین لینڈ)، ہنز بیوسٹر(ہائڈررولجسٹ بیوسٹر کلارک اینڈ ایسوسی
ایٹس)، ڈاکٹر کیٹ براؤن(ریور اکالوجی اینڈ انوائر منٹ فلو سپیشلسٹ ساؤدرن
واٹرز)پاکستان کی جانب سے تکنیکی ماہرین کے طور پر پیش ہوئے۔پاکستان کی
جانب سے اتنی بڑی ٹیم تھی ۔ لیکن فیصلہ پاکستان کے حق میں نہ ہوا۔ جب کہ
عدالت سے رجوع بھی پاکستان نے کیا تھا۔ اس کیس پر کتنی رقم خرچ ہوئی۔ کوئی
نہیں جانتا۔ پاکستان نے کیس کے آغاز پر 5ہزار پاؤنڈ عدالت میں جمع کئے۔
لیکن عدالتی اخراجات، ماہرین کے دو بار مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں دریائے
نیلم اور پروجیکٹوں کے دوروں ، پاکستانی ٹیم پر کتنے اخراجات ہوئے، یہ بھی
کسی کو معلوم نہیں ہو پایا ۔ ابھی مزید اخراجات باقی ہیں۔ تگ و دو اوربھاری
اخراجات کے باوجود عدالت نے پاکستان کو ریلیف نہ دیا۔بھارت کو کام کرنے سے
نہ روکا۔پھر کم عرصہ کے لئے روک لگائی اور اسے فوری ختم کیا۔اس طرح پروجیکٹ
مکمل ہو گیا۔ اس دریا پر پاکستان نے نیلم جہلم پروجیکٹ شروع کیا۔ جو کمیشن
ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کو انصاف نہ ملا۔ یہ سستی اور کوتاہی یا
لاپرواہی ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے۔ سب سے زیادہ
تشویش یہ ہے کہ بھارت کی 30فیصد کے مقابلہ میں پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے
کی صلاحیت صرف 7فیصد ہے۔مزید یہ کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی
جاری رکھنے سے روکنے اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کے لئے فوری
اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرنا ہیں۔ اس میں آبی وسائل اور سندھ طاس
معاہدے کے ماہرین کا کردار اہم ہو گا۔ |