ذرا سوچیں! اب تو رونے کو جی کرتا ہے۔۔۔۔!

میری وقت کے غیور حکمرانوں اور آرمی چیف سے درخواست ہے کہ برا وقت آنے سے پہلے ضرب عضب کی طرح ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز بنائیں جائیں اور چھوٹے چھوٹے ڈیم کو از سر نوزیر استعمال لایا جائے ، شمالی علاقہ جات میں چھوٹی بڑی جھیلیوں، آبشاروں کو محفوظ بنا کر چھوٹے ڈیمز تعمیر کیئے جائیں۔ موٹر ویز ، بڑی بڑی شاہراہوں پر ایمرجنسی لگا کر عملی طور پر شجر کاری کی جائے اور غدار وطن لوگوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔

ایمرجنسی لگا کرڈیمز تعمیر کیے جائیں اور عملی طور پر شجرکاری کی جائے

احساس طبیعت کا ہونا بھی فی زمانہ جرم لگتا ہے۔ ایسی طبیعت انسان کو نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے۔ یہ صفت بعض اوقات انسان کو خوامخواہ رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب کسی بھی قوم کی بھاگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو ملکی اہمیت کے معاملات اور انسانیت کی قدر کو بھول جاتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کچھ نہیں تو پھر مجبور ہو کر یہ کہتا ہے کہ اب تو رونے کو جی کرتا ہے۔۔۔۔ ایسی منصوبہ بندی اور حکمرانوں کی حکمرانی پر جو اپنے ملک کی قدر نہ کر پائیں۔

شاید اس لیے لوگ اس کے اندر جلنے والی بھٹی اور ملک و قوم سے محبت کا جلتا ہوا چراغ کسی کو نظر نہیں آتا،یا پھر اسے کملا، پاگل طبیعت کہہ کر سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کا بننا، کن قربانیوں سے گزرا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ دہلی سے مسلمانوں کی ٹرین کا چلنا لاہور تک پہنچنے تک لاشوں میں تبدیل ہو جانا۔ ایک کٹی لٹی بہن کا بھارت سے پاکستان آنے والے میرکاررواں کو کہنا میں پاکستان نہیں پہنچ سکتی، زندگی کے آخری سانس گن رہی ہوں، بس بابا جی یہ میرے گنگن اور دوسرے زیوارت قائد اعظم ؒ کو دے دینا شاید یہ میرے پاکستان کے کام ا ٓجائیں اور میرا آخری سلام بھی کہہ دینا۔ اس طرح کی بے شمار زندہ حکایات ہیں جنہیں پڑھ کر نہ صرف آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے ہیں بلکہ سکتہ طاری ہو جاتا ہے اور آدمی ”ہو“کے عالم میں چلا جاتا ہے کہ وہ کیسا منظر ہو گا اور کس کیفیت سے وہ لوگ گزر رہے ہوں گے۔

پاکستان اللہ کی طرف سے ایک خاص تحفہ نصیب ہوا۔ قربانیوں کا لا متناہی سلسلہ چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ زخم بھرنے لگے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے ابھر کر سامنے والی ریاست کا اپنا قانون اور قاعدہ بنا۔ ایوب خاں دور میں دوسرے ممالک کو قرض دیتا رہا۔ پاکستان کے اس فیلڈ مارشل لاء کا استقبال امریکہ کس شان و شوکت سے کرتا ہے۔ ہمارے یہ لیڈر تا حیات کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں یہ کہہ کر ہار مان لی جاتی ہے کہ اگر کپڑے اتارنا پڑے تو یہ اس ملک کے قانونی ضابطے ہیں۔ ذرا اپنے دور اور ایوب خاں دور کا موازنہ بھی کرتے چلو کہ آخر ایسا کیا تھا کہ ایوب خاں کے استقبال کے لیے سارا امریکہ کھڑا ہو جاتا ہے اور اب موجودہ لیڈران۔۔۔۔۔

پاکستان میں حکومتی ادوار جیسے جیسے گزرتے گئے، ہم قوم بننے کی بجائے ایک بھیڑ بکریوں کے ریوڑھ کی شکل اختیار کر تے چلے گئے۔ ہمارے لیڈروں نے خود تو اپنی عزت و احترام کے بدلے میں مال و زر کو ترجیحی دی لیکن ساتھ ہی قوم کو بھی لے ڈوبے۔ قوم کی اپنی پہچان بھی فروخت کر دی۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ہمارے سیاسی لیڈر بھی درجہ بدرجہ انٹرنیشنل لیول پر اپنی عزت کو بھی کم کرتے رہے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود کہ مال و زر صرف اور صرف دنیا تک ہے، ملک عدم سدھارتے وقت کفن بھی نصیب والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے اپنا وقار کم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حتیٰ کہ وقت کا نااہل وزیر اعظم سر عام کہتا پھر رہا ہے کہ پاکستان دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ بندہ پکڑ لے اور مار مار کر نیم پاگل بنا دے اور ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے کے باوجود تمہارے منہ سے ایسے الفاظ آخر کیوں۔ جو بیک وقت وزیر اعظم بھی اور وزیر خارجہ بھی۔

پاکستان دنیا میں پانچویں نیوکلیئر پاوور بن کر ابھرتا ہے۔ ادھر اسرائیل فلسطین پر حملہ کرتا ہے بے گناہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں کو قتل کررہا ہے۔ فلسطینی ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں چھوٹا سا پتھر اٹھا کر اسرائیل کے ٹینک کی طرف یہ کہہ کر پھینکتا ہے کہ یہ اسلامی ایٹم بم ہے۔ کتنا مان ہے دوسرے اسلامی ممالک کو پاکستان کے نیوکلیئر پاوور ہونے پر۔

برطانیہ میں فلسیطنی کی میٹھائی کی دکان مسجد کے ساتھ ہوتی ہے۔ 28مئی یعنی یوم تکبیر کے اگلے روز نماز کے بعد وہ اعلان کرتا ہے۔ آج سب لوگ میری دکان سے مفت میٹھائی لے کرجانا۔ کسی نے پوچھا، فلسطین آزاد ہو گیا یا پھر اسرائیل نے اپنی ہار مان لی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نہیں۔۔۔ کہتاہے پاکستان نیوکلیئر پاوور بن گیا ہے۔ اب ہمیں کوئی دوسرا ملک ذلیل و رسوا نہیں کرے گا۔ اس کے چہرے کا کتنی رونق تھی کہ پاکستان نیوکلیئر پاوور بن گیا۔ نیوکلیئر پاوور پاکستان بناخوشی دوسرے اسلامی ممالک کو،ٹھیک ہے پہلے اسرائیل کو وہاں جگہ دی گئی پھر وہ قابض ہونے کے چکر میں اسلامی چھوٹی ریاستوں کو قبضے میں کرنے کی کوشش میں بے دریغ قتل کر رہا ہے، جس پر کوئی بھی ملک یا اقوام متحدہ خاموش تماشائی نظر آتا ہے۔

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان بہت سے دوسرے اسلامی ممالک کے لیے ایک آس اور امید ہے کہ برے وقت میں پاکستان اقتصادی، معاشی اور دفاعی مدد ضرور کرے گا۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوگا جب پاکستان کے اندر ایک سکون، اطمینان اور محب وطن لیڈروں ہونگے وگرنہ ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے سیاسی دانشور تو ایسے ہیں کہ اگر کھانے کو کچھ مل گیا تو ٹھیک ورنہ پاکستانی کی دفاعی لائن کو رنگ برنگ الزامات لگا کر کمزور کرنے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔ جس ملک کا تین بار وزیر اعظم خود کہے کہ ممبی حملہ آور پاکستانی تھے جبکہ انڈیا خود اس بات کو تسلیم کر چکا ہے یہ حملہ آور انڈین تھے۔ اسی طرح کارگل کی جنگ کا معاملہ بھی۔ ہماری دفاعی لائن کو کمزور کرنے کے لیے وقت کے وزیر اعظم نے بھارت کی زبان بولی۔

اب موجودہ صورت حالات پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، جس پر ہماری حکومتوں نے کچھ نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ یہ حکمران اس اہمیت سے نابلد ہیں اور کم پڑھے لکھیں ہیں۔ اگر ان کو انسانی زندگی، زراعت اور پانی کی اہمیت کا علم ہوتا تو یہ موٹر ویز، اورینج ٹرین اور میٹرو بنانے کو کبھی ترجیح نہ دیتے۔بلکہ ملکی، معاشی اور معاشرتی معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر علم تھا تو پھر ملک سے غداری کی ہے۔ اب نگران حکومت سے میری اپیل ہے آنے والی قوم کو رونے سے بچا لیا جائے۔ایسا نہ ہو کہ آپ کی کم علمی اور لا پرواہی تمہاری نسلوں کو بھی لے ڈوبے۔ اپنی نسلی کی ہی پرواہ کرتے ہوئے موٹر ویز، اور اہم شاہراہوں پر ایمرجنسی لگا کر ترجیحی بنیادوں پر درخت لگائیں جائیں اور ڈیمز بنائیں جائیں، جو چھوٹے چھوٹے ڈیمز ہیں ان کو بحال کرتے ہوئے زیر استعمال لایا جائے۔ جیسے ہنہ جھیل کوئٹہ، جھیل سیف الملوک، شمالی علاقہ جات میں بے شمار چھوٹی بڑی آبشاروں سے بہتہ پانی، اور سیلاب کی مد میں ضائع ہونے والے پانی کو جمع کرنے کا بندوبست کیا جائے۔دوستو ذراسوچیں ہمیں نیوکلیئر پاوور ہونے کے باوجودآج قوم ترقی کی بجائے مقروض ہوگئی۔ زرعی ملک ہوتے ہوئے ہماری حکومتیں پانی سنبھالنے کے لیے ڈیم تعمیر نہ کر سکیں۔ کاغذی شجر کاری کی بجائے عملی طور پر شجر کاری کی جاتی تو ہمیں سانس لینا آسان ہوتا، گرمی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ آخر میں دعا ہی کر سکتا ہوں کہ رب کریم ملک پاکستان کو اچھا، سچا، کھرا اور محب وطن لیڈر عطا فرما۔ جو ملک کے دشمن اور غدار ہیں ان کے شر سے محفوظ رکھ۔آمین

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173862 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More