کیا الیکشن وقت پہ ہوں گے ؟اب کیا ہوگا ؟ہم بحیثیت قوم ان
ہنگامہ خیزیوں کو اتنی سہولت سے گوارا کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بات ہی نہ
ہو۔جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ۔کاش کبھی کسی جمہوری معاشرے سے بھی ہمارے
سیاست دان منہ لگاتے تو ان کو لگ پتہ جاتا کہ جمہوریت میں روایات اور
اخلاقیات کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے ۔ہم ملکی معاملات سے فہم و فراست کو جس
سطح سے دیکھتے ہیں وہ شاید ابھی اولیں مرحلوں میں ہے ۔ہمیں اس سے آگے بڑھنا
چا ہئے ہمیں اگر اس ملک میں کسی ایک نظام کو بحیثیت نظام قبول کرنا ہے تو
اس پہ اتفاق ایک قومی اتفاق کرنا چاہیے ۔کیا ایسا پہلی بار ہو رہا ہے ۔نہیں
ایسا بار ہا ہو چکا ہے ۔ہماری سیاسی جماعتیں ہر معاملے کو اپنے ذاتی مفاد
کے دھاگوں سے باند ھ کر چلتی ہیں اس میں ملک اور عوام کا کوئی خاص درجہ
نہیں ہوتا ۔ اسوقت نگران سیٹ اپ تشکیل پا رہا ہے جو ابھی تک صوبائی سطح پر
نامکمل ھے۔الیکشن جمہوری ارتقاع شرط اول اور شفاف الیکشن جمہوریت کی روح ہے
۔جمہوریت کا پہلا قدم شفاف الیکشن کے دروازے کی طرف بڑھتا ہے ۔شفاف الیکشن
ہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ہم اب بھی اگر اس عوام کو شفاف
الیکشن دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہم سے میری مراد وہ ادارے جن کا کام
الیکشن کروانا ہے تو پھر ان کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ آئین کے آرٹیکل
224کے تحت نگران وزیر اعظم نے حلف لے لیا ہے ۔آئین کی رو سے اس سیٹ اپ نے
60روز میں جنرل الیکشن کروانے ہیں ۔اس سیٹ اپ کا قیام گو کہ چند ایک ملکوں
میں ہی رائج ہے کی بنیادی ذمہ داری کسی بھی غیر شفافیت کے عمل کو الیکشن پہ
اثر انداز ہونے سے روکنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 219الیکشن کمیشن
کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے
کا پابندہوتاہے ۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 220وفاق اور صوبوں کی تمام
ایگزیکٹیو اتھارٹیز کو الیکشن کمیشن کی الیکشن کروانے میں مدد کی تلقین
کرتا ہے ۔تما م اداروں کے آئینی اختیارات اگر الیکشن کے عمل سے پہلے ایک
مربوط حکمت عملی کے تحت استعمال ہوجائیں تو کیسے دو نمبر لوگ اسمبلیوں میں
آئیں گے ؟اگر ایف بی آر قومی نمائندے بننے والوں کے ٹیکس گوشواروں کی تحقیق
کرے اگر نیب ان کی کرپشن کے کیسز کو کسی بند اور اندھے کنویں میں نہ ڈالے
،ان سے پلی بارگین کر کے ان کو کلین چٹ نہ دے تو یہ کیسے گھس سکتے ہیں
اسمبلی میں ؟جب یہ تمام ادارے الیکشن سے قبل ایسی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں
تو پھر سپریم کورٹ کو اقامے ڈھونڈنے کے لئے جے آئی ٹیز تشکیل دینا پڑتی ہیں
۔پھر یہ ظفرحجازی اور قمر زمان ٹائپ لو گ بے نقاب ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک
بہت کچھ ہم سے کھو چکا ہوتا ہے ۔ ابھی جب معاملات درست سمت میں جانے لگے
تھے یقین ہو چلا تھا کہ اب الیکشن ہو جائیں گے تو ایک نئے انداز میں ہنگام
آن پہنچا ہے ۔مردم شماری کے نتائج الیکشن کمیشن کو اگر بر وقت موصول ہو
جاتے اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پہ اٹھنے والے اعتراضات بھی ایڈرس ہو جاتے
تو کیا آج ایسی قباحتیں جنم لیتیں ۔بلوچستان سے اسمبلی میں قرارداد آجاتی
ہے کہ بارشیں ہونگی اور لوگ حج پہ ہوں گےَ ؟کیا ہے کوئی اس کی وضاحت ؟جہاں
سماوی آفات ہوں تو وہاں سرگرمی نہیں ہونی چاہئے ؟کیا ہمارا سیاسی شعور ابھی
یہاں تک ہی پہنچ پایا ہے؟ اقوام اپنے ارتقائی عمل کو مشروط کر دیتے ہیں کیا
کہیں کوئی بھی ایسی قوم؟ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ آئین سے متصادم مصلحتیں صرف
پاکستان میں ہی ہو سکتی ہیں بے شمار تاریخی واقعات ہیں کہ قوم کسی بھی
بیرونی آفت سے لڑنے میں اپنے اندرونی معاملات کومصلحت کوشی کی نذرکر دے تو
اس قوم کا نظم و نسق رک جاتا ہے ۔ کہیں مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا
جا رہا ہے تو کہیں حلقہ بندیوں کو ۔اس وقت ملکی سیاسی منظر نامے پہ سب سے
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ہوں گے؟ اس وقت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے
اپنا آئینی کردار ادا کریں اس قوم اور ملک پہ رحم کریں۔ اس وقت تمام اداروں
کو الیکشن کمیشن سے تعاون اور تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے بر وقت
انعقاد پہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ایک قومی اتفاق رائے کرنا چاہئے اور
اگر الیکشن کا کچھ عرصے کے لئے التواء شکار ہونا بھی ہے تو سیاسی جماعتوں
کی مشترکہ مفاہمت سے ہونا چاہئے ۔ہاں حلقہ بندیوں کے کچھ مسائل ہیں مردم
شماری کے حوالے سے کسی بھی صوبے یا سیاسی جماعت کو تحفظات ہیں تو وہ اتفاق
رائے سے طے پانا ضروری ہیں ۔اگر ہماری سیاسی جماعتیں اس طرح دست و گریباں
رہیں او ر انجام الیکشن کے التواء کی صورت میں سامنے آیا تو اسکے ذمہ دار
یقینی طور پرسیاست دان ھی ھونگے دوسری طرف جتنا الیکشن کا ہونا ضروری ہے
اتنا ہی شفاف الیکشن بھی ضروری ہیں ۔ایسے حالات ہوں کہ ووٹر اپنی آزادی اور
سہولت کے ساتھ ووٹ دے سکے۔ا لیکشن سے قبل تمام سیاسی جماعتوں پہ لازم ہے کہ
سب مل کر کوئی قابل قبول حل نکالیں
|