اﷲ پاک کی قربت و رضا کے حصول کے لئے گزشتہ امتوں نے ایسی
ریاضتیں لازم کر لی تھیں، جو اﷲ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے
ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔ حضرت محمدمصطفیﷺ
نے تقرب الی اﷲ کے لئے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لئے اعلی ترین اور
آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر
مبنی ہے۔ یعنی اﷲ کو پانے کے لئے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا
میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ان طریقوں میں
سے ایک طریقہ اعتکاف ہے ۔
اعتکاف لغوی اعتبارسے ٹھہرنے کوکہتے ہیں۔جبکہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف
کامعنی ہے:مسجدمیں اور روزے کے ساتھ رہنا،جماع کوبالکل ترک کرنااوراﷲ تعالی
سے تقرب اوراجروثواب کی نیت کرنااورجب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو
شرعاًاعتکاف نہیں ہوگالیکن مسجدمیں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔
عورتوں کیلئے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھرمیں نماز کی مخصوص جگہ
کویاکسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ہرمسجدمیں
اعتکاف ہو سکتاہے،البتہ بعض علمانے اعتکاف کیلئے جامع مسجدکی شرط لگائی
ہے۔(احکام القرآن:جلد1صفحہ242)
اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی
یوں بیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے:
ترجمہ: اورہم نے حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل علیہماالسلام کوتاکیدکی کہ
میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے،اعتکاف کرنے والوں کیلئے اوررکوع کرنے والوں
کیلئے خوب صاف ستھرا رکھیں۔(سور البقرہ: آیت نمبر125)
یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت
اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اﷲ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں
اﷲ تعالی کی رضاکیلئے اعتکاف کیاجاتا تھا۔
اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیاہے اوراس کی بہت زیادہ
تاکیدفرمائی ہے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں
کہ بے شک حضورنبی کریمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے،
یہاں تک کہ آپﷺخالق حقیقی سے جاملے۔پھرآپﷺکی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی
تھیں۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
تین خندقیں
رسول اﷲﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص ﷲ تعالی کی
خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اﷲ تعالی اس کے اور جہنم کے
درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی
زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)
ہزارراتوں کی شب بیداری کاثواب
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلا خواہش شہرت
ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا
اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ
الواعظین)
تین سو شہیدوں کا ثواب
رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو شخص خالص لوجہﷲ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات
اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکر ۃالواعظین)
سبحان اﷲ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں
پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیاہوگی۔۔۔
دوحج اور دوعمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایاکہ:جس شخص نے
رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیاتو گویاکہ اس نے دوحج
اوردوعمرے ادا کئے ہوں۔(شعب الایمان)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے
معتکف(اعتکاف کرنے والے)کے بارے میں فرمایاکہ:وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور
نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جویہ تمام نیکیاں
کرتاہو۔(سنن ابن ماجہ،مشکو ۃ)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت
میں بہت سی برائیوں اورگناہوں....مثلاغیبت، چغلی، بری بات کرنے،سننے
اوردیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتاہے،ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے
کچھ نیکیاں نہیں کرسکتامثلا نمازِجنازہ کی ادائیگی،بیمارکی عیادت ومزاج
پرسی اورماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ لیکن اگرچہ وہ ان نیکیوں
کوانجام نہیں دے سکتا لیکن اﷲ تعالی اسے یہ نیکیاں کئے بغیرہی ان تمام
کااجرو ثواب عطافرمائے گا،کیونکہ معتکف اﷲ کے پیارے رسول ﷺکی سنت مبارکہ
ادا کررہاہے جودرحقیقت اﷲ تعالی کی ہی اطاعت وفرمانبرداری ہے۔
اعتکاف کی غرض وغایت،شب قدرکی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے
پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا،پھردرمیانی عشرے میں بھی ترکی خیموں میں
اعتکاف فرمایاپھرخیمہ سے سراقدس نکال کرارشادفرمایاکہ: میں نے پہلے عشرے
میں شب قدرکی تلاش میں اعتکاف کیاتھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف
کیاپھرمیرے پاس ایک فرشتہ آیااورمجھ سے کہاکہ شب قدرآخری عشرے میں ہے،پس
جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرتاتھاتو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہئے
۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم )
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت
شب ِقدرکی تلاش وجستجوہے اوردرحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کوپانے
کیلئے بہت مناسب ہے،کیونکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویاہوابھی ہوتب بھی
وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتاہے ۔نیز اعتکاف میں چونکہ عبادت وریاضت
اورذکروفکرکے علاوہ اورکوئی کام نہیں رہے گا،لہذا شب قدرکے قدردانوں کیلئے
اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺکامعمول بھی چونکہ آخری عشرے
ہی کے اعتکاف کارہاہے،اس لئے علما کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی
سنت موکدہ ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
اول.... اعتکاف ِ واجب
دوم.... اعتکاف ِ سنت
سوم.... اعتکافِ مستحب
1۔اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں
اتنے دن کااعتکاف کروں گااوراس کاوہ کام ہوگیا تویہ اعتکاف کرنا اور اس کا
پورا کرنا واجب ہے ادائیگی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس
اعتکاف کیلئے روزہ بھی شرط ہے،بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔
2۔اعتکاف سنت
اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیاجاتاہے یعنی بیسویں رمضان
کوسورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف)میں داخل ہو
جائے اورتیسویں رمضان کو سورج غروب ہو جانے کے بعدیا انتیسویں(29ویں)رمضان
کو عید الفطر کاچاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف)سے نکلے.... واضح رہے
کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے
تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگرکسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں
گے۔ اس اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے،مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی
ہیں۔
3۔اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجدمیں داخل ہو تواعتکاف کی
نیت کرلے۔ جتنی دیرمسجدمیں رہے گا،اعتکاف کاثواب پائے گا۔یہ اعتکاف تھوڑی
دیر کا بھی ہوسکتاہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے،جب مسجد سے باہر نکلے
گاتواعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔
اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت
اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا
بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت
آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔
اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔
نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالی
ترجمہ: میں نے اﷲ تعالی کی رضا کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کی۔
مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف
کی نیت کرنے کے بعد اب ضمنا ًکھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے،
لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان
کاموں کے لئے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اعتکاف کے لئے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی
شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس)پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت
باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر
اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے
مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود
ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے
باہر نہ نکلیں، کیونکہ ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد
سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسئلہ:کسی شرعی عذرکے بغیرمسجدسے باہرنکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول
وبرازکیلئے اورنمازِ جمعہ کیلئے جاناشرعی عذرہے....وضوکیلئے اور غسل جنابت
کیلئے جانابھی عذرشرعی ہے....کھانے،پینے اورسونے کیلئے مسجدسے
باہرجاناجائزنہیں ہے اوراگرکوئی مریض کی عیادت کیلئے یانمازِ جنازہ پڑھنے
کیلئے مسجدسے باہرگیاتواس کااعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف کی قضا ء
فقیہ ا لامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ(متوفی1252ھ)لکھتے ہیں کہ:
رمضان المبارک کے آخری عشرے کااعتکاف ہرچندکہ نفل(سنت موکدہ)ہے،لیکن شروع
کرنے سے لازم ہو جاتاہے۔اگرکسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردیاتوامام
ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے،جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ
اورامام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاﷲ علیہماکے نزدیک اس پرصرف اسی ایک دن کی
قضالازم ہے،
اعتکاف کی قضاصرف قصداوجان بوجھ کرہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگرکسی عذرکی وجہ
سے اعتکاف چھوڑدیامثلاعورت کوحیض یانفاس آگیا یاکسی پر جنون وبے ہوشی طویل
طاری ہوگئی ہوتواس پربھی قضالازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں
توتمام کی قضاکی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضاکرے،اوراگرکل دن فوت
ہوں توپھرکل کی قضالازم ہے۔
دعاہے کہ اﷲ تعالی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق
اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء
والمرسلین)
|