ہندوستان کے بہت سارے لوگوں نے باربار یہ سوال پوچھا ہے
کہ امسال شب قدر کیسے تلاش کریں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ (2018) کو
ہندوستان میں روزہ کی شروعات میں اختلاف واقع ہوا ہے ۔ اکثر لوگوں نے
جمعرات سے روزہ شروع کیا ہے جبکہ بعض لوگوں نے ایک دن تاخیر سے روزہ رکھنا
شروع کیا ہے ۔ اس تقدیم وتاخیر کی وجہ سے شب قدر کی تعیین کیسے ہوگی اس لئے
لوگوں میں کافی بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔جب مجھ سے بھی بہت سارے لوگوں
نے پوچھا تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اس بارے میں دلائل کی روشنی جو قوی
معلوم ہوتا ہے بیان کردیا جائے ۔ اللہ تعالی مجھے صواب تک پہنچنے کی توفیق
دے ۔
امت کا شب قدر کے متعلق سوال کرنا اور اس کی تلاش کے لئے بے چین ہونا بالکل
صحیح ہے کیونکہ یہ ایک رات ہزاروں رات پر فضیلت رکھتی ہے ، اس رات کا قیام
سابقہ گناہوں کا کفارہ ہے اور اس رات کی خیروبھلائی سے محروم ہونے والا ہر
قسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے پتہ لگاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس رات کو
پانے کے لئے کیا کرتے تھے ؟ ہمیں اس بابت رسول اللہ ﷺ کا عملی نمونہ مل
جائے تو مذکورہ سوال بھی حل ہوجائے گا چنانہ صحیح بخاری یہ روایت مل جاتی
ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ
وَأَحْيَالَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری
دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری
کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
یہ روایت صاف صاف بتلاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ شب قدر کو پانے کے لئے رمضان
المبارک کے آخری عشرے کے اول دن سے ہی کمر کس لیتے اور خوب اجتہاد کرتے حتی
کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يجتهدُ في العشرِ الأواخرِ ، ما
لا يجتهدُ في غيرِه .( صحيح مسلم:1175)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت میں )
اتنی محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
اس حدیث سے واضح طور پرمعلوم ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ کا اجتہاد دو عشروں کے
بالمقابل آخری عشرہ میں زیادہ ہوا کرتا تھا اس کی وجہ اس میں موجود شب قدر
اور اس کی بھلائی کا حصول تھا۔
اب سنت رسول نے یہ بات طے کردی کہ کسی کو شب قدر تلاش کرنی ہو توعبادت کے
لئے آخری عشرہ مکمل طور پر شب بیداری کرے ، اللہ کی توفیق سے اسے وہ رات
نصیب ہوجائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے بعد چوں چرا کی حاجت ہی نہیں رہ
جاتی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِأُسْوَةٌحَسَنَةٌ(الاحزاب:21)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بہترین
نمونہ ہیں ۔
شب قدر کے متعلق علماء کے چالیس اقوال ہیں ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ
آخری عشرہ میں ہے ، بعض نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک کہا ہے
جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ .(صحيح
البخاري:2017)
ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
بعض علماء نے ستائیس کی رات کو شب قدر کہا ہے ۔ بہر کیف اس سلسلے میں متعد
اقوال ہیں جب رسول اللہ ﷺ کی عملی سنت کو پکڑتےہیں تو سارے اقوال اس میں
جمع ہوجاتے ہیں اور اس بابت جو امسال لوگوں کا اختلاف ہے وہ بھی مٹ جاتا ہے
۔ اس لئے میرے نزدیک دلائل کی روشنی میں یہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان
والے شب قدر کے لئے مکمل آخری عشرہ میں شب بیداری کریں ، زیادہ سے زیادہ
اجربھی نصیب ہوگا اور اللہ کی رحمت سے وہ رات ہمیں نصیب ہوجائے گی ۔
بطور خاص اہل علم سے اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے ! اس مسئلہ کو اختلافی
بناکر امت میں بے چینی نہ پیدا کی جائے ، آخری عشرہ مکمل شب بیداری کا ہے
اس عمل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کریں اور خود بھی اس سنت پر عمل کریں ۔
تقریر وتحریر کے ذریعہ کافی پکار لگائی جاتی ہے مگر عملی زندگی میں بہت
سناٹا ہے ۔ اس بات کو ہمیں محسوس کرکے عملی زندگی کو آباد کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کو شب قدر اور اس کی برکات وحسنات سے نوازے اور امت کو
اختلاف وانتشار سے بچائے۔ آمین |