قائداعظم کا نریندر مودی پر بھی سیاسی وار

یوگی آدیتیہ ناتھ مارچ 2017کو بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (یو پی)کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو انھوں نے گورکھپور سے اپنے پارلیمنٹ کی نشست خالی کر دی۔ یوگی انتہا پسند ہندو پارٹی بی جے پی کے کٹر اور مسلم دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ گورکھپور بی جے پی کا گڑھ بن چکا تھا۔ یوگی یہاں سے مسلسل 5بار الیکشن جیت کر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے اس سیٹ پر یوگی کے گرو مہانت اویدیا ناتھ براجمان رہے۔جو بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے ہندو مہا سبھا اور اس سے پہلے آزاد امیدوار کے طور پر پارلیمنٹ میں داخل ہوتے رہے۔ مگر گزشتہ دنوں ضمنی الیکشن میں بی جے پی کویہاں بدترین شکست ہوئی۔ بی جے پی نے روایتی مسلم اور پاکستان دشمنی کارڈ کھیلا۔بی جے پی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے پورٹریٹ کو انتخابی ایشو کے طور پر پیش کیا۔ مگر وزیراعلیٰ کی خالی کردہ سیٹ، بی جے پی کی ریاست اور مرکز میں حکومت بھی پارٹی کو شکست سے نہ بچا سکی۔ سماج وادی پارٹی کے امیدوار نے میدان مار لیا۔ بی جے پی کو یہ حالیہ کامیابیوں کے درمیان بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد یو پی کے ہی کیرانہ پارلیمانی نشست پر راشٹریہ لوک دل کی مسلم خاتوں تبسم حسن نے بی جے پی کے امیدوار کو شکست دی۔ یہ ضمنی الیکشن تھا۔ کانگریس اور دیگرپارٹیوں نے راشٹریہ لوک دل کی حمایت کی۔ یہاں کے کسان نے جناح کی تصویر سے زیادہ گنے کی قیمتوں کو اہمیت دی۔ لوگ اپنی فصل پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ چینی ملیں ان کے بقایا جات کی ادائیگی نہیں کر رہی تھیں۔بی جے پی نے ہندو مسلم فسادات بھی کرائے۔ 70فی صد آبادی ہندو تھی ، مگر انھوں نے مسلم امیدوار کو ووٹ دیئے اور کامیاب کر دیا۔ بی جے پی کو اسمبلی حلقہ نور پور سے بھی شکست ہوئی۔ کہا گیا کہ کسان، مزدور اور غریب بی جے پی کی سیاست مسترد کر رہے ہیں۔ بہار میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔ جس سے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ 2019میں بہار میں بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا۔

بی جے پی نے مہاراشٹر میں اپنی اتحادی شیو سینا کو شکست دے کر اپنی ایک سیٹ برقرار رکھی۔ کانگریس پنجاب، کرناٹک، میگھالیہ، مہاراشٹر کے اسمبلی حلقوں میں کامیاب ہوئی۔تا ہم کانگریس اپوزیشن کا اتحاد کھڑے کئے بغیر بی جے پی کا تنہا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں اسے شکست ہونابھارت کی سیاست میں ایک نیا انداز تصور کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس وقت ملک میں نریندر مودی اور ان کے دوست امیت شاہ جو کہ بی جے پی کی صدر ہیں، کی لہر چل رہی ہے۔ یہ وہی مودی ہیں کہ جو گجرات میں مسلم کشی میں ملوث رہے۔ جس پر انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب اٹل بہاری واجپائی کے بعد کٹر ہندو انتہا پسند لال کشن ایڈوانی ان کے جانشین بن رہے تھے تونریندر مودی نے ان کا راستہ روک لیا ۔ ایڈوانی کو گمنام کر دیا۔ ایڈوانی کی گمنامی اور سیاسی زوال کی ایک بڑی وجہ ان کی جانب سے قائداعظم کی تعریف تھی۔ کہتے ہیں کہ 70سال بعد بھی قائداعظماس خطہ کی سیاست کا اہم کردار ہیں۔ ان کی وجہ سے تخت و تاج الٹ جاتے ہیں۔ 2005میں ایڈوانی جو کہ بی جے پی کے صدر تھے۔کراچی کے دورہ کے موقع پر قائداعظم کو عظیم شخص قرار دینے پر پارٹی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2009میں بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر جسونت سنگھ نے اپنی کتاب قائداعظم کو عظیم لیڈر قراردیا اور تقسیم کے لئے جواہر لال نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا،تو انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائداعظم کی تصویر اتارنے کی حمایت میں بی جے پی نے سیاست کی اور الیکشن ایشو بنایا۔ یہ تصویر 1938سے یونیورسٹی میں موجود تھی۔ مگر یہ سیاست بی جے پی کے کام نہ آئی۔ اس نے یو پی، بہار، مہاراشٹر میں ہونے والی ضمنی انتخابات میں شکستکا سامنا کیا۔ اس کی پارلیمانی سیٹیں کم ہو کر 271رہ گئی ہیں۔ اس طرح بی جے پی 543نشستوں کی لوک سبھا میں اپنی برتری کھو چکی ہے۔ اب اسے اتحادیوں کے سہارا کی ضرورت ہے۔ مودی 2019کے عام انتخابات میں دوسری بار ملک کے وزیاعظم بننا چایتے ہیں۔ مگر حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ان کے خواب پر شکست کے بادل منڈلا دیئے ہیں۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی کا فوکس خارجہ پالیسی رہا ہے۔نیو یارک، برطانیہ، سنگاپور، آسٹریلیا اور خلیج میں شو کئے، عالمی لیڈرز سے چمٹ گئے اور بس اسی میں چار سال گزار دیئے۔ وعدے کئے مگر جو پورے نہ ہوئے۔ ووٹر بددل ہو گیا ہے۔ ان کے دور میں انڈیا چمک نہ سکا۔ واجپائی کی پالیسی ترک کر دی گئی۔ واجپائی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہے تھے۔ بات چیت آگے بڑھ رہی تھی۔ مودی نے سارے عمل کا رخ واپس موڑ دیا۔ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا دی۔ کشمیر میں قتل عام تیز کر دیا۔ جنگ بندی لائن پر گولہ باری تیز کی۔ بات چیت کے دروازے بند کر دیئے۔ عوام پر جنگی جنون سوار کر دیا۔ اور الیکشن میں ووٹر نے ان کی سیاست کو نظر انداز کر دیا۔ جس کی وجہ سے بی جے پی گورکھپور اور کیرانہ جیسے ووٹر سے محروم ہو گئی۔ نریندر مودی 2014میں 31فیصد ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ اگر اپوزیشن متحد ہو گئی اور اس نے کیرانہ جیسا اتحاد شروع کر دیا تو بی جے پی کی شکست یقینی ہو گی۔ مودی کو سواش بھارت صٖفائینعرہ یا بیٹی بچاؤ مہم نہیں بچا سکتی۔ اب مودی 2022کو نیا بھارت بنانے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ مگر شاید ان کی یہ حسرت کبھی پوری نہ ہو کیوں کہ بھارتی ووٹر سمجھ گیا کہ بی جے پی نعروں اور نفرت کی سیاست کرتی ہے۔ بی جے پی نے 2014میں حکومت میں آنے کے بعد بھارت کی 29میں سے 21ریاستوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ کرناٹک کے ریاستی الیکشن میں بی جے پی کی جیت کے بعد مودی پر امید ہو سکتے ہیں تا ہم اب مدھیہ پردیش، راجھستان اور چھتیس گڑھ میں ریاستی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس کو اپنی ساکھ بحال کرنا کا یہاں موقع مل سکتا ہے۔ اگر کانگریس کی ھکمت عملی کامیاب ہو گئی تو یہ بی جے پی کے لئے 2019کے عام انتخابات میں بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 479686 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More