صراط مستقیم یعنی راہ راست کانام سیاست نہیں ، کیونکہ
'' پلٹنا جھپٹنا اورجھپٹ کرپلٹنا '' میدان سیاست کی مہارت اور بنیادی ضرورت
ہے۔شعبہ سیاست میں چارقدم اگربڑھنے کیلئے کبھی دوقدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا
ہے۔سیاست سانپ اورسیڑھی کے کھیل کی مانند ہے جولوگ یہ کھیلتے رہے ہیں انہیں
بخوبی اندازہ ہوگا۔میں عینی شاہدہوں کئی سیاستدانوں نے دوچاربار زیروسے
سٹارٹ لیااورپھرکامیابی کی سیڑھی چڑھتے چلے گئے پھرانہیں روکنا محال ہوگیا
جبکہ کچھ بلندی سے انتہائی پستی میں جاگرے اورپھرمقدرنے انہیں دوبارہ
سنبھلنے اورکوئی چال چلنے کی مہلت نہیں دی۔زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح
سیاست میں بھی سب کچھ انسان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ۔اگرسیاست میں
فیصلہ تبدیل کرنا''یوٹرن''ہے توپھرکوئی ایساسیاستدان نہیں جس نے زندگی میں
کئی بار یوٹرن نہ لیا ہو۔عمران خان نے کرکٹ کے میدانوں پرراج کیااورپھر پی
ٹی آئی کی صورت میں سیاست کیلئے اپنی مرضی ومنشاء سے اپناراستہ منتخب کیا
جبکہ نوازشریف اورجاویدہاشمی نے سیاست کیلئے تحریک استقلال کاانتخاب کیاپھر
اس مسلم لیگ میں آگئے جس کی باگ ڈورڈکٹیٹر ضیاء الحق کے ہاتھوں میں تھی،کیا
تحریک استقلال سے مسلم لیگ میں آنااورائیرمارشل (ر)اصغرخان سے ہاتھ
چھڑاکرڈکٹیٹر ضیاء الحق کادامن تھامنا یوٹرن نہیں تھا۔میاں منظوراحمدوٹونے
بغاوت کرتے ہوئے غلام حیدروائیں پرعدم اعتماد کیا اورخودوزیراعلیٰ منتخب
ہونے میں کامیاب ہوگیابعدازاں میاں نوازشریف نے اپنے کارکنوں کو جلوس کی
صورت میں 5کلب روڈبھجوایااوروہاں سے میاں منظوراحمدوٹوکوماڈل ٹاؤن مدعوکرکے
صلح کرلی ، یہ بھی تویوٹرن تھا۔میاں منظوراحمدوٹوکے دوراقتدارمیں اپوزیشن
لیڈر کامنصب میاں شہبازشریف کے پاس تھا مگروہ اس دوران طویل مدت تک بیرون
ملک مقیم رہے جبکہ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کی کمانڈ زیرک سیاستدان چودھری
پرویزالٰہی اوردبنگ انعام اﷲ خان نیازی کے پاس تھی، نوازشریف کے مرحوم والد
میاں محمدشریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے چودھری پرویزالٰہی سے وعدہ
کیاتھا مگروقت آنے پر میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے ،کیا یہ یوٹرن
نہیں تھا ۔عمران خان نے جاویدہاشمی اور نوازشریف کے کئی برسوں بعداپنے
سیاسی سفرکاآغازکیا لیکن آج تینوں کاسیاسی ''مقام'' اورسیاسی'' انجام'' ایک
دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔عدالت عظمیٰ سے تاحیات نااہلی کے نتیجہ میں
نوازشریف بندگلی میں جبکہ جاویدہاشمی اس کی پشت پر کھڑا ہے جبکہ عمران خان
کیلئے راہیں ہموارہورہی ہیں۔عمران خان تنہا نوازشریف ،آصف علی
زرداری،جاویدہاشمی ،اسفندیارولی ،مولانافضل الرحمن اورمحموداچکزئی کامقابلہ
کررہا ہے۔پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن) ،اے این پی ،ایم ایم اے اورایم کیوایم
کے درمیان اختلافات سے انکار نہیں مگر یہ پارٹیاں پی ٹی آئی کاراستہ روکنے
کے ون پوائنٹ ایجنڈے پرمتفق اورمتحد ہیں۔اس حساب سے ایک زرداری نہیں بلکہ
ایک عمران خان سب پربھاری ہے ۔
جہاں تک سیاست میں یوٹرن یعنی فیصلے کی تبدیلی کامعاملہ ہے تویہ سیاست کی
ناگزیرضرورت ہے۔زندگی میں قدم قدم پرتبدیلیاں رونماہوتی ہیں،مگر ہرتبدیلی
انسان کوراس اورمنزل خودچل کرپاس نہیں آتی ۔ہم میں سے کوئی کسی تبدیلی
کاراستہ نہیں روک سکتا۔کئی بار بادل بھی گرجتا ہے مگر برستا نہیں جبکہ
انسان اور کھیت کھلیان پیاسے رہ جاتے ہیں ۔دریابھی اپناراستہ تبدیل کرتا
رہتاہے ۔نکاح ٹوٹ جاتے ہیں،کئی برسوں کی رفاقت اوربچوں کے باوجود میاں بیوی
کے درمیان طلاق ہوجاتی ہے ۔دوافرادیاگروہوں کے درمیان تحریری معاہدے منسوخ
ہوجاتے ہیں اورطویل کاروباری پارٹنرشپ ختم ہوجاتی ہے ۔زندگی میں فیصلے
تبدیل کرناکوئی گناہ نہیں بلکہ کوئی غلط فیصلہ یامتنازعہ اقدام کرکے اس
پرڈٹ جانایعنی ڈھٹائی کامظاہرہ کرنا مجرمانہ غفلت ،جہالت اورحماقت
ہے۔بہترزندگی کیلئے توانسان کے اصول تک تبدیل ہوجاتے ہیں توپھروہاں کسی
سیاسی فیصلے کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے ۔وہ فیصلہ جوانسان اورہدف کے درمیان
مزیدفاصلہ پیداکردے وہ درست نہیں ہوسکتا ۔اگراسلامی احکامات بارے اجتہاد
اورآئین میں ترمیم ہوسکتی ہے توپھرکوئی سیاسی فیصلہ کیوں تبدیل نہیں
ہوسکتا۔عام انتخابات میں کئی بارسیاسی پارٹیوں کے نامزدامیدوارتبدیل ہوجاتے
ہیں، انتخابی مہم میں سرگرم پارٹی کے نامزد امیدوار سے اچانک ٹکٹ لے
کردوسرے امیدوار کودے دیاجاتا ہے،پھرتویہ اقدام بھی یوٹرن کے زمرے میں آئے
گا۔پی ٹی آئی کی قیادت نے پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کیلئے شریف برادران کے
معتمدخاص ناصر محمودکھوسہ کی حمایت سے دستبردارہو کرمحض اپناسیاسی
اورجمہوری حق استعمال کیاورنہ نجم سیٹھی کی تاریخ دہرائی جاسکتی تھی۔پی ٹی
آئی کے اس بروقت ،درست اوردوررس سیاسی اقدام پراسے یوٹرن کاطعنہ دینا
ناقابل فہم ہے۔حالیہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی اورپیپلزپارٹی کے درمیان
چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کے حق میں سیاسی انڈرسٹینڈنگ پربھی مسلم
لیگ (ن) کے قائدین کی طرف سے خاصی تنقید کی گئی مگر خودمسلم لیگ (ن) نے
جہاں پیپلزپارٹی کے ساتھ لندن میں میثا ق جمہوریت کیا وہاں پاکستان میں کئی
ضمنی الیکشن بھی ایک ساتھ ایک نشان پرلڑے ۔چودھری نثارعلی خاں سمیت مسلم
لیگ (ن) کے متعدد مرکزی عہدیدار سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی وفاقی
کابینہ کاحصہ تھے اوران سے اس پرویزمشرف نے حلف لیا تھاجس کویہ لوگ دن رات
ڈکٹیٹرقراردیتے رہے ہیں۔اے آرڈی میں بھی بابائے جمہوریت نوابزداہ نصراﷲ خان
کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی والے اتحادی رہے ہیں۔آصف علی زرداری
اورمیاں نوازشریف توبھائی بھائی بنے ہوئے تھے،ان کا ایک دوسرے کے محلات
اورغمی خوشی میں آناجاناتھا ۔اگرمسلم لیگ (ن) اقتدارمیں شراکت کیلئے
پیپلزپارٹی کے ساتھ باضابطہ اتحادکرے تووہ ''حلال'' ہے لیکن اگرپی ٹی آئی
اورپی پی پی کے درمیان سینیٹ الیکشن کیلئے ایک متفقہ امیدوارپرعارضی مفاہمت
ہوجائے تواس کو مسلم لیگ (ن) کے وظیفہ خور سیاسی پنڈت ''حرام''قراردے دیتے
ہیں۔
اب اپوزیشن قیادت کی طرف آتے ہیں ،عمران خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر
نہیں تھے مگران کی سیاسی پوزیشن مجموعی طورپر اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ سے بہت
بہتر تھی۔پاناما پیپرز کومنطقی انجام تک پہنچانے کاکریڈٹ بھی عمران خان
کوجاتا ہے۔قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ اورپنجاب اسمبلی میں
پاکستان تحریک انصاف کے میاں محمودالرشیددونوں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے
تسلی بخش کارکردگی کامظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے مگر دونوں نے مسلسل
پانچ سال سرکاری مراعات کابھرپورمزالیا ۔ میاں محمودالرشید کی مجرمانہ
خاموشی کے نتیجہ میں شہبازشریف نے پنجاب کوتختہ مشق بنایاہوا تھا ۔ تخت
لاہور کے'' شہنشاہ شریف'' نے جوجی میں آیا وہ دھڑلے سے کیا ،میٹروبس سمیت
اورنج ٹرین منصوبوں کی بھاری قیمت ہماری آنیوالی کئی نسلوں کوچکاناپڑے
گی۔پینے کے صاف پانی ،تعلیم اورصحت سمیت متعدد شعبہ جات کاپیسہ اورنج ٹرین
اورمیٹروبس کی تعمیر پرجھونک دیاگیا،31مئی 2018ء کادن آیاتومسلم لیگ (ن) کی
حکومت کے ساتھ'' بجلی'' بھی چلی گئی۔ 31مئی2018ء کومسلم لیگ (ن) کی حکومت
ختم ہوئی تواگلے روزیعنی یکم جون2018ء کولوڈشیڈنگ کادورانیہ کئی گنابڑھ
گیا۔ابھی تونگران حکمرانوں نے اقتدارکی باگ ڈوربھی نہیں سنبھالی
تھی۔شہبازشریف نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا ،آج رات بارہ بجے ہماری حکومت
ختم ہوجائے گی لہٰذاء اگرکل کلاں لوڈشیڈنگ ہوئی توآپ لوگ نوازشریف
اورشہبازشریف سے نہیں پوچھ سکتے ۔مگرکیوں نہیں پوچھ سکتے، جس حکومت نے
پچھلے پانچ برس انرجی بحران پرقابوپانے اورقومی ضرورت سے زیادہ بجلی
پیداکرنے کامژداسنایاہواگرانہیں لوگ نہیں پوچھیں گے توپھرقوم اورکس سے سوال
کرے گی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی آئینی مدت ختم ہوگئی مگر لوڈشیڈنگ ختم
نہیں ہوئی۔شریف برادران کے دوسرے وعدوں اوردعوؤں کی طرح انرجی بحران ختم
کرنے کادعویٰ بھی جھوٹ ثابت ہوا۔وفاق اورپنجاب میں فرینڈلی اپوزیشن کے سبب
شریف برادران کی من مانی نے بدترین بدانتظامی کوجنم دیا۔ میاں محمودالرشید
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بری طرح ایکسپوزہوگئے ،میاں محمودالرشید کی بجائے
اگرمیاں اسلم اقبال پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوتے تویقینا صورتحال
قدرے مختلف ہوتی ۔پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے اپنی جماعت کے گوہرنایاب
میاں اسلم اقبال کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کیا۔میاں اسلم اقبال
مردمیدان ہیں ،انہیں میدان لگاناآتا ہے۔میاں اسلم اقبال نے اپنی
خدادادصلاحیتوں کے بل پر مختصرمدت میں شہرلاہور کی سیاست میں اپنامنفردمقام
بنایاکیونکہ وہ ضمیرفروش نہیں سرفروش ہیں۔عمران خان نے انتھک میاں اسلم
اقبال سے اس طرح کام نہیں لیاجس طرح ان سے لیا جاسکتا تھا۔اگرنڈرمیاں اسلم
اقبال پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرہوتے تووہ مراعات کوجوتے کی نوک
پررکھتے ہوئے کرپشن کیخلاف مزاحمتی کرداراداکرتے۔ ہمارے ہاں سبھی سیاستدان
غلطیاں کرتے ہیں مگرعمران خان کے سواکوئی اپنی غلطی تسلیم اوراس
کامداوانہیں کرتا۔عمران خان نے تو عوامی دباؤپرفاروق بندیال کوپی ٹی آئی سے
نکال دیامگر مسلم لیگ (ن) میں مسلسل کئی برسوں تک فاروق بندیال کیا کررہا
تھا،اس بات کی وضاحت آناابھی باقی ہے ۔ |