یہ سربستہ راز لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور غائب افراد

اسطرح کے واقعا ت پچھلی کئی دھائیوں وطن عزیز میں تسلسل سے جاری ہیں اس کی ابتدا کراچی میں۹۲ء آپریشن کے شروع کیے جانے سے زرا پہلے شروع ہو گئی تھیں۔ ٹارگٹ کلنگ، اغوا،بوریوں میں بند لاشیں، ماورائے عدالت قتل، اور پھر ان سب پر اظہار افسوس اور غلط الزامات لگانے کا اقرار کس زہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان محرکات کے منصوبہ ساز اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ آج صوبہ بلوچستان ان تمام مصیبتوں کو جھیل رہا ہے۔ آخر کیوں ہر روز لاشوں کا ملنا، لوگوں کا اغوا، جھوٹے مقدمات اور پھر رہائی، غائب افراد کی بازیابی تو ایک طرف مزید افراد تسلسل سے غائب ہو رہے ہیں اور وہ جو ملک میں رہ کر حقوق کی بات کرتے ہیں انکا تحفظ میں ناکامی کا الزام کس پر عائد کیا جائے۔ اگر ریاست کے مخالفین چند ہیں تو باقی افراد تو اس بات کے مستحق ہیں کہ ریاست ان کے تحفظ کو ان کے تعاون سے یقینی بنائے ۔ انہیں اپنے تحفظ کے لئے امریکی سفارتکار سے رابطہ کی ضرورت باقی نہ رہے انکا اعتماد اپنی ایجنسیوں اور عدلیہ پر بحال کرنے کے اقدامات کریں۔ عدلیہ اس تاثر کو درست کرنے کے اقداما ت او ر قانون کی بالادستی لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور وطن عزیز کے بہت سے لوگوں کی طرح مجھے امید ہے کہ بہت جلد عدلیہ اپنا اعتماد خاص کر بلوچستان میں بحال کرنے میں کامیاب ہو گی۔

اگر کسی گھر کا چشم و چراغ اچانک گم ہو جائے اور وہی اس گھر کا کفیل بھی ہو تو اس گھر کے افراد کی زندگی تو ختم ہو گئی اس کا خاندان تو جیتے جی مر گیا۔ ان کی شنوائی کہاں ہو گی انکی مدد کون کرے گا کیا حکومت اس خاندان کی کفالت کا زمہ لیتی ہے اس بندے کی بازیابی کے اقدامات کر کے اس خاندان کو دلاسہ دیتی ہے۔ کراچی کے ۵ ۱، ہزار متحدہ کے حامیوں کا قتل کیا انکے خاندانوں کے زخموں کا مداوا کر سکا جو انکے سینوں پر لگا، اور اسی طری بلوچستان میں جانے کتنے افراد اس طرح غائب ہیں جن کی بازیابی کے لیے لوگ احتجاج کرنے نظر آتے ہیں، چلو پہلے تو فوجی حکومت تھی لیکن اب تو منتخب جمہوری حکومت ہے اس نے اب تک کیا اقدامات کیے جس سے بیچینی کم کرنے میں مدد ملی ہو۔ کیا ان کے زخموں کا مداوہ اس ملک کے اداروں کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں ریاست مخالف قوتیں ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کر کے ریا ست مخالف جذبات کو ہوا دے کر اپنی ہمدردیاں حاصل کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ہر بات کا الزام علیحدگی پسندوں پر عائد کر کے ریاست اپنی زمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتی اسکا کام لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنا نہایت ضروری ہے۔ لوگ روزگار چاہتے ہیں لوگ معیشت میں اپنا حصہ چاہتے ہیں ۔ انکا مقصد اپنی معیشت کو بہتر بنانا ہے اور انصاف کا حصول ہے۔

ہر روز ٹارگٹ کلنگ اور لاشوں کا ملنا عام سی بات ہے کراچی اور بلوچستان کے شہروں میں تسلسل سے جاری ہے اور اس کے زمہ داروں پر قانون ہاتھ ڈالنے سے قاصر نظر آتا ہے دوسری طرف ریا ست مخالف عناصر کا غیر بلوچی افراد کا قتل ، تدریس کے شعبے کے افراد کا قتل اپنے علاقے میں اپنی ترقی کا قتل عام ہے اگر حقوق کی بات ہے تو اس قتل سے کیا پیغام د یا جارہا ہے۔ اگر اس طرح کے قتل عام کی تحقیق کھلے عام کر دی جائے تو اصل قوتوں کا کردار بے نقاب کیا جا سکتا ہے ۔ الزام اور جوابی الزامات اس صوبے میں انتشار کو مزید گھمبیر کر رہے ہیں۔ پچھلی کئی دھایوں سے بلوچستان میں انڈین مداخلت کے شواہد تواتر سے ملتے رہے ہیں لیکن انکا سدباب کرنے میں حکمران کیوں قاصر نظر آتی ہیں اسکی تحقیق ضروری ہے اور اسی روشنی میں لائحہ عمل تیار کر کے اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔ ریاست مخالف عناصر کا نعرہ کے بلوچستان چھوڑ دو کا مطلب کیا بلوچستان سے پٹھانوں کا انخلا بھی ہے جن کی ایک غالب اکثریت بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہے انہیں اگر آپ نکال سکتے ہیں تو کوشش کر دیکھیں آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ کرنے میں دیر نہ ہو گی۔ بلوچستان اس وقت ہماری توجہ کا مستحق ہے اس وقت بیان بازی اور بڑی بڑی سرخیاں لگانے کا وقت گزر چکا عملی اقدامات کا وقت ہے حکمرانوں کی عدم توجہی سانحات کو جنم دے سکتی ہے۔ اس بلوچستان میں ملٹری آپریشن کے نتائج ہم آج اس صورت میں نہیں دیکھ رہے، ہم تاریخ سے سبق سیکھنا نہیں چاہتے۔ مشرقی پاکستان کا زخم ہمیں آج بھی خون کے آنسو رلاتا ہے ۔ اس ملک میں اقتدار کی خواہش نے دوسروں کے حقوق کی پامالی کی ہے اسکا سدباب بہت ضروری ہے۔ کسی کے وسائل پر قبضہ نفرت کو جنم دیتا ہے اس سے مخالفانہ جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک کا ہر شہری اس ریاست پر برابر کا حق رکھتا ہے۔ اسے حقوق دینا ریاست کی زمہ داری ہے۔ اسی طرح ریاستی تحفظ کے ادارے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں وہ خود کو قانون سے مبرا نہ سمجھیں وہ جوابدہ ہیں اور اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو اتنے ہی جوابدہ ہیں جتنے عام آدمی، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ملکی بہتری کے اقدامات کریں۔ بیرونی مداخلت کے دروازے بند کر دیں اصل دشمنوں کو اپنی صفوں سے باہر نکالیں کسی کو آپ سے ہمدردی نہیں ہے انہیں آپ کی معدنیات اور بیش قیمتی ذخائر سے دلچسپی ہے۔

جھوٹے مقدمات قائم کرنے والوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا وقت آچکا، اس کلچر سے قوم کو نجات دلائیں، ضابطہ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنائیں جس کا ملک متقاضی ہے۔ اسی طرح قانون کی پابندی ہر ایک شہری پر لازم ہے اور اسکا احترام ہی میں ہم سب کی بھلائی اور بقا ہے، آپ کسی بھی حیثیت میں ہوں قانون کی پابندی آپ پر لازم ہے۔

حالات آج بلوچستان میں اس نہج تک پہنچ چکے کہ اگر تیسری قوت ان حالات میں انکے حقوق اور معیشت کی بہتری کی یقین دھانی کرانے میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو پھر ہمارے ہاں بھی معاملات کو طاقت کے زریعے حل کرنے کی اچھی مثالیں نہیں ہیں ۔ اور مکتی باہنی جیسے عناصر بھی فراوانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں ان تمام کا اعادہ ہونے سے پہلے حالات کو قابو میں رکھ کر ریاستی ادارے اپنا اعتماد بحا ل کریں۔ یہ سربستہ رازلاشیں، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اورغائب افراد کا سلسلہ بند کر کے کراچی اور کوئٹہ کی رونقیں بحال کریں بلوچستان صوبے کی غالب اکثریت وفاق پاکستان پر یقین رکھتی ہے۔ انکو بد اعتمادی کا شکار ہونے سے بچائیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82072 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More