گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں کئے گئے اپنے
جلسے میں نواز شریف صاحب نے یہ سوچتے ہوئے کہ شائد یہ دور بھی وہی دور ہے
جس میں شریف برادران ملک کے سیاہ سفید کے مالک تھے اور ان کے حواریوں میں
سے کوئی شائد پی ٹی وی کا ایم ڈی بنا بیٹھا ہوگا جو کہ کانٹ چھانٹ کر جلسے
کی کوریج کر کے قوم کو پہنچا دے گا ایسی ایسی باتیں کر گئے جو میڈیا کے
زریعے چہار اطراف پھیل گئیں مزکورہ جلسے میں جوش خطابت میں نواز شریف صاحب
حقائق کے منافی وہ باتیں بھی کہہ گئے جو ان کے تقریر لکھنے والے نے نامعلوم
کس مستی میں لکھ کر ان کے سامنے پرچہ پر لکھ ماری اور نواز شریف صاحب وہ
کہہ بھی گئے۔
ن لیگ کی بڑی خوش نصیبیوں میں سے ایک خوش نصیبی یہ ہے کہ ن لیگ ملک کے سب
سے بڑے صوبے یعنی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے اور پرانے وقتوں میں ن لیگ ملک
میں انتخابات کے بعد دو تہائی اکثریت رکھنے والی واحد جماعت ثابت ہوئی تھی
جس کے امیدواران ملک بھر سے منتخب ہونے میں کامیاب رہے تھے مگر وائے رے
قسمت کہ جوں جوں نواز شریف صاحب مائک تھامے کاغذ سامنے رکھے اور بلٹ پروف
شیلڈ کے پیچھے سے اپنے حامیوں میں خطاب کرتے چلے جاتے ہیں توں توں ان کی
بلکہ ان کی جماعت کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ گزرے وقتوں میں ملک بھر سے
منتخب ہونے والی جماعت فی الوقت ملک کے دو صوبوں سے ووٹ حاصل کرسکتی ہے اور
باقی دو صوبوں سے اپنے امیدواران انتخابات میں کھڑے کرنے کے باوجود کوئی
سیٹ حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
ن لیگ کے لیڈر نواز شریف نے ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں اپنی بظاہر بڑی
سیاسی پارٹی کی کوئی سیاسی سرگرمی نا محسوس کرتے ہوئے سیاسی کشمکش میں اپنا
کردار ادا کرنے کا سوچا اور بجائے کوئی قومی مسئلے اٹھاتے ہوئے انہوں نے سب
سے آسان یہ محسوس کیا کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم
پر کچھ نکتہ چینی کی جائے موصوف نے سوچا کہ ایم کیو ایم چونکہ اپنی اتحادی
جماعت پیپلز پارٹی سے اختلافات کا شکار ہے چنانچہ غفلت میں وہ ان کے جوش
خطابت کو نظر انداز کردے گی مگر وائے رے قسمت کہ ایم کیو ایم نے پیپلز
پارٹی کی اعلٰی قیادت کو دیے گئے الٹی میٹم کے باعث اپنے دونوں وفاقی وزرا
سے استعفیٰ دلوا دیے۔
مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف مظفر آباد میں مسلم لیگ ن کی تنظیمی
باڈی کا اعلان کرنے گئے تھے اور آزاد کشمیر میں اپنی کم ہوتی مقبولیت کا
اندازہ لگاتے ہوئے اور آزاد کشمیر میں بھی ایم کیو ایم کی بڑھتی ہوئی
مقبولیت نے ان کے اوسان خطا کردیے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ گویا آزاد کشمیر
سے بھی ان کے امیدواران کی اسی طرح شکست ہوگی جس طرح ملک کے دو صوبوں ہوئی
تھی اور جہاں ن لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا تھا۔ ایم کیو ایم جس
طرح واشگاف انداز سے گاہے بہ گاہے وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف عوامی
رائے عامہ کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہے اس سے اور پنجاب بھر میں نوجوان
اور متوسط طبقے میں متحدہ قومی موومنٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ
نواز شریف بالاخر ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف زہر اگلنے
لگے۔
ن لیگ کے سربراہ نواز شریف صاحب وہ وقت بھول گئے جب ١٩٩٧ (انیس سو ستانوے
کو) نواز شریف صاحب اور ان کی پارٹی نے ١٩٩٢ کے آپریشن کو غلط قرار دیتے
ہوئے ایم کیو ایم سے معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ آئندہ ایسا نہ ہوگا۔
اور لوگوں کو یاد ہے کہ کس کس طرح فوج کے اور آئی بی اور آئی ایس آئی کے
سربراہان اور اعلیٰ ترین عہدے داران ٹی وی چینلز پر آکر اس بات کا اعتراف
کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم کے خلاف جناح پور اور دوسرے الزامات بے بنیاد تھے
اور ایم کیو ایم کی طاقت کو ختم کرنے کی غرض سے ایسے الزامات لگائے گئے۔
ایم کیو ایم کو ١٢ مئی اور دوسرے واقعات کا ذمہ دار ٹہرانے والے نواز شریف
صاحب وہ وقت بھول جاتے ہیں جب انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت پر
حملہ کیا تھا جس کے ثبوت وہ آج تک مٹانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
نواز شریف صاحب کی جنرل جیلانی کے ہاتھوں تربیت کا اعتراف کرنے میں نامعلوم
ن لیگ کے لیڈران اس قدر چراغ پا کیونکر ہوجاتے ہیں نواز شریف صاحب کو چاہیے
کہ اپنی پارٹی کے لیڈران کو سمجھائیں کہ ہاں بھئی جنرل جیلانی میرے استاد
اعلٰی تھے۔ کون نہیں جانتا کہ نواز شریف صاحب کے والد محترم نے ملک کے
معروف اداکار رنگیلا صاحب سے نواز شریف صاحب کو ڈرامہ سکھانے کی دلانے کی
کوشش کی مگر رنگیلا صاحب نے ہاتھ جوڑ کر نواز شریف صاحب کو کچھ بھی سکھانے
میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا چنانچہ میاں صاحب نے جنرل جیلانی کے پاس
نواز شریف صاحب کو بڑی سفارشیں لگوا کر کچھ سکھوانے کے لیے بٹھا ہی دیا
چنانچہ جنرل جیلانی سے کچھ سیکھنے کے بعد نواز شریف صاحب جنرل ضیا تک رسائی
حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے جسکے بعد نواز شریف صاحب اسحاق خان، فاروق
خان لغاری اور پھر مشرف سے ڈیلیں کرنے میں لگے رہے۔
نواز شریف صاحب کو جیلانی صاحب سیاست میں لے آئے اور جیسا کہ عرض کیا کہ
خوب روئی کے سبب وہ ضیاالحق کے منظور نظر ٹھرے اور ان کے بعد ان کے سیاسی
جانشین بھی بنے۔ ضیا الحق کے منعقد کردہ غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں
وزیراعلیٰ کی حیثیت میں اسمبلی تک پہنچے۔ نواز شریف صاحب کی خوشنصیبی کہیے
یا بدنصیبی کہ جونیجو صاحب کی حکومت کو ضیا الحق نے برخاست کیا ہی تھا کہ
ضیا الحق کی المناک حادثاتی موت واقع ہوگئی چنانچہ نواز شریف صاحب کے لیے
میدان بالکل صاف ہوگیا (ہیر پلانٹیشن سے پہلے جیسا ) اور ہمیشہ کی طرح پی
پی پی مخالف اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ موزوں امیدوار نواز شریف ہی نظر آئے
کہ جن کی کلیں ہلانا اسٹیبلشمنٹ کے لیے ہمیشہ سے آسان رہا۔ کیونکہ نواز
شریف صاحب کی سمجھ میں ہر مسئلے کے بگڑنے کا اصل سبب تلاش کرنا ہمیشہ ہی
دقت آمیز کام رہتا تھا اس کے مقابلے میں وہ اپنی کابینہ میں سے دو دو کرکٹ
کی ٹیمیں بنا کر کرکٹ پر ہی ہاتھ صاف کرنے میں مصروف رہتے اور امپائر ظاہر
ہے کیا کر سکتا تھا جب ہر بلے باز کی جگہ دوبارہ بیٹنگ کرنے میاں صاحب ہی
آجاتے ہوں۔
ہمیشہ کی طرح اقتدار کی مستی اور خود پسندانہ مقبولیت کے نشے میں چور میاں
صاحبان اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلنے کے باوجود یہ سمجھ کر کہ وہ اسٹیبلشمنٹ
پر ہاتھ صاف کرجائیں مگر ١٩٩٩ کے دل ہلا دینے والے واقعے نے ان پر ثابت
کردیا کہ دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود وہ اس قدر طاقتوار نہیں ۔ |