یہ ایک خنک رو شام تھی جب آفوہس کلب گلبرگ لاہور
سےپی ایف سی کے ممبران کا قافلہ وادی کیلاش کی سیا حت کو روانہ ہوا۔ روانگی
سے قبل کلب کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق کی جانب سے ائر فورس میس کےسوئمنگ
پول کی رومانوی فضا میں پر تکلف ڈنر دیا گیا جس نے ہمارےاس اعتماد کو تقو
یت بخشی کہ سفر یقیناً خوبصورت ہوگا۔
بعد ازاں سب ممبران کوپنجاب گورنمنٹ اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کی جانب
سےیادگاری شیلڈز سے نوازا گیا۔ اس تقریب کو صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری،
چوہدری کبیر خان ممبر وزیر اعظم انسپکشن کمیٹی،اختر بادشاہ وزیر اعلی پنجاب
اور آپشنز گروپ آف کمپینیز کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق نے رونق بخشی۔اب
روانگی کا وقت تھا۔ سیاحو ں نےلاہور کے دوستوں کو الوداع کہا اور خوشی سے
سرشار حسین وادیوں کے لئے اللہ کانام لے کر عازم سفر ہوئے۔
بہت سے لوگ ایسے تھے جن سے اس سفر میں پہلی دفعہ ملاقات ہوئی مگر جب ساتھ
چلتے گئے تو اجنبیت شناسائی میں بدل گئی۔ نہ کوئی لاہور کا رہا اور نہ
کراچی کا ۔سب ایک وطن کے باسی تھے۔۔۔پا کستان زندہ باد، دوستی زندہ باد۔یہ
وصف بس دوستی میں ہی پایا جاتا ہے کہ سفر چاہے کیسا بھی ہو۔ یہ اسے شیریں
کر دیتی ہے ۔ یہ تو پھر خوابوں کے نگر کا سفر تھا جس کے بارے میں قصہ
کہانیاں تو سنی تھیں مگر کبھی دیکھا نہیں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ جب پی ایف سی کے نوجوان اور متحرک لیڈر ملک سلمان نے دورہ
کیلاش کی دعوت دی تو ہماری آنکھوں نے اپنی پلکوں پر تعبیروں کو چن لیا۔
سرکاری مہمان نوازی سے بہتر اور کیا۔
رونقوں کے شہر لاہورسے نکلے تو نیند نے اپنی بانہوں میں لے لیا ۔ سب نے
مقدور بھر نیند پوری کی۔ تھکن سے ٹوٹے جسموں کو راحت مل گئی۔ ۔ ہلکی ہلکی
روشنی نے جب اپنی چھب دکھائی تو ہمیں پتا چلا کہ ہم اسلام آباد کے پاکستان
ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے فلیش مین ہوٹل میں پہنچ چکے ہیں۔ ۔ ہوٹل کے آراستہ و
پیراستہ کمروں میں دو گھنٹے کی پر سکون نیند نے ہشاش بشاش کردیا ۔ سب پھر
سے اپنے چہروں کو سجانے میں لگ گئے۔ آخر پریوں کے دیس میں جارہے تھے ،کچھ
تو حسن بہر طور چا ہیے تھا۔ یہاں پی ٹی ڈی سی کے ایم ڈی چوہدری عبد الغفور
کے احکامات پر مینجر مختار علی کی زیر نگرانی دس بجے ہماری تواضع شاندار
ناشتے سے کی گئی۔
انتہائی لذیذ ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے بعد د مکتے دمکتے چہروں کے ساتھ
ہم یہاں سے اپر دیر کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں کئی جگہ تھوڑا بہت پڑائو
بھی کیا۔ شام ہو چکی تھی ۔۔ اپر دیر پہنچے تو لواری ٹنل کے بند ہونے کی وجہ
سے سفر روکنا پڑا۔لواری ٹنل نے ٹھینگا دکھا دیا تھا۔ایک فوجی جرنیل مشرف کی
بنائی ٹنل سے الجھنے کی بجائے اس کی مان لینا ہی بہتر تھا ۔ یہاں پی ٹی آئی
کے رہنما ، ایم پی اے کے امیدوار ملک طارق بابا نے ہمارے قیام و طعام کا
بندوبست خوش دلی سے کیا۔ ان کی مہمان نوازی نے دل جیت لئے ۔ اتنے لوگوں کا
قیام و طعام اتنی خوش دلی سے صرف پٹھان ہی کرسکتے ہیں۔ رات کے پر تکلف
کھانے کے بعد صبح کا مزے دار ناشتہ۔۔ گرم نرم خستہ روٹیاں، لسی، دہی، انڈے
، سالن، اچار ، کبھی نہ بھلائے جانے والا ذائقہ۔
اپردیر سے علی الصبح چترال کے لئے روانہ ہوئے۔یہاں ضلعی ناظم اپر دیر صاحب
زادہ فصیح اللہ نے سب کا
پرجوش استقبال کرتے ہوئے کھا نے کے لئےروکنا چاہا مگر وقت کی کمی آڑے
آگئی۔بڑی مشکل سے انہوں نے معذرت قبول کی ۔ اب پاکستانی کی طویل ترین نو
کلو میٹر پر محیط لواری ٹنل کا سامنا تھا ۔ ٹنل کی تعمیر سے پہلے چترال کے
لوگوں کا رابطہ پاکستان کے لوگوں سے چھ مہینے کے لئے منقطع ہو جاتا تھا۔
انہیں پاکستان آنے کے لئے افغانستان کا بارڈر استعمال کرنا پڑتا تھا ، پاک
افغانی تعلقات کی ناخوش گواری بھی آڑے آجاتی تھی ۔ پس اس پر وہ صبر شکر ہی
کر رہے تھے کہ اس ٹنل کی تعمیرنے پاکستان کے باسیوں کی پاک سرحدوں کے اندر
رہتے ہوئے ہی آمدورفت کو ممکن بنا دیا۔۔ یوں سفر ہوا آسان۔۔ مگر ہمیں اب
چترال کے دشوار گزار راستوں سے گزرنا تھا۔جہاں سے گزرتے ہوئے انسان یہی
سوچتا ہے کہ اب گئے کہ اب گئے۔ ہونٹوں سے دعا نکلتی ہے یا پھر آہ۔۔ مگر
کافرستان جانے کی ٹھان کر نکلے تھے ۔اب آہ نکلے یا جان۔ جانا تو تھا۔
طویل سفر کے بعد پانچ بجے گورنر کاٹیج چترال پہنچے تو ڈپٹی کمشنر چترال
ارشاد سدھر نے ہمیں ہنستے مسکراتے چہرے سے خوش آمدید کہا۔ سفر کی ساری کلفت
ان کےپیار بھرے لہجے نے دور کردی۔ڈسٹرکٹ ناظم چترال جماعت اسلامی سے تعلق
رکھنے والے سید مغفرت شاہ کی طرف سے پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔
میٹھے لال تربوز اور شیریں سفید پیلے خربوزے بھی بہت مزے کے تھے ۔ چترال
میں قیام کے دوران انہوں نے پی ایف سی وفد کی بھر پور میزبانی کی۔اس کی وجہ
جماعت اسلامی کے مرکزی وزیر اطلا عات قیصر شریف کی خصوصی ہدایات بھی
تھیں۔چترال کے حوالے سے ان کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہاں
کرائم ریٹ زیرو ہے۔ ۔ اس کا کریڈٹ ضلعی حکومت، پولیس اور پاکستان آرمی کو
جاتا ہے۔
چترال کی بلند چوٹی پر واقع گورنر کاٹیج سے پورا شہر چترال نظر آتا ہے۔
گورنر کا ٹیج بھی بہت خوبصورت تھا۔ اس لئے یہاں بھی سب نے جی بھر کر فوٹو
گرافی کی۔ پٹھانوں کی مہمان نوازی کایہ عالم تھا کہ مہمان آ جارہے
تھے۔مہمانوں کو رحمت سمجھ کر ٹریٹ کیا جا رہا تھا۔۔ اس لئے سب مہمان یہاں
حسین نظاروں کے جہان رنگ وبو میں خوشی سے چہکتے پھر رہے تھے ۔
کیوں نہ چہکتے،ایسے ایسے دل کش منظر جوانسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے
ہیں۔دل چاہتا ہے کہ کسی اور طرف نگاہ ہی نہ ڈالی جائے۔ ۔ ہر قدم پڑائو کی
خواہش، ہر قدم رنگینیوں کی لطافت۔ یاالہی یہ ہم کس دیس میں آگئے ہیں۔ کمراٹ
وادی بھی ہماری مہمان نوازی کرنا چاہتی ہے۔ ادھر گرم پانی کا چشمہ بھی
آوازیں دے رہا ہے۔ مگر ہم نے کانوں کو بند کیااورمہر بلب اس خطے کو کھوجنے
چل پڑے۔۔ وہ کیا خطہ تھا جو جو خوابوں میں آتا تھا اور کہتا تھا۔میں تعبیر
بھی بن سکتا ہوں۔میں تکمیل بھی پا سکتا ہوں۔ ۔۔
اب اگر چلے ہیں تو اس تک پہنچ ہی جائیں ۔ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ
آہستہ۔۔مگر ابھی دشوار گزار راستے اور بھی تھے۔ اور ان راستوں پر رات کو
سفر کرنا آسان نہ تھا۔اس لئے رات کو یہاں ہمارا قیام ایک گرلز ہاسٹل میں
تھا۔ ہم جو گئے تو وہاں رونق میلہ لگ گیا۔ کیا کہنے۔ اتنی حسین لڑکیاں۔ یہ
پریاں تھیں یا تتلیاں مگر انہوں نے ساری رات ہم سے محبتیں بانٹیں ان لڑکیوں
کے جدید تراش خراش کے لباس سے اندازہ ہو اکہ ماڈرن ازم یہاں بھی جوبن پر
ہے۔
قرب و جوارسے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے آئی ان لڑکیوں کی تعداد اور گفتگو
سے اندازہ ہوا کہ ان میں لٹریسی ریٹ بڑھ رہا ہے ۔ لڑکیوں کی اکثریت تعلیم
کے حصول کے بعد گھر بیٹھنے کی بجائے کسی پروفیشن میں جانے کی خواہاں نظر
آئی۔ طویل سفر کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے میری طبیعیت کچھ خراب تھی ۔۔ مجھے
رات کو سردی محسوس ہو ئی تو ایک پری بھاگی بھاگی گئی اور ایک اور کمبل لے
کر حاضر ہوگئی ۔
رات بھر روایتی رقص و سرور جاری رہا ۔سونے کو کس کا من تھا۔ بس سستا
لیا۔۔۔۔۔ صبح کا اجالا ہوا تو ایک نرم نازک سی پری جیسی وارڈن نے مجھے
نہانے کے لئے پانی گرم کردیا۔ میں نے بہت کہا کہ میں ٹھنڈے پانی سے ہی
نہالوں گی مگر وہ کہاں سنتی تھیں۔بالٹیاں بھر بھر مجھے پہنچاتی رہیں ۔ نہا
کر نکلی تو گرم گرم چائے اور نان میری خدمت میں پیش کردیا۔ ایسی خدمت تو
کبھی میری اپنے گھر میں نہیں ہوئی تھی۔سچ پوچھیں تو میں اس سفر میں سب کچھ
بھو ل سکتی ہوں مگر اس ہاسٹل کی خاموش طبع وارڈ ن اور معصوم لڑکیوں کو کبھی
نہیں بھول سکتی جنہوں نے میرا بہت خیال رکھا۔
ناشتہ ڈی سی صاحب کی طرف سے تھا۔صبح کا اجالاپھر سے کیلاش جانے کی امنگ جگا
رہاتھا۔کچھ ساتھی وہاں سے ہو کر آچکے تھے ۔ انہوں نے بہت ڈرایا ۔۔ راستہ
بہت خطرناک ہے۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس ایک میدان ہی تو ہے جہاں کیلاشی
لڑکے اور لڑکیاں رقص کرتےہیں۔
اتنا طویل اور دشوار گزار سفر کاٹ کر جس منزل تک جانا مقصود تھا۔۔ اس کو
دیکھے بغیر کیسے مڑ آتے۔ بے وفائی کی ریت ہم کیوں اپنائیں ۔ہم تو اس وادی
تک جائیں گے جس نے ہمیں بچپن سے سحر زدہ کر رکھا تھا۔اب کہ یہ رنگ اور چڑھے
گا یا یہ سحر ٹوٹ جائے گا۔۔ جو بھی ہوگا۔ وفا کا دھاگہ باندھ کر چلے ہیں۔
اس کو وہیں پر جاکر ا تاریں گے۔
حسرتوں کی دیوار ہی تو توڑنے آئے تھے۔ اتنےقریب آکر ایک اور نئی حسرت پال
کرچلے جاتے۔ ا س کے بعد یہ دل ہمیں کبھی نہ بخشتا۔نہ بابا نہ ،ہمیں تو اس
دیس جانا ہے جہاں عورتیں راج کرتی ہیں۔ جہاں محبت پر سب کی نظر کرم ہے۔
جہاں چاہنے والوں کا راستہ روکا نہیں جاتا بلکہ انہیں راستہ دیا جاتا ہے کہ
جائو جس کومن ہے،اپنائو۔جہاں لاشوں پر نوحے نہیں ، گیت گائے جاتےہیں۔
لوجی سب نے اپنے بہترین سوٹ پہن لئے کیونکہ وادی کیلاش ہی ا ب آخری
پڑائوتھا۔کچھ لڑکیوں بالیوں نے کیلاشی سوٹ ہی زیب تن کیے۔۔ ٹھیک ہی تو
تھا۔۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔۔ لیکن ہم ان گوری حسینائوں میں کہاں کے
کیلاشی۔۔۔ دل کا شوق ہی پورا کرنا تھا۔۔ کرنے میں حرج بھی کیا۔
اگلی صبح ڈی سی چترال ارشاد سدھر کے نمائندے خلیل صاحب کی رہنمائی میں پی
ایف سی کے گلدستے نے وادی کیلاش کی پکار پر پھر سے سفر شروع کیا۔ اب وہ راہ
تھی جس پر چلتے چلتے انسان کی سانسوں میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے اور
زبان نغمے گانے لگتی ہے۔ یہاں سب نے مقدور بھر ساتھ دیا۔۔ کسی نے جہا ن
ِرقص آباد کردیا اور کسی نے فقط گنگنانے پر اکتفا کیا۔ جو بھی کچھ تھا،چلن
محبتوں کا تھا۔ اس لئے کسی کو اعتراض نہ تھا۔سب خوش تھے ۔ نغمہ زن تھے۔
بہتا ہوا پانی، کبھی جھرنے اور کبھی دریا ئے سوات کی روانی۔الہی تیری قدرت
کہ پتھروں سے گزرتا ہو ا دریا انسان کو حیران کر دیتا ہے ۔ بہتے ہوئے دریا
کی ٹھنڈی آواز، اس سفر کا طویل ہم سفرجو ساتھ ساتھ چلتا رہا اور آنکھوں کو
طراوت بخشتا رہا۔ ہر منظر کے ساتھ اس کا بدلتا ہوا رنگ۔۔ کبھی اس سمت سے
آشکار ہوتا تو کبھی اس سمت سے اپنی چھب دکھاتا۔
جوں جوں ہم وادی کیلاش کے قریب جا رہے تھے ۔ مبہوت کر دینے والاحسن ہمیں
مسحور کر رہاتھا۔۔ ۔ حسین وادیاں ، پربتوں کی شاہزادیاں جن پر ہمارے کئی
گیت بھی ہیں، ہمیں بلا رہی تھیں۔۔ آئو نا ہمارے دیس۔
۔پاکستان کے برفیلے علاقے چترال کے قریب کیلاش کا علاقہ تین وادیوں، رمبور،
بریر اور بمبوریت پر مشتمل ہے۔یہ پاکستان کا انتہائی شمال مغربی حصہ ہے۔
کیلاش کا راستہ چترال سے30 کلو میٹر کا تھا مگر پرخطر راستے اور خستہ حال
سڑک کی وجہ سے یہ سفر پانچ گھنٹوں میں طے ہوا۔ اس سفر میں ہم سب سے پہلے
آیون پھر دروش اور پھر بمبوریت پہنچے۔ڈپٹی کمشنر آفس میں کھانے کا انتظام
تھا مگر شام ڈھلنے میں زیادہ وقت نہ تھا۔ ہم بارش کی پروا کئے بغیر یہاں
پہنچتے ہی جلدی سے سیڑھیاں پھلانگ کر اونچائی پر بنے اس میدان میں پہنچے
جہاں کیلاشیوں کا قدیم روایتی میلہ "چلم جوش "مذہبی عقیدت اور جوش و خروش
سے منایا جارہا تھا۔موسم بہار کی مناسبت سے اسے چلم جوش کہا جاتا ہے۔یہ ان
کی عید بھی ہوتی ہے۔
رسم کے مطابق پنڈال میں پہنچنے والے مہمانوں کو یہاں کی کالے لباس میں
ملبوس عورتوں نے رنگ برنگی اونی پٹیاں پہنا کر خوش آمدید کہا۔
ڈپٹی کمشنر چترال اس تقریب کے دولہا بنے بیٹھے تھے۔ ان کی میزبانی میں یہاں
کے ٹھنڈے موسم اور بارش میں چائے دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ کیلاشیوں کا اپنے
ڈی سی سے پیار محبت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ عہدے دار کی گردن میں سریا نہ ہو
اور وہ خود کو حاکم اعلی سمجھنے کی بجائے اگر عوام کا خادم سمجھے تو واقعی
اس سے محبت کرتے ہیں۔ ڈی سی صاحب اپنے لوگوں میں یوں گھل مل کر بات کر رہے
تھے کہ جیسے ان کے کوئی قریبی عزیز ہوں۔ لوگ بھی والہانہ ان پر نچھا ور ہو
رہے تھے۔
اس میدان میں ہر عمر کے مردوں اور عورتوں کا رقص جاری تھا۔ ڈھو ل کی تھاپ
پر وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک دوسرے کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے محبت کی
علامت بنے اس میدان میں رقص کررہے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے جیسے حسن کی تصویر
تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ ہاتھ لگایا تو میلے ہو گئے۔۔ مگرہمیں وہ ہاتھ لگانے
بھی کب دیتے تھے کہ ہم نے تصویریں بنوانے کی درخواست کی تو وہ ناراض ہو
گئے۔خصوصاً جوان لڑکیوں نے سفید جالی سے اپنے چہرے بھی ڈھانپ رکھے تھے اور
وہ تصویریں کھنچوانے سے بھی گریزا ں تھیں۔
تمام عورتیں کالے رنگ کے لباس میں ملبوس تھیں۔ کالے رنگ کےلباس کو رنگ
برنگے دھاگوں اور سمندری سیپیوں سے سجایا جاتا ہے۔سر پر رکھی ٹوپی بھی کوڑی
کے خول اور موتیوں سے سجی ہوتی ہے۔اوپر ایک پر لگا ہوتا ہے۔گلے میں موتیوں
کی ما لائیں لٹکی ہوتی ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہ کسی اور رنگ کا لباس اس تہوار
پر پہننے سے ان پر دیوتا کا عذاب نازل ہو گا۔مرد کسی بھی رنگ کی شلوار قمیض
پہنتے ہیں۔تہوار کے پہلے روز بکری کے دودھ کو بطور تبرک بانٹا جاتا ہے ۔ سب
سے پہلے یہ دودھ بستی کے نومولودوں کو پلایاجاتا ہے۔ ۔اس دودھ کا ایک گھونٹ
پینا بھی متبرک اور شفا بخش سمجھا جاتا ہے۔ا س لئے لوگ لمبی قطاروں میں لگ
کر دودھ لیتے ہیں جو اس علاقے کے بزرگ بانٹتے ہیں۔
تہوار کے دوسرے روزآٹے میں علاقے کے تمام میوہ جات ڈال کر کھلے آسمان تلےاس
کی روٹی تیار کی جا تی ہے ۔ جسے تمام لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے
بعد تمام لوگ علاقے کے مذہبی مقام جسٹک خان سے گزر کر مخصوص میدان میں پہنچ
کر رقص شروع کر دیتے ہیں۔شام ڈھلتے ہی اس رقص کو بند کردیا جاتا ہے اور لوگ
اپنے اپنے گھروں کو کوچ کرتے ہیں۔
تہوار کا تیسرا روز محبت کرنے والوں کے لئے نوید مسرت بن کر آتا ہے۔تمام
مرد وزن میدا ن میں پہنچ کر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ناچنا گانا اور بزرگ
حمد وثنا شروع کر دیتے ہیں۔علاقے کے اہم مذہبی پیشوا ہاتھوں میں سبز پودے
کی شاخیں اٹھائے آتے ہیں تو یہاں کے مقامی لوگ ان کو سلامی پیش کرتے ہیں۔
اس دن اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کو پسند کر لیتی ہے تو وہ اپنے گھر جانے کی
بجائے ا س لڑکے کے گھر چلی جاتی ہے۔ رات کو جب وہ اپنے گھر نہیں پہنچتی تو
اس کے گھر والوں کو پتا چل جاتا ہے کہ ان کی لڑکی نے جیون ساتھی پسند کرلیا
ہے۔ لڑکے والےلڑکی کے گھر والوں کو بتا دیتے ہیں۔ وہ اپنی لڑکی کو گھر لے
آتے ہیں اور پھر بات پکی کرلیتے ہیں۔ بعد ازاں دھوم دھام سے شادی کر دیتے
ہیں۔ میں نے جب کیلاشی لڑکوں سے پوچھا کہ اس رسم کے بعد کیا یہ شادی فوری
ہو جاتی ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں کےوالدین مل کر طے کرتے ہیں ۔
بعض اوقات جلدی اور بعض اوقات یہ سالوں بعدبھی ہوتی ہے لیکن اس صورت میں
منگنی کر دی جاتی ہے جس کے بعد شائبے کا امکان نہیں رہتا۔
اگر کوئی شادی شدہ عورت بھی اپنے خاوند کی بجائے کسی اور کو اس تہوار پر
پسند کر لے تو وہ اپنے خاوند سے طلاق لے کر اپنے پسند کے مرد سے شادی کر
سکتی ہے۔اس تہوار کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط اور محبت کی
شادی کو پسند نہیں کیاجاتا۔لیکن اس تہوار پر انہیں اپنا شریک حیات منتخب
کرنے کی پوری آزادی دی جاتی ہے۔
کیلاشیوں کی زیادہ تر آبادی اب مسلمان ہو چکی ہے۔جس کی وجہ یہاں آنے والے
مبلغین ہیں۔کیلاش کی تینوں وادیوں کی کل آبادی بارہ ہزار نفوس بتائی جاتی
ہے۔یہاں تما م مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔
بمبوریت کی چار ہزار نفوس پر مشتمل اس آبادی میں اب کافروں کی تعداد بارہ
سو ہے۔یہ لو گ سال میں صرف چار دفعہ عبادت کرتے ہیں۔ چلم جوش ان کا سب سے
بڑا میلہ ہے جو ہر سال چودہ مئی سے سولہ مئی تک ہوتا ہے جس میں وہ اپنے
مرنے والے لوگو ں کی بخشش کے لئے دعا کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں سے گفتگو کرکے پتا چلا کہ یہ لوگ اپنے مردے کو اپنے قبرستان
میں رکھے لکڑی کے تابوت
میں ڈال کر ڈھکن بند کرکےکھلے آسمان تلے رکھ دیتے ہیں ۔جب وہ گل سڑ جاتی ہے
تو پھر اس ڈبے کی صفائی کر دیتے ہیں اور اسے دوسرے مردے کے لئے تیار کر
دیتے ہیں۔پہلے یہ لوگ مردے کو تابوت میں رکھ کر اس کے سازو سامان مثلاً
زیورات اور ضر وری اشیا سمیت ڈھکن کھو ل کر رکھ دیتے تھے تو لاش کو چیل
کووے کھا جاتے تھے ۔بعدازاں سامان اورزیورات بھی چوری ہونے لگے تو ان لوگوں
نے تابوت کا ڈھکن بن کرنے کی روش اپنائی۔ آبادی کم ہونے اور صحت افزا مقام
ہونے کی وجہ سے شرح اموات یہاں کم ہے۔ اس لئے دوسرے تابوت کی ضرورت انہیں
محسوس نہیں ہوتی۔
یہاں کی خواتین کو فیصلہ سازی کے تمام امور میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ مگر
مذہبی عبادات کے لئے انہیں ناپاک تصور کیا جاتا ہے اور انہیں مذہبی مقامات
اور مقابر پر بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔یہاں ہماری ملاقات ایک کیلاشی لڑکی
سے ہوئی جوکہ چترال کے آرکیالوجیکل میوزیم کی انچارج ہیں۔ انہوں نے ہسٹری
میں ایم اے کر رکھا ہے۔ اس کیلاشی لڑکی نے یہاں تعلیمی اداروں کے قیام کی
ضرورت پر زور دیا۔
تقریب کے اختتام کے بعد جب ہم ڈی سی آفس میں کھانا کھا رہے تھے تو اس لڑکی
کو ڈی سی صاحب کے ساتھ آتے ہوئے دیکھ کر مذاق سوجھا تو انہیں مبارک باد دی
کہ آخر اس تقریب میں ایک عدد لڑکی وہ بھی بھگا کر لے آئے۔ تو ہماری اس بات
پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تو بہ کریں۔۔ یہ ہمارے میوزیم کی انچارج
ہیں۔اس وقت اہم امور پر ان سے بات ہو رہی تھی ۔ ہماری شرارت کو وہ سمجھ چکے
تھے لہذا ماحول خوشگوار رہا۔
رات کیلاش سے واپسی کا سفر جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات تھی لیکن یہاں
بھی ڈی سی صاحب نے اتنی بڑی تعداد کے لئے قیام و طعام کا بندوبست کیا ۔ اس
طرح ہم نے یہ رات وادی کیلاش بمبوریت میں گزاری۔ ہم نے سو کرگزار دی۔ کچھ
لوگوں نے خوب انجوائے کیا۔ نہ دن دیکھا اور نہ رات۔ اپنے دوستوں کو خوب
کمپنی دی۔۔
صبح واپسی کا سفر شروع ہوا جو کہ پھر ڈرا دینے والا تھا مگر کیلاش کا شوق
پورا ہو چکا تھا۔اب سب کو اپنے اپنے گھر بلکہ گھر سے زیادہ آفس پہنچنے کی
جلدی تھی۔مگر سفر پلک جھپکتے میں تھوڑی طے ہو جایا کرتا ہے۔
دیر پہنچے تو پی ٹی آئی کے رہنما ملک طارق خان صاحب نے ریات شنگریلا کے خوب
صورت ہوٹل میں الوداعی چائے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی باتوں سے بھی مخظوظ
کیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں جماعت اسلامی کا غلبہ ہے مگر پی ٹی آئی کے
سامنے آنے کی وجہ سے اب جماعت اسلامی کا زور بڑی حد تک ٹوٹ چکا ہے ۔ ان کا
کہنا تھا کہ اب اسلام کے نام پر لوگوں کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا
جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت پانی سمیت بہت سے منصوبوں پر
کام کر رہی ہے۔ یہاں کی عوام کو عمران خان پر پورا اعتماد ہے۔ ملک طارق خان
صاحب کے ایک ساتھی کے سر پرپی ٹی آئی کے ٹوپی دیکھ کر میرا بھی دل للچایا ۔
انہوں نے فوراً ایک ٹوپی میری خدمت میں حاضر کردی جسے پہن کر میں نے تصاویر
بھی بنوائیں۔
اپر دیر سے ہمارا قافلہ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ یہاں تقریباً سحری کے
وقت ہم پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل فلیش مین پہنچے جہاں ہمارے لئے شاندار سحری کا
انتظام تھا۔ دس گیارہ بجے کے قریب پی ٹی ڈی سی کے ایم ڈی چوہدری عبدالغفور
صاحب سے میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے پاکستان کو سیا حت کے لئےموزوں ملک
قرار دیتے ہوئے اپنی کاوشوں کا تفصیلی تذکرہ کیا اور شمالی سرحدی صوبہ جات
میں انفرا سٹرکچرکی بہتری کے لئے جاری منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
ٹوارزم کے حوالے سے ان کی باتوں نے آگاہی اور شعور کے نئے دروازے کھولے اور
سب کے دل سے یہ دعا نکلی کہ ہمارے ملک کو ان جیسے رہنمائوں کی ضرورت ہے۔
تبھی اس ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔
اس طرح اسلام آباد سے ہم لاہور پہنچے ۔ یوںایک طویل سفر ہنستے کھیلتے گزر
گیا۔ اتنے بڑے وفد کو لے کر جانا اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست کوئی
آسان کام نہیں تھا ۔ لیکن یہ مشکل کام ملک سلمان صاحب نے کر دکھایا ۔ ان کی
منتظم ٹیم کا بھی اس میں اہم کردار رہا جنہوں نے ملک سلمان صاحب کا حوصلہ
ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس سفر میں پنجاب حکومت نے بہت تعاون کیا۔ سفر کےلیے ہائی
روٹ گاڑیاں فراہم کیں ۔ محکمہ ٹورازم نے بھی شاندارمیزبانی کی۔ خیبر پختون
خواہ کےنمائندوں نے بھی حق میزبانی ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہ
یادگا ر سفر کالم نویسوں کے دل کو ہمیشہ دھڑکاتا اور دماغ کو معطر کرتارہے
گا۔ |