حسین ترین وادی کیلا ش میں صدیوں سے آباد کیلاش
قبیلے کا سالانہ تہوار ’’چلم جوشی پاکستان کے رنگارنگ اور مشہورتہوارکی
حیثیت سے شہرت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو دیکھنے ہر سال غیرٖ
ملکیوں سمیت ہزاروں سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وہ تہوار ہے جو
وادی کیلاش کی روز مرہ زندگی اور وہاں کے انوکھے رہن سہن کو دنیا بھر میں
شہرت بخشنے کابڑا سبب ہے۔ اس وادی کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔ قوم کیلاش
کی کل آبادی تقریباً 4130افراد پر مشتمل ہے۔چترال کے قریب واقع کیلاش کا
علاقہ تین وادیوں ، ’’رمبور‘‘، ’’بریر‘‘ اور’’ بمبوریت‘‘ پر مشتمل ہے۔موسم
بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوشی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن
تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔
مقامی لوگ اسے ’’چلم جوشٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیلاشی قوم سال میں تین تہوار
مناتی ہے۔ جسے چلم جوشی، چاؤمس اور پھوّر کہا جاتا ہے۔چلم جوشی کیلاش قبیلے
کا انتہائی معروف تہوار ہے۔ جو ہر سال14مئی سے 16مئی تک منایا جاتا ہے۔ یہ
تہوار دراصل سردیوں کے مشکل ماحول سے نکل کر بہار کی آمد کی خوشی میں منایا
جاتا ہے۔کیلاشیوں کاعقیدہ ہے کہ یہ دنیا گناہوں کا گڑھ ہے جہاں ان سے گناہ
سرزد ہوتے ہیں اس لیے فوتگی کی صورت میں بھی سُر اور ساز گونجتے ہیں کہ
وفات پانے والا اس گنہگار دنیا سے رخصت ہورہا ہے، اس لئے وہ اس کی وفات پر
جشن مناتے ہیں اور فوتگی کے موقع پر بکرے کے گوشت ، دیسی گھی اور پنیر سے
بنے پکوان تیار کرتے ہیں۔قدیم کیلاشی قوم اپنے مردوں کو دفناتی نہیں تھی
بلکہ مردے کو اس کے سازوسامان سمیت قبرستان میں لکڑی کے صندوقوں کے اوپر
چھوڑ آتے تھے۔لیکن بعد ازاں مرحوم کے سازوسامان میں شامل قیمتی اشیااور
انسانی ہڈیاں چوری ہوجانے کی وجہ سے اب کیلاشی قوم مردوں کو دفناتے ہیں۔
کیلاشی خواتین کے گھر کی چھت اورعبادت گاہ جسے منوش کہتے ہیں جانے پر
پابندی ہے۔لیکن دوسری طرف کیلاش کی ثقافت میں خواتین کو منفرد مقام بھی
حاصل ہے۔ گھر کے تمام فیصلے خواتین کرتی ہیں۔ گھر بار، مویشیوں کی دیکھ
بھال،کاشتکاری، ہر قسم کا حساب کتاب، سب خواتین کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔
قوم کیلاش کی حیران کن اور دلچسپ و عجیب رسم و رواج کا مذید تذکرہ کرنے سے
پہلے پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے وفد میں شریک کالم نگاروں ،ایڈیٹرز اور
اینکرپرسنز کا تعارف کروانا ضروری ہے۔وادی کیلاش کے بارے میں ہمیشہ سے سنتے
آئے ہیں اور اسے دیکھنے کی خواہش رہی۔پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ نے
اینکرپرسنز اور کالم نگاروں کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے وفد کی صورت
میں کیلاشیوں کے سب سے بڑے تہوار چلم جوشی فیسٹیول کے موقع پر وزٹ کرنے کا
پلان کیا توپتا چلا کہ بارڈر ایریا کی وجہ سے کیلاش میں میڈیا کوریج کی
اجازت نہیں ہے۔تھوڑی دیر کیلئے سوچا کہ بغیر کووریج کے جانے کا مزہ نہیں
آئے گا پھرکچھ کرنے کی ٹھان لی اور میڈیا کوریج کی این او سی کیلئے ڈی جی
کے نام لیٹر لکھا اور آئی ایس پی آر لاہور آفس پہنچ گئے ۔معلوم ہوا کہ این
او سی راولپنڈی سے ملے گا۔ این او سی کیلئے میجر،کرنل،برگیڈئیر اور ڈی جی
آئی ایس پی آر سب تک پہنچے۔الحمدﷲ مسلسل کوشش اور ڈی سی چترال کے خصوصی
تعاون کی وجہ سے کیلاش کی تاریخ میں پہلی دفعہ میڈیا کوریج کی اجازت لی
گئی۔اس کامیاب دورے میں ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سودھر کا عملی تعاون
واقعی قابل تعریف ہے۔ان کے پی آر او راشد غفور اور قاضی جلال موسم کی صورت
حال سے راستوں کی دشواری تک تمام معاملات میں باقاعدگی سے اپڈیٹ کرتے رہے
اور چترال میں قیام کے دوران بھی انہوں نے دن رات ہماری خدمت میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔صرف 20افراد کے وفد کا ارادہ تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی وفد50کالم
نگاروں و اینکرپرسنز اور کم و بیش10کے قریب پروڈیوسرز ،کیمرہ مین اور دیگر
نمائندوں پر مشتمل ہو گیا۔60رکنی وفد کیلئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی انتہائی
مشکل مرحلہ تھا۔چونکہ کیلاش کے پی کے گورنمنٹ میں ہے اس لیے اس ضمن میں
عمران خا ن ،پرویز خٹک ، ٹوورازم کے پی کے سمیت منسٹری آف ٹوورازم کے پی کے
سے بارہا رابطہ کیا گیا ۔سب تک خطوط اور واٹس ایپ پیغامات پہنچے مگر کسی نے
بالکل تعاون نہیں کیا۔12مئی کو روانہ ہونا تھا ، اس لیے آخری آپشن کے طور
پر 11مئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اورڈائریکٹر جنرل ڈی جی پی آر
شاہد اقبال سے رابطہ کیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور
سیاحت میں فروغ کیلئے اپنی قابل قدر روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اگلے ہی
گھنٹے میں رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ہرطرح کے عملی تعاون کا یقین
دلایا۔وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ڈی جی شاہد اقبال نے اے سی ڈیوو گاڑیاں فراہم
کی لیکن ڈ ی سی چترال نے بتایا کہ بٹ خیلہ سے آگے بڑی گاڑیاں نہیں جا سکتیں
۔اس لیے بعد ازاں ڈیوو گاڑیوں کی بجائے ڈی جی شاہد اقبال نے اے سی ہائی روف
گاڑیاں منگوائیں۔ایک طرف سات دن مسلسل کے پی کے گورنمنٹ کی بے حسی اور
دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک گھنٹے میں رسپانس ۔سیاحت کے کھوکھلے
نعرے بلند کرنے والے عمران خان اور عمل کرنے والے شہباز شریف میں فرق واضح
ہے۔
وادی کیلاش جانے والے پی ایف سی وفد کے اعزاز میں آپشنز گروپ آف کمپنیز
اورAFOHSکلب کے سی ای اوڈاکٹر قیصر رفیق نے ائیر فورس آفیسرز میس میں ڈنر
اور تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ڈنر کے بعد کلب سے ہی اسلام آباد روانہ ہونا
تھا۔کراچی سے پروگرام اینکرالماس جان بلوچ،ثمرین تونیو،شان آ رائیں،کالم
نویس جمیلہ منجوٹھی،راحت عائشہ،بادشاہ خان،محمد شفیق سروراور کامران چوہان
پر مشتمل8رکنی قافلہ 12مئی کی صبح لاہور پہنچ گیا ۔کراچی سے آئے معززمیڈیا
پرسنز کیلئے AFOHSکلب کے سی ای او کی طرف سے آفیسرز کلب میں بہترین رہائش
فراہم کی گئی۔ڈنر اور تقریب کے مہمان خصوصی ڈائریکٹر جنرل ڈی جی پی آر شاہد
اقبال ضروری میٹنگ کے باعث شریک نہ ہوسکے ۔پنجاب گورنمنٹ،AFOHSکلب اور
پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کی طرف سے وفد میں شریک میڈیا پرسنز کواعزازی
شیلڈز سے نوازا گیا۔اس تقریب کے مہمانان گرامی اعظم چوہدری صدر لاہور پریس
کلب،چوہدری کبیر خاں ممبر وزیر اعظم انسپیکشن کمیٹی و سابق ایم ڈی پی ٹی ڈی
سی،اختر بادشاہ مشیر وزیراعلیٰ پنجاب،ڈاکٹر قیصر رفیق سی ای او آپشنز گروپ
آف کمپنیز وAFOHSکلب ،کرنل ساجد ایڈمنسٹریٹر AFOHSکلب،چوہدری لقمان ججا سی
ای او ڈبلیو بی ایم گروپ آف کمپنیز،مدیحہ خان سنئیر پروگرام اینکراورچائلڈ
پروٹیکشن آفیسر پنجاب عائشہ انور نے اپنے دست مبارک سے میڈیا پرسنز کو شیلڈ
ز پیش کیں۔
پی ایف سی کیلاش فیسٹیول کے اہم ممبرعمران خان سنئیر پروگرام اینکر ذاتی
گاڑی پر روانہ ہوگئے جبکہ ان کا پروڈکشن سٹاف سنئیر پروڈیوسر قیصر
شریف،آفتاب چوہدری،،رانا نویدانور ، عمران خالد، کیمرہ مین محمد
یاسراورمحمد اعظم پی ایف سی وفد کے ساتھ عازم سفر ہوئے۔بندہ ناچیز صدر
پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ ملک سلمان ،سنئیر پروگرام اینکرزچوہدری عمر
حسین،رضوان سحر کمیانا،صغیر رامے، نیوز اینکرزعروسہ خان،رباب نقوی،ثانیہ
قریشی،سنئیر کالم نویس افضال ریحان،زابر سعید،صابر بخاری ،سجاد اظہر
پیرزادہ،شہباز سعید آسی،فرخ شہباز وڑائچ،مظہر اقبال چوہدری،ممتاز حیدر
اعوان،،عبدالطیف انور،کامران خوشی،شاہد نسیم،ثروت روبینہ ،سمعیہ اعجاز،صبا
ممتاز بانو،فاطمہ چوہدری،مقدس اعوان،فاطمہ خان،پرنیا خان،ریحانہ یوسف،سنئیر
پروڈیوسررضوان زیب،نعمان زمان ،کیمرہ مین بشارت لیاقت ،محمد طارق، گورنمنٹ
آف پنجاب کے خصوصی نمائندے جواد سلیم اور معروف سیاح وسماجی شخصیت شہوار
خان پر مشتمل وفد رات 1بجے لاہور سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا۔صبح سویرے
6بجے پاکستان ٹوورازم کے ہیڈ آفس فلیش مین ہوٹل راولپنڈی پہنچے جہاں ایم ڈی
پی ٹی ڈی سی چوہدری عبدالغفور کی ہدایت پر مینجر مختار علی نے تمام افراد
کیلئے بہترین اے سی کمروں کا اہتمام کیا تھا۔آرام کے بعد 10بجے پی ٹی ڈی سی
کی طرف سے ناشتے کا انتظام کیا گیا۔ناشتے کی ٹیبل پر ہمیں اسلام آباد سے
سنئیر پروگرام اینکر اشتیاق گوندل ،نوید ستی،سید عون شیرازی ،فروہ شاہ،
نیوز اینکرنرجس کاظمی،سنئیر کالم نویس انعام الحق اعوان،سردار حسنین
عباسی،حماد لیاقت اورعطیہ مشتاق نے بھی جوائن کرلیا۔
چترال روانگی سے قبل مینجر مختارعلی نے سفر کے حوالے سے بریفنگ دی ۔ہم شام
کے وقت اپر دیر پہنچے تو پتہ چلا لواری ٹنل بند ہے۔ ایمرجنسی رات کا سٹے
کرنا پڑا۔اپر دیر سے ایم پی اے کے امیدوار اور پرانے دوست ملک طارق بابا نے
خوش دلی سے تمام افراد کیلئے قیام و طعام کا انتظام کیا۔صبح سویرے چترال
کیلئے روانہ ہوئے۔ضلعی ناظم اپر دیر صاحبزادہ فصیح اﷲ کو ہماری آمد کی خبر
ہوئی تو وہ ضلع ناظم کے دفتر کے باہر ہمارے استقبال کیلئے موجود تھے ۔انہوں
نے انتہائی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا کھانے کے لیے روکنا چاہا ،مگر وقت
کی قلت کے باعث پھر کبھی سہی کا وعدہ کرکے اجازت چاہی تو انہوں شرکاء وفد
کو تحائف سے نوازتے ہوئے سلامتی کی دعا دی۔
انجئیرنگ کے شہکار اور پاکستان کی طویل ترین لواری ٹنل سے چترال میں داخل
ہوئے ۔ نو کلومیٹر پر محیط ٹنل کا افتتاح گذشتہ سال سابق وزیراعظم نوازشریف
نے کیا۔ ٹنل کے افتتاح سے پہلے چترال کے لوگ کم ازکم چھ مہینے کیلئے
پاکستان سے جدا ہوجاتے تھے۔ پاکستان میں داخلے کے لیے افغانستان کا بارڈر
استعمال کرنا پڑتا تھا۔
طویل سفر کے بعد آخر کار شام 5بجے گورنر کاٹیج چترال پہنچنے میں کامیاب
ہوئے ۔جہاں ڈپٹی کمشنر چترال دوپہر سے ہمارے لیے لنچ کا انتظام کیے منتظر
تھے۔ڈپٹی کمشنر ارشاد سودھر نے پی ایف سی وفد کو ویلکم کیا اور چترال کے
حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔چرال کی بلند چوٹی پر واقع گورنر کاٹیج سے پورا
شہر نظر آتا ہے۔ ڈنر کے میزبان ضلعی ناظم چترال تھے۔سید مغفرت شاہ کا تعلق
جماعت اسلامی سے ہے اور اس سے قبل بھی دو دفعہ ضلعی ناظم رہ چکے ہیں۔سید
مغفرت شاہ نے ضلع چترال کی حوالے سے معلوماتی گفتگو کی اور تمام میڈیا
ممبران کا چترال آمد پر شکریہ ادا کیا۔مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی
قیصر شریف بھائی سے زمانہ طالب علمی سے تعلق ہے انہیں جب کیلاش ٹوور کا علم
ہوا تو انہوں نے رابطہ کیا اور بتایا کہ ڈسٹرکٹ ناظم چترال آپ کے ساتھ مکمل
تعاون کریں گے۔قیصر بھائی کے کوارڈینیشن کی بدولت واقعی ناظم صاحب نے جتنے
دن چترال قیام رہا بھرپور پروٹوکول دیا۔ضلع چترال میں کئی دہائیوں سے قتل
کا ایک بھی واقع پیش نہیں آیا جبکہ کرائم ریٹ زیرو ہے جس کا کریڈٹ ،ضلعی
انتظامیہ ،پولیس اور پاکستان آرمی کوجاتا ہے۔
اگلی صبح ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ناشتے اور بریفنگ کے بعد ڈی سی کے نمائندے
کے ہمراہ ایون اوردروش سے ہوتے ہوئے بمبوریت پہنچے جہاں کیلاشیوں کا مذہبی
تہوار چلم جوشی اپنے روایتی جوش وخروش سے جاری تھا۔خستہ حال سڑک کی وجہ سے
چترال سے کیلاش تک سفر انتہائی پر خطر ہے ۔محض 30کلو میٹر کا سفر طے کرنے
میں پانچ گھنٹے لگ گئے۔کیلاش خواتین اپنی روایتی ملبوسات زیب تن کیے پریوں
کی موجودگی کا احساس دلاتی نظر آرہی تھیں۔ وادی کیلاش کے رہنے والوں کے
لباس میں ہزاروں سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی،ان کا عقیدہ ہے کہ انہوں نے
اپنے لباس یا رسوم میں تبدیلی کی تو ان پردیوتا کاعذاب نازل ہوگا۔کیلاش سے
تعلق رکھنے والی خواتین عام طور پر کالے رنگ کے لباس زیب تن کرتی ہیں جوکہ
رنگ برنگے دھاگوں اور سمندری سیپیو ں سے مزین ہوتے ہیں ایک خاص قسم کی ٹوپی
پہنتی ہیں جو کوڑی کے خول اور موتیوں سے سجی ہوتی ہے اور اس کے اوپر ایک پرَ
بھی لگا ہوتا ہے۔ جبکہ کیلاشی مرد شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں۔تہوار کے پہلے
روز بکری کا دودھ بانٹا جاتا ہے ہے۔لوگ دودھ کے حصول کیلئے قطاروں میں لگ
کر اس کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ تبرک سمجھا جاتا ہے لہذا ہر ایک کی خواہش
ہوتی ہے کہ کم از کم ایک گھونٹ دودھ اسے ضرور ملے،سب سے پہلے نو مولود بچوں
کو دودھ پلایاجاتا ہے۔پھر دوسروں کی باری آتی ہے۔ قبیلے کے بزرگ ہر قسم کے
آٹے کے علاوہ علاقے میں پائے جانے والے تمام میوہ جات ڈال کر کھلے آسمان
تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔روٹی کی تقسیم کے
بعد تمام مرد و زن مذہبی مقام ’’جسٹک خان‘‘ کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص
میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تھاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں۔یہ عمل
شام ڈھلے تک جاری رہتا ہے پھر جیسے ہی سورج نیچے اترنا شروع کرتا ہے یہ لوگ
اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔چلم جوشی کا آخری دن نہایت اہم ہوتا ہے۔
سہ پہر کو جب کیلاش قوم ایک میدان میں جمع ہوتی ہے تو تمام خواتین خواہ کسی
بھی عمر کی ہوں،ہاتھوں کی زنجیر بناتی ہیں ناچنا اور گانا شروع کردیتی ہیں
اور کیلاشی قوم کے بزرگ خواتین کے درمیان اپنے خدا کی حمدوثنا کے گیت گاتے
ہیں جبکہ مرد حضرات اوروادی میں آنے والے سیاح ارد گرد بیٹھ کریہ منظر
دیکھتے اور داد دیتے ہیں۔ اس وقت کچھ مذہبی پیشوا ایک مقام پر اکھٹے ہو کر
ہاتھوں میں پودوں کی سبز شاخ اٹھائے ہوئے میدان کی طرف آتے ہیں۔ تمام
خواتین ان کو سلامی پیش کرتی ہیں۔فیسیول کا آخری اور دلچسپ مرحلہ بالکل
منفرد ہے۔ تہوار کے دوران جیون ساتھی کو تلاش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لڑکے
لڑکیوں کو پسند کرنے کے بعد انہیں اپنے ساتھ بھگا کر اپنے گھر لے آتے ہیں
جب لڑکی کے گھروالوں کو پتا چلتا ہے کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ کرگئی ہے
تو اس لڑکی کے گھر والے اس لڑکے کے گھر جاتے ہیں اور لڑکی سے دریافت کرتے
ہیں کہ اس کو زبردستی تو نہیں بھگایا گیا اگر لڑکی کہہ دیتی ہے کہ وہ اپنی
مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ بھاگی تو لڑکی کے گھروالے خوشی خوشی اس رشتے پر
راضی ہو کرشادی کی تقریبات کی شروع کر دیتے ہیں اوراگرکوئی شادی شدہ عورت
کسی دوسرے مرد کو پسند کرکے اس کے ساتھ بھاگ جائے تب بھی عورت کا شوہر خوشی
خوشی اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے اس کی شادی اس دوسرے شخص سے کرادی
جاتی ہے۔
بعد از مغرب ڈپٹی کمشنر ارشاد سودھر کی طرف سے وادی بمبوریت کی مقامی ہوٹل
میں ڈنر کا اہتمام کیا گیا جہاں ڈی پی اوچترال منصور امان اور اسسٹنٹ کمشنر
عون حیدر سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی،ارشاد سودھر اور منصور امان کے ساتھ
ایسی محفل جمی کہ رات گئے2 بجے تک شعروشاعری چلتی رہی۔اگلی صبح6بجے اٹھے
تاکہ واپس گھر پہنچ کر سہری کی جائی مگر نئے کے پی کے کی فرسودہ اور ٹوٹی
پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے کیلاش سے اسلام آباد کا سفر 20گھنٹے میں طے ہوا۔ایک
دفعہ پھر راولپنڈی میں پی ٹی ڈی سی ہیڈ آفس پڑاؤ ڈالااوررمضان المبارک کی
پہلی سہری کی میزبانی ایم ڈی پی ٹی ڈی سی چوہدری عبدالغفور خان،جنرل
مینجرملک علی اکبر اور مینجر مختار احمد نے کی۔بعد از سحری و نماز آرام
کیلئے ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ کے بہترین فرنشڈ کمروں کا رخ کیا۔صبح11بجے بیداری
ہوئی تو ایم ڈی پی ٹی ڈی سی نے پی ایف سی وفد کو ویلکم کیا ،پاکستان ٹوورزم
ہیڈ آفس کا تفصیلی وزت کروایا اور پروجیکٹر کے زریعے اب تک کی ڈویلپمنٹ اور
آئندہ کے منصوبوں سے اگاہ کیا، ایم ڈی ٹوورازم چوہدری عبدالغفور صاحب نے
شعبہ سیاحت میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔چوہدری صاحب سچے اور کھرے
پاکستانی ہیں اور پاکستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے دن رات منصوبہ بندی کرتے
نظر آتے ہیں۔ ایم ڈی ٹوورزم چوہدری عبدالغفور جیسے مخلص افراد کی موجودگی
کسی نعمت سے کم نہیں۔چترال کا سفر مشکل ضرور ہے لیکن راستے میں آنے والے
بلندوبالاخوبصور ت پہاڑ،حسین و جمیل وادیاں،آبشاروں کے دلفریب نظارے،اور
پہاڑوں کی چوٹیوں پر روئی کے گالوں کی طرح شفاف گلیشئیر بالکل تھکاوٹ کا
احساس نہیں ہونے دیتے۔مختلف مذہب اور ثقافت کے حامل افراد پاکستان کا حسن
ہیں۔ہمیں تعصب سے بالا تر ہوکر تمام مذہب،اقوام اور مکتبہ فکر کا احترام
کرنا چاہئے اور تعمیر پاکستان میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔
|