31مئی کو نون کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے
البتہ اس آئین نے نون لیگ کے قائد کو آئینہ ضرور دکھا دیا ہے جو کہ ایک الگ
بحث ہے ، الیکشن کمیشن کے مطابق جولائی کے آخر میں انتخابات ہوجانے چاہئیں
اس نے 25,26جولائی کی تاریخ تجویز کی تھی لیکن اب اس نے اسے تجویز سے بڑھ
کر اور کوئی خیال نہ سمجھنے سے منع کردیا ہے ، کیوں ۔۔۔۔۔؟ یہ بھی بحث نہیں
۔بات دراصل یہ ہے کہ الیکشن تو ہونے ہیں ،اس میں کوئی شک اس لئے نہیں
کیونکہ نہ تو فوج اور نہ ہی عدلیہ اس میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے کہ ملک
میں جمہوریت کو کوئی خطرہ محسوس ہو ، یہ اور دیگر تمام ادارے بھی جمہوریت
کے تسلسل کو ہی ملکی بقا او ر ترقی سے تعبیر دیتے ہیں ۔
رمضان المبارک سے پہلے تک یعنی 15مئی تک ملک میں ایک بڑے پیمانے کی سیاسی
سرگرمیاں ہوتی رہیں ، کوئی سیاسی و سیاست میں ملبوس مذہبی جماعت ایسی نہیں
تھی جس نے خود کو پارسا اور دیگر کو غیر مہذب، بد دیانت اور بد کردار نہ
کہہ دیا ہو، ہر جماعت نے کوشش کی کہ وہ کسی طرح سے عوام کے دماغ میں اپنا
اثر چھوڑ جائے کیونکہ رمضان المبارک آتے ہی عوام کے پاس جانے یا انہیں اپنے
پاس بلانے کا وقت اور موقع دستیاب نہیں ہوگا،اور اتفاق دیکھئے ہوا بھی کچھ
ایسا ہی ہے ، رمضان کا بابرکت مہینہ عوام کیلئے مسلسل امتحان بن کر آیا ہے
، گرمی کی شدت ہے ، مہنگائی نے نئے سرے پورے جوبن کے ساتھ عوام کی جیبوں کو
خالی کرنا شروع کردیا ہے ، پانی کی اہمیت کا اس سے پوچھیں جو دن بھر روزہ
سے ہو، محنت مزدوری کرے، ٹریفک سے نبزد آزماہوتے ہوتے سخت گرمی برداشت کرکے
جب افطار سے ذرا پہلے گھر لوٹے اور پتا چلے کہ گھر میں العطش العطش ہورہی
ہے اور وہ تکھا ہاراپانی کی تلاش میں چل پڑے ، اب کوئی اس سے کسی سیاسی
جماعت یا حکومت کیلئے اچھے الفاظ کی توقع کی جاسکتی ہے یا اسے کسی سیاست کے
ایمان دار اور بددیانت ہونے پیمانہ ناپنے کی ضرورت محسوس ہوگی ۔ ایک عام
آدمی جس نے صبح سے شام تک کام کرنا ہے اور اس میں سے سرکار کو ٹیکس بھی
زبردستی دینا ہے ، اسے اس کی بینادی ضرورتوں کیلئے خود ہی خجل خوار ہونا ہے
تو اسے کسی سیاستدان کے اچھے برے ہونے سے کیا لینا دینا ، اسے تو ہمیشہ ہی
سے اشرافیہ کو پالنا ہے ، اس کی ہاں میں ہاں ملانی ہے بدلے میں اسے چاہے
ذلت اور رسوائی ہی کیوں نہ ملے، اسے تو خالی نعروں کے پیچھے دوڑنا ہے اور
وہ دوڑتا رہے گا۔
ہر بار جب بھی ملک میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو سیاستدان نئے سے نئے
نعرے ، نئی سے نئی تدبیر لیکر عوام میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور اپنی جادو گری
سے عوام کو ان خالی نعروں ، خام خیال بہتری کی تدبیروں کے چنگل میں ایسے
پھنسا لیتے ہیں کہ ایک عام آدمی اسی میں اپنی بہتری کے خواب دیکھنے لگتا
ہے۔یہ عام آدمی ان کھوکھلے نعروں میں اپنا وقت ، توانائی اور بعض اوقات
پیسہ بھی لگاکر جان ڈالنے کی کوشش کرتا ہے،خالی آوازوں میں نغمگی ڈالنے اور
اسے دلنشیں بنانے کیلئے خود کو سر بازار نچوادیتا ہے ، شاید اسے اس بات کا
احساس ہوچکا ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل اسے انہی لوگوں نے ویسے بھی نچوانا
ہے سو آج ہی سے اس کی مشق شروع کردی جائے تاکہ بعد میں دقت کا کم سے کم
سامنا کرنا پڑے۔
2013میں پی پی پی نے بی بی شہید کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیلا اور پھر
کھیل ہی کھیل میں اس نے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اگلی حکومت نے اس سے
دو ہاتھ بڑھ کر عوام کو اپنے خالی خلائی نعروں کے جال میں پھنسا کر وہ
رسواکیا کہ عوام دو وقت کی روٹی سے آگے کی سوچ ہی نہیں رہے۔پاناما کیس نے
بھی ثابت کردیا کہ ان دنوں کوئی بھی ہمارا پرسان ِ حال نہیں اس کے باوجود ً
تیرے جاں نثار۔۔۔بے شمار ، بے شمار ً کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔
2018کے انتخابات آنے کو ہیں ، ہر سیاسی جماعت رمضان کریم کے بعد پھر سے
سرگرم ہوجائے گی،عوام اپنے ساتھ ہونے والے مظالم اسی طرح سے بھول جائیں گے
جیسے پہلے بھولتے چلے آئے ہیں، سیاستدان عوام پر اپنی محبت نچھاور کریں گے
اور خود کو پارسا ثابت کرنے کی ہر طرح سے کوشش کریں گے ، بلکہ گمراہ کریں
گے بلکل اسی طرح جس 12مئی 2007کو بعض جماعتوں نے سرکاری مشنری بن کر لوگوں
کا سرعام قتل کیا اور آج اس پر صفائی پیش کرتے نہیں تھکتے۔
قول و فعل کا یہ تضاد عوام کو سمجھ لینا چاہئے، سوچ کا ماتم کب تک ہوگا اس
پر توجہ دینی ہوگی، ہمیں ایسا کچھ کرنا ہوگا کہ وہ جو ہمارے لیڈر بنے پھرتے
ہیں ان کے الفاظ کی طرح وہ بھی اکیلے رہ جائیں ، عوام کے دل کا درد محسوس
کرنا کوئی بات نہیں اس کا درما کیا جانا ضروری ہے ، عوام کا درد تھم جانا
چاہئے۔ یہ عوام کی بنیادی ضروریات ہیں جن کا درد سیاستدان محسوس کرتے ہیں۔
اہل ِ سیاست کو اور خود عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ آخر وہ کب تک خالی نعروں
کے پیچھے دوڑتے رہیں گے، کب تک خالی آوازوں کا تعاقب کرتے کرتے زندگی گزار
دینی ہوگی۔
|