ذوالقدر خان (ذولچو)کے ڈر سے راجہ سہ دیو بھاگ کر
کشتواڑ کی طرف بھاگ گیا تھا۔ ذوالقدر خان جو کشمیر سے واپسی پر راستے میں
برفانی تودوں کی نذر ہو گیاتھا۔ راجہ سہدیو کا سپہ سالا رام چندرجو قلعہ
گگنہ گیر میں قیام پذیر تھاکی مدد سے کشمیریو ں نے اپنی مدد آپ کے تحت
معاملات زندگی معمول پر لائے ۔رام چندر کے ہمراہ رنچن شاہ اور شاہ میر بھی
موجود تھے۔ ابھی کشمیریوں کے دل سے ذوالقدر خا ن کاخوف نہیں گیا تھا کہ قوم
کوہستانی نے حملہ کر دیا ۔رام چندر نے رنچن شاہ اور شاہ میر کو اس حملہ کا
بھر پور جواب دینے کا کہا۔ رنچن شاہ نے بغیر کسی خون خرابے کے کوہستانی قوم
کو گرفتار کرتے ہوئے نشان عبرت بنایا۔ رنچن شاہ جو کہ ایک تبتی شہزادہ تھا
اور اپنے چچا سے اختلاف حکومت کرے یہاں آیا تھاکہ اس عمل سے کشمیریوں میں
قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔رنچن شاہ نے اپنی بڑتی ہوئی مقبولیت کے
باعث شاہ میر کو ساتھ ملا کر رام چندر کا کام تمام کر کے کشمیر پر اپنی
حکومت کا اعلان کیا۔رنچن شاہ نے حکومت کشمیر سنبھال کر عدل و انصاف سے
حکومت کرنے لگا۔رنچن شاہ بنیادی طور پر بدھ مت کا پیروکار تھا۔ملک میں سے
شر اور فساد ختم کرنے کے لیے اور امن و امان قائم کرنے لیے رنچن شاہ نے رام
چندر کی بیٹی کوٹہ رانی سے شادی کر لی ۔رام چندر کے بیٹے راون چندر کورینہ
کا خطاب دیتے ہوئے باپ کی جاگیر بدستور اسی کے سپرد کر دی اور تبت کا وہ
علاقہ جو کشمیر کے زیر سایہ تھا وہ بھی اسی کے حوالے کر دیا۔شاہ میر جس کی
مدد سے رنچن شاہ نے حکومت حاصل کی تھی کو ملکی سپہ سالا کے ساساتھ اپنے
بیٹے حیدر خان کا اتالیق بھی مقرر کیا۔جب کشمیر میں مکمل امن قائم ہوا تو
راجہ سہدیو نے کشمیر پر اپنی حکومت کا حق رکھ کر واپسی کا راستہ اختیار کیا
اور رنچن شاہ کی فوج پر چڑھائی کر دی ۔رنچن شاہ نے بھرپور جواب دیا تو
سہدیومایوس ہو کر ناکام لوٹا۔
رنچن شاہ جو کہ بدھ مت کا پیرو کا تھا اور کشمیر میں جنگ و جدل کے باعث لوگ
مذہبی پابندیوں سے عاری تھے۔ہر گھر میں ایک الگ مذہب تھابظاہر تو یہ لوگ
شیو مت کے پیرو کار بنتے تھے ۔اس بے دینی کفیت سے مایوس ہو کر رنچن شاہ نے
مذہب کی تلاش شروع کی۔شاہ میر جو دین اسلام پر کار بند تھ لیکن تمام رعایا
اس سے مذہبی اختلاف کے باوجود اس کے زہد و تقوی اور بہادری کی وجہ سے عزت و
احتام کی بظر سے دیکھتی تھی۔رنچن شاہ نے تمام مذاہب کے حوالے سے غور و فکر
کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہ کل صبح ہوتے ہی جس کو میں سب سے پہلے دیکھوں گا
اس شخص کا مذہب قبول کر لوں گا۔ رنچن شاہ کا محل چونکہ دریا کے بالکل کنارے
پر تھا اور صبح ہوتے ہی اس نے جب دریاکی برف کی کھڑکی کھولی تو دیکھا کی
ایک شخص وہان فجر کی نماز ادا کر رہا ہے۔رنچن شاہ اسلامی اصولوں سے واقفیت
تو رکھتا تھا اور اس نے اس فقیر کو بلا بھیجا۔اس فقیر شخص کا نام عبدالرحمن
المعروف بلبل شاہ تھا۔جو اسی دن خطہ کشمیر میں وارد ہوا تھااور کشمیر میں
دین اسلام کی تبلیغ کی بنیاد بھی حضرت بلبل شاہ نے ہی رکھی تھی۔سب سے کشمیر
میں حضرت بلبل شاہ کے ہاتھ پر کشمیر کے حکمران نے اسلا م قبول کیا۔رنچن شاہ
نے اسلام قبول کرتے ہی اسلامی نام سلطان صدرالدین اختیار کیا۔
سلطان صدر الدین کے اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیر کی عوام کی ایک اچھی خاصی
تعداد نے اسلم قبول کیا اوریوں کشمیر میں 14صدی عیسوی میں اسلام کی آمد
ہوئی۔ سلطانصدرالدین نے اپنے مرشد کے لیے دریائے جہلم کے کنارے ایک خانقاہ
تعمیر کروائی۔مسافر خانہ اور مسجر بھی تعمیر کروائی۔بلبل شاہ کا لنگر جاری
کیا اور لنگر کے لیے پرگنی ناگام کے کچھ گاؤں بھی وقف کیے۔کشمیر میں اسلامی
عمارتوں میں سب سے پہلی یہ ہی دو اسلامی عمارتیں ہیں۔اس محلہ کو بلبل شاہ
کے نام سے موسوم کرتے ہوئے بلبل لانگر(بلبل نگر) کے نام سے آج تک جانا جاتا
ہے۔اس خانقاہ کے ساتھ سلطان صدرالدین نے شاہی محلات بھی بنوائے تھے جن کا
نام و نشان تک مٹ گیا ہے۔ان شاہی محلات کی جگہ حضرت اویسی کا مقبرہ اور
مسجد ریٹن موجود ہے۔زندگی نے وفا نی کی اور 2 سال 7ماہ کی حکومت کے بعد
سلطان صدر الدین جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
سلطان صدر الدین کی وفات کے وقت اس کا بیٹا حیدر خان نابالغ تھا اور ایک
مرتبہ پھر تخت کشمیر پر اختلافات شروع ہوئے۔ کوٹہ رانی جو ایک چالاک خاتون
تھی نے اراکین سلطنت سے مشورہ کرتے ہوئے سابق راجہ سہ دیو کہ بھائی ادیان
دیو جو کہ اس وقت پھکلی میں تھا کوبلایا اور تخت کشمیر اس کے سپرد کر
دیا۔کچھ عرصہ بعد کوٹہ رانی نے بھی اس سے شادی کر لی ۔راجہ ادیان دیو امور
ملکی کی مہارت نہیں رکھتا تھا اس لیے کوٹہ رانی ہی ملکی معاملات خود دیکھ
رہی تھی۔راجہ ادیان دیو کی حکومت میں شاہ میر کو منصب وزارت اورپنجہ بٹ کو
سپہ سالار مقرر کیا گیا۔راجہ ادیان دیو کے ہاں کوٹہ رانی کے بطن سے ایک
بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بولہ رتن رکھا گیا۔اور سپہ سالار پنجہ بٹ کو اس کا
اتالیق مقرر کیا گیا۔کشمیر میں عدل و انصاف اور امن و امان کی فضا ء قائم
تھی کے ترک سپہ سالار دوراون لشکر جرار لے کر ہیرہ پور کے راستے کشمیر پر
حملہ آور ہوا۔ترکوں کے حملے کا سن کر ادیان دیو ملک چھوڑ کر تبت کی طرف
بھاگ گیا لیکن بہادر رانی نے ہمت دکھائی اور مقابلہ کے لیے کھڑی ہو گئی۔اس
مہم جوئی کی بھاگ دوڑ شاہ میر کے سپرد کر دی۔شاہ میر نے لشکر تیار کیا اور
ارد گرد کے راجاؤں کو اپنا حامی بنایا اور مقابلے کے لیے نکلا۔ بھرپور
مقابلے کے بعد ترکوں کو شکست ہوئی اور شاہ میر فاتح ہو کر واپس لوٹا۔شاہ
میر کی بہادری کو دیکھ کر لوگ اس کے گیت گانے لگے۔ شاہ میر کے اس عمل سے
متاثر ہو کر رانی نے شاہ میر کے دونوں بیٹوں (جمشید اور علاؤالدین)کوعلاقہ
کامراج میں اعلی مناصب دیے۔دشمن کو شکست دینے کے بعد کوٹہ رنی نے ادیان دیو
کو تبت سے واپس بلوا بھیجا اور تخت پر بٹھا دیا۔راجہ ادیان دیو کی حکومت
میں پھر کوئی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔15سال تک کشمیر پر امن و امان
سے حکومت کرنے کے بعد ادیان دیو اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا۔
راجہ ادیان دیو کی وفات کے بعد بولہ رتن نابالغ تھا تو کوٹہ رانی نے اپنے
بھائیوں کی مدد سے اراکین سلطنت کے مشورے کے بغیر تاج حکومت اپنے سر پر رکھ
دیا۔ کوٹہ رانی کی اس حرکت سے اراکین دولت مایوس ہوئے اور ملک میں بد امنی
پھیل گئی۔شاہ میر جو عرصہ سے اپنے جد امجدقورشاہ کی پیشن گوئی کوصحیح ثابت
دیکھنے کا خواہشمند تھااندر کوٹ سے سرینگر کی طرف نکل گیا۔سرینگر پہنچتے ہی
شاہ میر نے اراکین سلطنت سے رابطے کیے سب نے اس کی اطاعت قبول کی اور اس نے
کوٹہ رانی معزول کرتے ہوئے تخت حکومت سنبھال دیا۔اس عمل میں پنجہ بٹ نے
بعلہ رتن کی سرپرستی میں مخالفت کرتے ہوئے مقابلے کے لیے نکلا لیکن مارا
گیااور یوں1339میں کشمیر پر شاہ میر کی حکومت قائم ہو گئی۔کوٹہ رانی نے
کشمیر پر محض 50دن تک حکومت کی۔
(٭٭٭٭٭٭٭)
|