کالا باغ ڈیم - پاکستان کی آبی حیات یا موت

آج کل "کالا باغ" کا عنوان ہر خاص و عام کی زبان پر رواں دواں ہے ۔صبح اُٹھ کر اخبارات کا مطالعہ کریں تو فرنٹ پیچ پر کالا باغ شام میں گھر پہنچ کر ٹی وی چینلز دیکھیں تو بھی کالا باغ ۔اسی طرح رات میں چائے کی دُکان والا بھی کالا باغ اور چائے پینے والا بھی کالاباغ کا راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔غرض یہ کہ اس وقت چاروں طرف کالا باغ ،کالا باغ چھایا ہوا ہے۔راقم کے کانوں میں جب یہ بات چاروں جانب سے پڑی کہ کالا باغ ڈیم صحیح ہے یا کالا باغ ڈیم غلط ہے وغیرہ وغیرہ ۔راقم سے رہا نہیں گیا اور سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیوں نہ میں اپنی پاکستانی عوام کو کالاباغ ڈیم کے حوالے سے صحیح آگاہی اور معلومات فراہم کروں تاکہ اُنہیں اس کے بارے میں بلکل صحیح اوردُرست معلومات حاصل ہوجائیں :
اُور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جُرمِ خاموشی ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان کے چاروں صوبوں کی سادہ عوام کو چند سیاست دانوں، قوم پرست رہنماؤں اور سول سوسائیٹزکے نام نہاد رہنماؤں نے اُن کے ذہنوں میں غلط اور بے بنیاد باتیں ڈال دی ہیں یا اُنہیں بھیکایا ہوا ہے کہ کالاباغ بن گیا تو یہ ہوجائے گا اس کا نقصان ہوجائے گااُس کا فائدہ جائیگا۔جبکہ اس کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہے ۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہماری اس سادہ عوام کوکالاباغ ڈیم کے حوالے سے سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی آبی حیات ہے یا موت۔
ابتدائی طور پر کالا باغ کے بارے میں یہ معلومات ہونی چاہئیں کہ کالاباغ کیا ہے ،کہاں واقع ہے اور اس کی وجہ شہرت کیا ہے:
کالا باغ : کالاباغ ایک قصبہ کا نام ہے ۔میانوالی شہر سے 20میل کے فاصلے پر واقع اس قصبہ کو"کالاباغ "کہتے ہیں۔اس قصبے میں پاکستان بننے سے پہلے بے شمار کیلوں کے باغات تھے۔ کیلوں کے یہ باغات دور سے سیاہ رنگ کے باد ل نظر آتے تھے ۔انہیں سیاہ بادلوں کی وجہ سے اس قصبے کا نام کالا باغ پڑگیا۔کالا باغ کی وجہ شہرت دو ہیں۔پہلی وجہ شہرت یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے پہلے گورنر نواب امین محمد خان آف کالا باغ تھے۔دوسری وجہ شہرت کالا باغ ڈیم ہے۔
کالا باغ ڈیم : کالا باغ کے مقام پر پہنچ کر دریائے سندھ نیشنل ڈیم بن جاتا ہے۔1953ء میں عالمی ماہرین نے کالاباغ کے علاقے کو ڈیم کے لئے انتہائی موزوں اور شاندار قرار دیا تھا۔
کالا باغ ڈیم کے التواء کی وجوہات: ایوب خان نے 1960 میں انڈیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان نے انڈیا کو دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے پانی کے بدلے کالا باغ بنانے کی اجازت مل گئی۔کالا باغ ڈیم پر کام شروع ہونے سے پہلے ہی ایوب خان کی حکومت چلی گئی۔ایوب خان کے بعد یحیٰ خان آئے مگر پاکستان بد قسمتی سے دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔اس کے بعد بھٹّو مرحوم آئے تووُہ داخلی سیاست کی نظر ہوگئے۔جنرل ضیاء الحق آئے تو افغان جنگ شروع ہوگئی۔
کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ایک واقعہ: 1984ء میں ضیاء الحق مرحوم نے کالا باغ ڈیم پر کام شروع کیا تو ایک برطانوی کمپنی کو ہائر کیا گیا۔کمپنی کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ1929ء میں نوشہرہ شہر میں سیلاب آیا تھا۔ کمپنی نے سیلاب کے حوالے سے سروے کے لئے اپنے ملازمین کونوشہرہ بھیجا۔برطانوی کمپنی کے ملازمین نے سروے کے دوران معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں اور کچھ گھروں پر نشانات بھی لگائے۔ان نشانات کو دیکھ کر نوشہرہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ تباہ ہوجائے گا۔صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والی جماعت اے این پی، جس کے سربراہ ولی خان مرحوم افغان جنگ پر پہلے ہی ضیاء الحق مرحوم سے ناراض تھے ۔چنانچہ اے این پی نے کالاباغ ڈیم کے ایشو کو اُٹھایااور اس طرح کالا باغ ڈیم کی تعمیر رُک گئی۔ 1984 ء سے2018 ء تک بہت سی حکومتیں آئیں مگر کالا باغ ڈیم کو مکمل نہ کرسکیں اور نہ ہی پاکستان کی معصوم اور سادہ عوام کو اس کے فوائد کے بارے میں آگاہی دی گئی اور یوں ایک نعمت سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے کفرانے نعمت کیا جاتا رہا ہے۔
کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضات: پاکستان کے چاروں صوبوں کے چند سیاست دان، قوم پرست رہنمااور نام نہاد سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد اپنے نظریہ کے تحت وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ اعتراضات اُٹھاتے رہتے ہیں، جو درج ذیل ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ اس تحریر سے عوام الناس کے ذہنوں میں جو اعتراضات اور خدشات بٹھائے گئے ہیں اوران کے دل بھکائے گئے ہیں،اورکوشش کی گئی ہے کہ یقینا آپ تک صحیح آگاہی پہنچائی جائے :
صوبہ خیبر پختونخواہ کے اعتراضات: صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ جو کالا باغ پر اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، دراصل اِن لوگوں کو تو کالا باغ ڈیم کی اصل جگہ کا پتہ ہی نہیں ہے یا اُس کے بارے معلومات کی کمی ہے۔ایک طرف وُہ کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم سے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائن اور تعمیرات پنجاب میں تعمیر ہوں گی تو صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی مانگے گا، صوبہ پنجاب کالا باغ ڈیم سے بننے والی بجلی کی رائلٹی سے پہلے ہی دستبراد ہوچکا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کادوسرا نقطہ یا اعتراض: دوسرا نقطہ جو صوبہ خیبر پختونخواہ کی اکثریت کے ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہر ہ تباہ ہوجائے گا یا ڈوب جائے گا۔ایسا کچھ نہیں ہے جنرل ضیا ء کے دور میں اے این پی کی طرف سے اُٹھائے گئے اس نقطے کو کالا باغ ڈیم کی اونچائی کم کر کے ختم کردیا گیاتھا۔اس کے بعد اے این پی کے ولی خان مرحوم کا اعتراض ختم ہوگیا تھا۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ نوشہرہ سطح سمندر سے تقریبا 889فٹ بلند ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کا تیسرانقطہ یا اعتراض: تیسرا نقطہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی عوام کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کے پی کے کی زمین بنجر اور سیم زدہ ہوجائے گی۔ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم سے زمین کو سیم و تھور کے خطرات لاحق نہیں ہیں۔لیکن اس کے باوجود خدشہ ہو کہ زمین بنجر یا سیم تھور زدہ ہو جائے گی تو ٹیوب ویل اور بڑے پیمانے پر نہریں بناکر اس خدشہ سے بھی باآسانی نمٹا جا سکتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کا چوتھانقطہ یا اعتراض: چوتھا نقطہ جس کا شبہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ہزاروں ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا۔اس کا جواب ہاں میں ہے لیکن آپ کو دُرست حقائق کی آگاہی دینے کے لئے عرض یہ ہے کہ ٹوٹل27500ہزار ایکڑ زمین زیر آب آئے گی لیکن اس ٹوٹل میں سے 24500ہزارایکڑ زمین صوبہ پنجاب میں اور صرف 3000 ہزار ایکڑ زمین صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوگی۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کا پانچواں نقطہ یا اعتراض: پانچواں نقطہ یہ بھی اُٹھایا جاتا رہاہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے کچھ علاقوں کے رہائشیوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں کرنی پڑے گی۔دُنیا میں جب جب اور جہاں جہاں ڈیم تعمیر ہوتے ہیں وہاں راستے میں آنے والی رہائشی آبادیوں کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے اور وُہ بھی اپنی آنے والی نسلوں کی آسانی کے لئے کیونکہ یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہے اور جس کا ثواب تاحیات اِن کو ملتار ہیگا۔
صوبہ سندھ کے اعتراضات: صوبہ سند ھ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے سادہ عوام کے ذہنوں میں خیال اس طرح سے بھردیا ہے کہ دریائے سندھ صوبہ سندھ کا حصہ ہے۔دوسرے یہ کہ پنجاب ہمارا پانی پہلے ہی منگلہ اور تربیلہ کے ذریعے سے چوری کرتا ہے ۔جبکہ یہ صرف اور صرف قیاس آرئیاں ہیں آج تک ایسی کوئی چیزثابت نہیں ہوئی ہے۔جبکہ کہ اصل بات یہ ہے کہ منگلہ اور تربیلہ ڈیم پر ہی پورا پاکستان چل رہا ہے۔
سندھ کی زمینوں کے بنجر ہونے میں انہی پالیسی میکرزکاہاتھ ہے جو کہ تقریبا ہر گورنمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجودآج تک سندھ کی ان بنجر زمینوں اور ہاریوں کے لئے کچھ نہ کرسکے اوراُن سادہ ذہنوں کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ ایک اعتراض یہ نام نہاد لیڈرز یہ بھی اُٹھاتے ہیں کہ سندھ کا پانی کم ہوجائے گا تو یہ بھی بلکل غلط ہے کیونکہ 1991ء میں ڈیم کے حوالے معاہدہ طے پایا تھا کہ کسی صوبے کا پانی کم نہیں کیا جائے گااس لئے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی اورہر صوبے کو اُس کے حصے کا پانی ملتا رہے گااور تقریبا 10ہزار ملین ایکڑ فٹ ایکسز پانی ہر سال سمندر میں بھی گرتا رہے گا۔
اور آپ کی آگاہی کے لئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کالا باغ ڈیم سے سندھ کی زمین کا تقریبا 8لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔دوسری طرف انڈین ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں دریائے سندھ میں کم ہوتے ہوئے پانی سے پورے پاکستان اور خصوصا سندھ میں خشک سالی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
صوبہ بلوچستان کے اعتراضات: صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ سندھ کی طرح صوبہ بلوچستان کو سادہ عوام کو صحیح حقائق کا معلوم ہی نہیں ہے۔یہ بلوچستان کے وُہ قوم پرست رہنما ہیں جوکہ پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں چلارہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کالا باغ سے کوئی نقصان نہیں یہ نہ ہی ہمارے کوئی خدشات ہیں،بس ہم تو یہ کہتے ہیں کہ سندھ جیسے چھوٹے صوبے کو خدشات ہیں تو ہم علامتی طور پر اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ کالا باغ ڈیم سے صوبہ بلوچستان کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوگابلکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے بلوچستان میں بننے والی کچی کنال کو نہ صرف اضافی پانی ملے گابلکہ بلوچستان کا تقریبا 7 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔
کالا باغ ڈیم 1993ء میں آپریشنل ہوجانا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے25سال گزرنے کے باوجود مکمل ہونا تو دور ,کام بھی شروع نہ ہوسکا۔کالاباغ ڈیم بننے کے بعد پاکستان کا50 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہونا تھا۔ایک اندازے کے مطابق نہری زمین کی سالانہ پیدوار تقریبا 3 لاکھ روپے بنتی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ اب تک پاکستان تقریبا 375ارب ڈالر کا نقصان کرچکاہے۔اسی طرح صنعتی پیدوار کی لاگت کا تعین دو چیزوں سے لگایا جاتا ہے،پہلی لیبراور دوسری بجلی۔پاکستان میں لیبر سستا ہے مگر بجلی یا تو ناپید ہے یا اتنی مہنگی ہے کہ اس بجلی سے بننے والی اشیاء کی قیمت دوگنی ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے پاکستانی اشیاء عالمی منڈیوں دوسرے مُلکوں کی نسبت مہنگی ہونے کی وجہ سے مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کرپاتیں،بلکہ اب تو پاکستان کے اندر ہی دوسرے ممالک کی نہ صرف اشیاء بلکہ سبزی اور پھل بھی کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔جو کہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے کہ جاگو اور دُرست فیصلہ کروکہ ہمیں کالا باغ ڈیم پاکستان کی آبی حیات ہے یا موت۔
اﷲ پاک سورۃ رحمن میں فرماتے ہیں کہ اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔درحقیقت کالا باغ ڈیم خداوندتعالیٰ کی اس مُلک پاکستان کے لئے ایک نعمت ہے اور جو قومیں اﷲ کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتی تو اﷲ پاک اُن سے وُہ نعمتیں چھین لیا کرتے ہیں۔میں اس تحریر کے ذریعے سے کوشش کررہاہوں کہ پاکستان کی سادہ عوام کو سادہ الفاظ میں صحیح معلومات فراہم کروں کیوں کہ الیکشن قریب ہیں اور یہ نام نہاد سیاست داں، قوم پرست اورسول سوسائیٹیز کے رہنما الیکشن سے پہلے ایک بریانی کی پلیٹ ، ایک قیمے کے پراٹھے کے بدلے میں ہمارے ووٹ کا سودہ کریں گے اور ہمیں ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی بے وقوف بنائیں گے اور پھر ہمیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، پانی کی قلت کا سامنا کرنے کے لئے بے یارو مدد گار چھوڑدیا جائے گا۔اسلئے پاکستان کی عوام سے درخواست ہے کہ میری سادہ اور پیاری پاکستانی عوام اب آپ کے جاگنے کا وقت ہے آپ ان نام نہاد رہنماؤں اور پالیسی میکرز کی باتوں میں نہ آئیں ۔یہ وُہ ہی لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں ہمیں لسانیت کے کام دیئے ،فرقہ وارانہ فسادات دیئے،خوف کے مارے عزائم دیئے، الٹے سیدھے نعرے دیئے، قلم کے بجائے ہتھیار دیئے ،خون میں لت پت جوان دیئے، پھولوں کے بغیر ہار دیئے، بجلی کے بغیر تار دیئے، گندگی کے ڈھیر وں ڈھیر دیئے ،سیلابوں کے تحائف دیئے، بن پانی کے نلکے دیئے، خشک سالی سے مردہ بچے دیئے، کچرے کے انبار دیئے، ٹوٹے پھوٹے روڈ دیئے، گھٹیاساہوکار دیئے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے واپڈاکے سابق چیئرمین انجینئر شمس الملک نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم سے کسی صوبے کوتو دور کی بات پاکستان کے کسی ایک علاقے کو بھی ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہے۔انجینئر شمس الملک نے یہ بھی کہاتھا کہ ہمیں دو موسم میں پانی کا مسئلہ ہے ۔پہلے موسم میں پانی زیادتی اور جمع کرنے کے لئے ڈیموں کے نہ ہونے سے پانی وافر مقدار میں سیلاب کے ذریعے تباہی پھیلاتا ہے ۔پھر یہ ہی پانی تباہی پھیلاکر وافر مقدار میں سمندر میں چلا جاتا ہے تو مُلک میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔اس لئے اگر کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہوجائے تو پہلے موسم میں ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرلیا جائے اور دوسرے موسم میں پانی کی کمی ہونے پر ڈیم میں جمع شدہ پانی کو استعمال میں لایا جائے ۔کالا باغ ڈیم سے سستی بجلی بھی بن جائے گی اور مُلک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے اور صنعتی پہیہ بھی تیزی سے گھومنے لگے گا۔اِسی طرح کالا باغ ڈیم بننے سے پاکستان کا تقریبا 50لاکھ ایکڑ رقبہ نہ صرف سیراب ہوگا بلکہ مُلک کی زراعت کی پیداوار میں ناقابل یقین اضافہ بھی ہوگا۔
خدارا! کالا باغ ڈیم ہمار ا ہے، ہم سب کا ہے، پورے پاکستان کا ہے،اس پر سیاست کرنا درست عمل نہیں ہے ۔دراصل کالا باغ ڈیم ہی پاکستان کی آبی حیات ہے ۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اﷲ پاک کی جانب سے دی گئی اس نعمت سے من حیث القوم کس طرح سے فائدہ اُٹھائیں یا اپنی آنے والی نسلوں کو پیاسہ چھوڑدیں۔یقینا ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی۔اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم کالا باغ ڈیم کو آبی موت بننے سے روکیں اور کالا باغ ڈیم کو پاکستان کی آبی حیات بنائیں ۔تب ہی ملک خوشیوں کا گہوارہ بنے گا، روشنیوں کا منارہ بنے گا، ساحل کا کنارہ بنے گا، محبت کا استعارہ بنے گا، تکبیر کا نعرہ بنے گا۔ہدایت کا ستارہ بنے گا اور ہم سب کا پیار بنے گا ۔ پھر ہی یہاں ہر شخص خوش ہوگا ،شاد ہوگا اور آباد ہوگا اور کہے گا:
کسی پر حرف آسکے نہ کوئی آنچ ، اس پاک سر زمین کو ایسا وقاردے

Arshad Malik
About the Author: Arshad Malik Read More Articles by Arshad Malik: 2 Articles with 1774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.