بلوچستان کے علاقے مستونگ میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر دہشت
گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا۔ جس میں حملہ آوروں کو ناکام بناتے ہوئے
ہلاک کردیا گیا ۔ مستونگ میں اس قبل بھی کئی دہشت گردی کے واقعات رونما
ہوچکے ہیں۔ جہاں ایک طرف بلوچستان میں دہشت گرد خو ف و ہراس پیدا کرنے کوشش
کی جاتی ہے تو دوسری جانب ملک کے دیگر حصوں میں نظریاتی اساس پر بھی منفی
پروپیگنڈا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں
فاٹا کا انضمام ملک دشمن عناصر کی نظروں میں ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔( سابق
)علاقہ غیر کے نام سے مشہور ،شمالی مغربی سرحدوں پر واقع پختون قبائل کے
علاقوں کو دور ِ برطانیہ نے مخصوص مقاصد کے لئے تقسیم کردیا تھا ۔ تاہم
قیام پاکستان کے بعد (سابق)فاٹا کے ان علاقوں کو عالمی دباؤ کے تحت قومی
دھارے میں شمولیت سے روکا جاتا رہا ۔ ایک مخصوص ذہینت کی وجہ سے شمالی
مغربی علاقوں کو نام کی پہچان دینے میں بھی کئی عوامل کارفرما رہے تاہم
آئینی ترمیم کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کا نام ملنے پر قیام پاکستان کے بعد
پہلی مرتبہ ’’صوبہ سرحد ‘‘کو پہچان ملی۔ تاہم قبائلی علاقوں میں ایف سی آر
کا ایک ایسا کالا قانون نافذ رہا جیسے ہمیشہ غلامی کا طوق سمجھا گیا ۔
صوبائی حکومت کی عمل داری نہ ہونے اور وفاقی حکومتوں کی مصلحتوں نے آہستہ
آہستہ ان علاقوں میں ایسے عناصر کو موقع فراہم کیا جنہوں نے ریاست کے اندر
مختلف ریاستیں قائم کرلیں ۔ حکومتی رٹ کا نہ ہونا جہاں مملکت کے لئے
پریشانی کا سبب بنا اور گھمبیر مسائل نے جنم لیا تو دوسری جانب عالمی
برداری کی جانب سے متشدد گروپوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے دباؤ میں
مسلسل اضافہ ہوا۔فاٹا انضمام کئی اعتبار سے نازک ترین فیصلہ تھا ۔ قومی
ایکشن پلان میں فاٹا کا انضمام ترجیحات میں شامل ہونے کے بعد دیرینہ مسئلہ
کے حل کے لئے توقعات میں اضافہ ہوگیا تھا۔اگر قومی ایکشن پلان میں فاٹا
انضمام شامل نہیں ہوتا تو شائد اب بھی کئی عشروں تک سیاستدانوں کی مفادات
بھینٹ چڑھتا رہتا ۔
افغانستان میں امر یکا کی مداخلت کے بعد پاکستان کو اُن عناصر کے ردعمل کا
سامنا کرنا پڑا جو پاکستان کی جانب سے امریکا کا سہولت کار بننے کے مخالف
تھے۔امریکا جہاں افغانستان میں جنگ ہارتا چلا گیا اور دو عشروں میں اُسے
قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی تو دوسری جانب افغانستان میں پاکستا ن مخالف
قوتوں کا اثر نفوذ بڑھتا چلا گیا ۔ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں سے
جنگ میں مصروف ہوگیا تو دوسری جانب افغانستان میں ملک دشمن عناصر نے اپنی
جڑوں کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔ آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم ،آپریشن راہ نجات
، آپریشن راہ راست ، آپریشن خیبر ون، ٹو ، تھری اور فور( آپریشن راجگال و
شوال) اور آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن رد الفساد نے شدت پسندوں کو پسپائی
پر مجبور کردیا اور انہوں نے پاکستان سے راہ فرار اختیار کرکے افغانستان
میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے۔
افغانستان میں پاکستان دشمن قوتوں نے اپنی بھرپور جگہ بنا لی تھی اس لئے
کابل حکومت کی سرپرستی میں بھارت و امریکا کی خواہش پر پاکستا ن کو غیر
مستحکم کرنے کے لئے مذموم سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ۔ قانون نافذ کرنے
والے اداروں نے اپنی بھرپور کاروائیوں سے ملک بھر میں بڑے دہشت گرد خودکش
حملوں کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شدت پسندوں محدود پیمانوں پر
بزدلانہ کاروائیاں کررہے ہیں۔ سرحدی علاقوں کے قریب قانون نافذ کرنے اداروں
کے اہلکاروں پر بزدلانہ حملوں میں اضافہ کردیا ۔اس بار پھر ان کا ٹارگٹ
بلوچستان و صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے بنے۔ دہشت گردوں کی جانب سے
پاکستانی سرحدوں کو محفوظ بنانے والے اہلکار و افسران کو نشانہ بنایا جانے
لگا جو شدت پسندوں کی آزادنہ نقل و حرکت کو روکنے رکھنے کے لئے جان کی بازی
لگا رہے ہیں۔شمالی مغربی سرحدوں پر باڑ لگانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے
افواج پاکستان نے اٹھانے کا بیڑا اٹھایا اور پہلی بار چیف آف آرمی اسٹاف
قمر جاویدباجوہ نے پاک۔ افغان سرحدوں پر باڑ لگانے کے لئے کسی بھی قربانی
سے دریغ نہ کرنے کا عزم کیا ۔2600کلو میٹر پاک ۔افغان سرحد پر باڑ لگانا
ناممکن پراجیکٹ تھا ۔ پاک افغان بارڈر منجمنٹ سسٹم کے تحت دونوں سرحدوں کے
درمیان حد بندی کے لئے پہلی مرتبہ کسی بھی کوشش کو حوصلہ افزائی میسر نہیں
تھی کیونکہ سینکڑوں برسوں سے ان علاقوں کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی تھی ۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں اور افغانستان کے درمیان کبھی ایسی صورتحال
نہیں آئی تھی کہ پاکستان کو 2600کلو میٹر طویل خار دار تار اور چیک پوسٹس
بنانے کی ضرورت درپیش ہوتی ۔ اب جب کہ وزیرستان میں پاک افغان سرحد پر 128
کلومیٹر باڑ کی تنصیب کا کام مکمل ہوچکا ہے۔شمالی وزیرستان میں80 کلومیٹر
جب کہ جنوبی وزیرستان میں48کلومیٹر سرحد باڑ لگا ئی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ
تکنیکی نگرانی کا نظام میں رات کو دیکھنے والے آلات،اور ریڈار سسٹم اور دور
بینوں کے ذریعے سرحد کی نگرانی پر عمل کیا جارہا ہے ۔ حکام کے مطابق
افغانستان سے متصل سرحد پر اب تک 209کلومیٹر باڑ لگائی گئی ہے، جب کہ اس
سال کے آخر تک پانچ سوکلومیٹر سرحد کو اوردسمبر 2019ء میں830کلومیٹر باڑ
لگا کر منصوبہ مکمل کیا جائے گا، جس پر بارہ ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ واضح
رہے کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کا بہانہ بنا کر بیشتر علاقوں کو متنازعہ
قرار دیتا رہا ہے۔ نام نہاد سیاسی و مذہبی رہنما بھی پاکستان کو خوفزدہ
کرنے کی کوشش میں جتے رہے کہ فاٹا انضمام کی وجہ سے افغانستان کو موقع مل
گیا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو لیکر عالمی فورم میں جائے۔ ملک دشمن
عناصر کے سہولت کار قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دے کر پاکستان کے اندرونی
معاملات میں مداخلت کی پالیسی اپناتے رہے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرد و گرم تعلقات قیام پاکستان سے ہی ہیں ۔
جس میں ایک بڑی وجہ ان علاقوں کی ملکیت پر افغانستان کا دعویٰ رہا ہے جو
پاکستان کی حدود میں شامل ہیں۔ تاہم افغانستان کا جارحانہ ردعمل اُس وقت
زیادہ بڑھ گیا جب بھارت نے امریکا کی ایما پر براہ راست مداخلت شروع کردی
اور افغانستان کی این ڈی ایس اور را نے ملکر پاکستان کے خلاف سازشوں میں
اضافہ کردیا ۔ پاک ۔ افغان بارڈر پر کئی دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جس
میں دہشت گردوں نے پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا اور جانی نقصان
پہنچایا ۔ کابل اور بھارت کی شہ پر دہشت گردوں کی کاروائیوں کا موثر جواب
بھی دیا جاتا رہا ہے جس میں دشمن کو بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔ یہ بات طے
شدہ ہے کہ جنگیں ہمیشہ قوموں کی حمایت اور ایک صف ہونے پر ہی جیتی جاتی
ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شمالی مغربی علاقوں کی عوام نے پاکستانی
فوج کا بھرپور ساتھ دیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کرکے ریاست کی مدد کی
۔تکالیف برداشت کیں اور تمام تر مسائل کے باوجود شورش شدہ علاقوں میں پاک
فوج کی کامیابیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔2600کلو میٹر طویل سرحدی
باڑ لگانے کے ساتھ اب یہ ضروری ہوگیا تھا کہ جہاں پاکستان پہلی بار بین
الاقوامی حد بندی کرکے مملکتوں کے حدود کا تعین کررہا تھا وہاں ان علاقوں
میں مستقل بنیادوں پر ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لئے مربوط حکمت عملی کی
ضرورت تھی۔ملک دشمن عناصر کے سہولت کاروں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا
کہ فاٹا انضمام بیرونی ایجنڈے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے۔ ایسا منفی
پروپیگنڈا کرنے والے شائد ( سابق) فاٹا کی عوام کی تکالیف کو مخفی رکھنا
چاہتے ہیں جو انہیں مطلق العنان پولیٹیکل ایجنٹ کی وجہ سے ملتی تھی ۔ ایف
سی آر ایک ایسا کالا قانون تھا جس کے خاتمے کے لئے کوشش ایک صدی سے زیادہ
عرصہ جدوجہد پر محیط ہے۔( سابق) فاٹا کے عوام کی برسوں سے دلی خواہش تھی کہ
ایف سی آر کا خاتمہ ہو اور ان کے علاقے پاکستان کے آئین کے مطابق نقشے کا
حصہ بنیں۔
فاٹا کا انضمام سرحدی علاقوں اور عوام کو پاکستان کے ہر شہری کی طرح حقوق
دینے کے لئے بڑا سنگ میل تھا ۔ ملک دشمن عناصر سمجھ چکے تھے کہ علاقہ غیر
بناکر عوامی حقوق سلب کرنے والوں کی سیاست کاخاتمہ ہونے والا ہے اس لئے
انہوں نے ایسے اقدامات شروع کردیئے جس سے عوام کا اپنی فوج و ریاست سے
اعتماد اٹھ جائے۔یہ ایک خطرناک سازش تھی کیونکہ یہ سازش ہمدردی اور فریب کی
چادر میں لیپٹی ہوئی تھی ۔ چہرے پر معصومیت کا جھوٹا نقاب اوڑھ کر عوام کے
جذبات سے کھیلنا مقصود تھا۔ بڑے منظم اندا ز میں ماضی میں ناکام رہنے والی
نام نہاد تحریک کا نام بدل کر کراچی پولیس کی نا اہلی نے ایسی قوتوں کو
موقع فراہم کردیا جن کا مقصد اداروں کے خلاف دشنامی طرازی کرنا تھا ۔ عالمی
اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی ان مہروں کو استعمال کرنے کا بھرپور موقع میسر آگیا
اور انہوں نے عالمی ذرائع ابلاغ میں کھل کر پاکستان کے اداروں کے خلاف
پروپیگنڈا مہم کوشہ دی۔ بد قسمتی سے پاکستان میں چند ایسے عناصر بھی اس نام
نہاد تحریک کے ہمنوا بن گئے جو ہمیشہ سیاسی یتیم رہے ہیں یا پھر انہیں پے
رول پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لاف گزنی کے لئے رکھا گیا تھا ۔
سوشل میڈیا کو ایک بڑے ڈیجٹیل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور
دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں جعلی اکاؤنٹس پاکستان دشمن سرزمین سے آپریٹ ہونا
شروع ہوگئے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک ایسی بڑی
تعداد شامل ہے جو واجبی تعلیم رکھتے ہیں۔ لہذا جب بات قوم پرستی اور لسانیت
کی عود آئی تو کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا متاثر ہونا ناقابل فہم نہیں تھا
۔ کیونکہ یہ سب ایک منظم ملک دشمن ایجنڈے کے تحت کیا جارہا تھا ۔ ایسے
مذموم ایجنڈے کا موثر جواب دینے کے لئے حکومت نے مناسب حکمت عملی بروقت
اختیار نہیں کی۔ ریاست کی جانب سے نام نہاد تحریک کے مضمرات کو روکنے میں
سہل پسندی کا مظاہرہ کیا گیا اور سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑوں کو امن کے
کھیت کچلنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ۔ یہاں ریاست کے نظریات کو ضرب
پہنچانے کی ایک سازش کو بڑے منظم اندا ز میں پھیلا جارہا تھا تو دوسری جانب
ایسی قوم پرست جماعتوں کو ملک دشمن عناصر نے استعمال کرنا شروع کیا جنہوں
نے ہمیشہ پاکستان کی وحدت کے بجائے صوبائیت و لسانیت کو ترجیح دی۔ بدقسمتی
سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے لئے ایسی مذہبی قوتیں بھی شامل ہوگئیں
جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے قائد اعظم کو کافر اعظم اور
پارلیمنٹ میں خود کو پاکستان بنانے کے جرم میں شامل نہ ہونے کا افسوس ناک
بیان دیا تھا۔ان کے نزدیک فاٹا انضمام ایک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تھا کہ اس
طرح صوبہ بنا کر صوبائی خود مختاری کی آڑ میں وفاق کے خلاف آستین چڑھائے
رکھیں گے۔ ( سابق) فاٹا کی عوام کی اکثریت کا یہ فیصلہ تھا کہ صوبہ بننے کے
بعد اس کے نظم و نسق و اخراجات سمیت دیگر مسائل کو اُن علاقوں کی عوام
کماحقہ نبر الزما نہیں ہوسکیں گے جہاں ہمیشہ پولیٹیکل ایجنٹ نے کالے قانون
کے نام پر انہیں محکوم بنائے رکھا اور تمام علاقوں کو پس ماندہ اور پاکستان
کے دیگر علاقوں سے دور رکھا ۔ صوبائی حکومت میں شمولیت سے ( سابق) فاٹا کے
عوام میں خود اعتماد ی اور سسٹم کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ
سیاسی شعور کی بلوغت بہتر عمل ہوگا ۔
اب تین محاذوں پر قومی سلامتی کے اداروں کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑنا
پڑ رہا تھا ۔ ایک جانب بھارت اور افغانستان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو
فرقہ وارنہ ، لسانی اور نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی کرانے کا ٹاسک دیا گیا
جس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کی سرزمین کو شام و
عراق کی طرح فرقہ وارنہ خانہ جنگی میں الجھانے کے منصوبے کو ناکامی کا
سامنا ہوا ۔ اسی ضمن میں اربوں روپوں کے فنڈ سے بلوچستان میں نام نہاد قوم
پرست دہشت گرد تنظیموں کو بھارت سپورٹ کررہا تھا جس میں پاکستان مخالفت کے
علاوہ سسٹم سے ناراض ایسے نوجوانوں کی برین واشنگ بھی تھی جو سرداروں ،
ملَکوں اور جاگیرداروں کے ظلم کی وجہ سے مشتعل تھے ۔ ایسے نوجوانوں کے
جذبات کو ملک دشمن عناصر نے وطن عزیز کے خلاف استعمال کرنے کی سازش اپنائی
اور مملکت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ریاست نے ایسی مہمات کو
ناکام بنانے کے لئے جہاں ناراض نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کیا بلکہ
ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لئے مربوط حکمت اختیار کی گئی جس کی وجہ سے
نوجوان پہاڑوں سے اتر کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جمع کرانے کے
لئے تیار ہوئے ۔ ایک بہت بڑی تعداد نے ماضی کی روش سے قطع تعلقی اختیار کی
۔ قومی سلامتی کے اداروں کو ایسے عناصر کا سامنا بھی تھا جو نظریاتی طور
قوم پرستی کے فسوں سے غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو اپنے مقاصد کے لئے
استعمال کرنا چاہتے تھے۔یہ ایک بہت حساس معاملہ تھا اور نظریات کے پل صراط
پر چلنے کے لئے بڑی احتیاط کی ضرورت تھی ۔ کیونکہ چھوٹی سے غلطی بڑے نقصان
کا سبب بن سکتی تھی ۔ اس لئے بڑی احتیاط کے ساتھ ایسے عناصروں کے پھن کو
کچلنے کی ضرورت تھی جو محب الوطن پاکستانیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا
سبب بن رہے تھے ۔ قومی سلامتی کے اداروں نے جائز مطالبات کو فوری حل کرنے
اور جائز مطالبات کی آڑ میں ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کی
سازشوں کا ناکام بنانے کے لئے موثر حکمت عملی اختیار کی اور بتدریج
پاکستانی عوام کو احساس ہوگیا کہ ان کا مقصد دراصل پاکستان کے خلاف سوچا
سمجھا منصوبہ تھا جس کی ہدایات اور فنڈ انہیں ملک دشمن عناصر فراہم کررہے
تھے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں ( سابق) فاٹا کے انضمام کے بعد جہاں منفی
سیاست کرنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا تو دوسری جانب قوم پرستی کے منفی
جذبات سے فائدہ اٹھانے والوں کو شکست ہوئی اور ان کا اصل چہرہ مزید آشکارہ
ہوا جب گزشتہ دنوں ’ وانا ‘ میں پرتشدد ہنگامے کرکے مسلح افواج کے خلاف
عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی ۔ مارچ 2007ء کے ایک معاہدے کے تحت وانا
بازار کے سکیورٹی کا انتظام امن کمیٹی کے سپرد تھا۔تاہم نام نہاد تحریک نے
امن عمل کو متاثر کرنے کے لئے امن کمیٹی کے اراکین پر حملہ کردیا بلکہ ان
کے کمانڈر عین اﷲ کے گھر، دفاتر اور چوکیوں کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا ۔
عیدالفطر کے بعد وانا میں احمدزئی وزیر، اتمان زئی وزیر، دوتانی، سلیمان
خیل، داوڑ اور دیگر قبائل کا ایک بڑا جرگہ منعقد کیا جائے گا۔
تسلسل کے ساتھ چیک پوسٹوں کو مقامی انتظامیہ کے سپردگی ، اور کئی چیک پوسٹ
کو ختم کرنے کے بعد بے بنیاد پروپیگنڈے اپنی موت آپ دفن ہوئے۔لیکن ملک دشمن
عناصر اپنی ناکامیوں پر بل کھاتے ہوئے ( سابق) فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا
کے انضمام پرچراغ پا ہوگئے اور تمام اخلاقی حدیں پار کرکے پاکستان کے داخلی
معاملات میں مداخلت کرنے پر مجبور ہوئے اور قابل مذمت احتجاج کیا ۔ لیکن
پاکستان جانتا تھا کہ کابل کی جانب سے ( سابق) فاٹا کے انضمام پر احتجاج
دراصل عالمی اسٹیبلشمنٹ کا وہ ایجنڈا ہے جس کا مقصد پاکستان کو اپنے مذموم
مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا۔پاکستان نے فاٹا کے انضمام پر افغان پریس
ایجنسی کی جانب سے افغان قیادت سے منسوب بیان کو مسترد کریا گیاتھا۔ ترجمان
دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ فاٹا کے انضمام پر
ہماری پارلیمان کا فیصلہ قبائلی علاقوں کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے دو طرفہ تعلقات کے عمل میں
مداخلت نہ کرنے کے اصولوں پر عمل نہ کرنا افسوسناک ہے۔مملکت میں سیاسی عدم
استحکام کے ساتھ ساتھ قومی انتخابات کے نازک وقت میں ملک دشمن عناصر کی
جانب سے پاکستان کی مشرقی و شمالی مغربی سرحدوں پر در اندازیوں کا سلسلہ
دراز کردیا گیا ۔ بھارت ایک جانب مشرقی سرحدوں پر نہتے اور عام شہریوں کو
نشانہ بنا کر عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ قائم کررہا تھا تو
دوسری جانب افغانستان سے دہشت گردوں نے کابل حکومت کی شہ پر پاک۔ افغان
سرحدوں پر باڑ لگانے اور چیک پوسٹ بنانے کے عمل کی نگرانی کرنے والے فوجی
جوانوں اور افسران کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں اضافہ کردیا ۔پاکستان کی
مسلح افواج نے دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائیوں کا بھرپور جواب دیا اور
حملہ آوروں کو ہلاک کیا ۔ پاک ۔افغان سرحد پر حفاظتی باڑ گوکہ دونوں ممالک
کے لئے اہم ترین ہے لیکن اس حوالے سے پاکستان کی حوصلہ افزائی یا کمک کے
لئے امریکا ، نیٹو اور افغان سیکورٹی فورسز کا کوئی تعاون شامل نہیں ہے۔
پاکستان اپنے جوانوں کی قربانیاں دے رہا ہے اور مملکت کی سرحدوں کو محفوظ
بنانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کررہا ۔
پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور افغانستان میں امن سے ہی خطے میں
بے امنی کا خاتمہ ہوگا ۔ پاکستان اپنی سر زمین کے تحفظ کے لئے عالمی قوانین
کے مطابق اقدامات کررہا ہے جس کا براہ راست فائدہ بھی افغانستان کو پہنچے
گا ۔ ان حالات میں پاکستان جب اپنی داخلی نظام کی خرابیوں کو درست کرنے کی
کوشش کررہا ہے تو اُن عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو عالمی
اسٹبلشمنٹ کے مفادات کے لئے خطے میں استحکام نہیں چاہتے ۔ نام نہاد تحریکوں
اور نام نہاد علیحدگی پسند تنظیموں کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ من
الحیث القوم ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ ہم سازشی ٹولوں پرکڑی نظر رکھیں ۔
افغانستان خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ و بردارانہ
تعاون کرے ۔ اقتدار کے حصول کے لئے خطے کو بے امنی کی طرف دھکیل دینا کسی
بھی ملک کے فائدے میں نہیں ہے۔ فاٹا انضمام اور بارڈر منجمنٹ سسٹم پر
پاکستانی قوم کو بھرپور اعتماد ہے اور ریاستی اداروں کے ساتھ شانہ بہ شانہ
کھڑے ہیں۔ اس وقت ریاست کو جہاں بزدل دشمنوں کی جانب سے دہشت گردی کا سامنا
ہے تو دوسری طرف نظریاتی اساس کے خلاف مذموم پروپیگنڈے کے تحت پاکستان کی
عوام کو اداروں کے خلاف مشتعل کرنے اور خانہ جنگی کرانے کی مذموم سازشیں
بھی کی جا رہی ہیں ۔ جسے محب الوطن عوام نے ملکر ناکام بنانا ہے۔
|