ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی

ایسی خبریں پڑھ کر لگتا ہے کہ وہاں ملک دشمنوں کو پکڑا بھی جاتا ہے اور سزا بھی دی جاتی ہے کیوں کہ وہ ملکی راز اور معلومات دوسرے کو بہم پہنچانے کا مجرم تھا۔ ظاہر ہے اس سے ملک کی سلامتی کو شدید نقصان ہوتا اور دوسری خاص بات یہ کہ عدلیہ بلا کسی تفریق فیصلے دو دھائی سال میں ہی کر دیتی ہیں۔ ایران ہمارا برادر اور پڑوسی ملک ہے وہ ایک اسلامی انقلاب سے گزرا اس انقلاب کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی پزیرائی حاصل تھی ۔ وہاں چوروں غیر ملکی ایجنٹوں کو بلا کسی تفریق پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ایران کا شاہ دنیا کے دونوں بڑے بلاکوں کا عظیم دوست تھا۔ کیا ہوا جب انقلاب آیا وہ طاقتیں شاہ کو عوامی قہر سے نہ بچا سکیں ۔ اور شاہ راندئے درگاہ ہو کر دو گز زمین بھی اپنی سلطنت میں نہ پا سکا۔

لیکن اس انقلاب کو عوام نے اپنے خون سے سینچا، اسی ایران میں ایک سپر پاور نے اپنی ایمبیسی کے مغوی افراد کو رہائی دلانے کا منصوبہ بنایا جنہیں ایرانی طلبہ نہ ایک سال سے یرغمال بنایا ہوا تھا ۔ اس سپر پاور کو زعم تھا کہ رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کر کے اپنے لوگوں کو چھڑا لیں گے لیکن کیا ہوا۔ امریکیوں کا منصوبہ ناکامی پر اختتام پزیر ہوا ۔ اور ایرانیوں سے ان افراد کو رہائی کے لئے ایک معاہدے پر راضی ہونا پڑا اسکے بعد ہی ان افراد کی رہائی عمل میں آئی اس معاہدے میں امریکیوں کو پابند کر دیا کہ وہ بلا واسطہ یا بلواسطہ ایران کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ۔ ایران میں پچاس کی دھائی میں سی آئی اے کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر امریکیوں کو لتاڑا اور پابند کیا کہ ایسے واقعات امریکی سی آئی اے نہیں کرے گی۔ لیکن امریکہ اپنی فطرت سے باز نہ آیا اور اس نے صدام حسین کو مسلح کر کے ایران سے جنگ کروائی جو دس سال جاری رہی، لیکن یہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی اس نے بڑی کامیابی سے اپنے ملک کے چپے چپے کا دفاع کیا۔ امریکیوں کی اس سازش کو ناکامی سے ہمکنار کیا۔ لیکن صدام کی ناکامی پر امریکیوں نے صدام کو سزا دینے کے اقدامات شروع کر دیے۔ چونکہ وہ امریکی توقعات پورے کرنے میں ناکام رہا تھا۔ حالانکہ وہ پورا دور امریکیوں کے احکامات پر عمل درآمد کرتا رہا۔ لیکن جب اسکی ضرورت ختم ہو گئی تو عراق پر اپنا غلبہ حاصل کر کے اسے تختہ دار پر بھی چڑھا دیا ۔ افعانستان جنگ کے دوران پاکستان کی طرح ایران بھی ان مسائل سے نبرد آزما رہا اس کو عراق اور افغانستان میں بھی چیلنجوں کا سامنا رہا وہ بھی طالبان کا مخالف ملک تھا اور اس نے کھل کر انکی مخالفت کی لیکن اپنی پالیسی ملکی سالمیت اور قومی مفاد سامنے رکھ کر بنائی اور سختی سے اس پر کاربند رہا ۔ اس میں اسے امریکا کا ہم خیال بھی ہونا پڑا لیکن اس کا اپنا ایجنڈا تھا اسلئے اسکے ملک میں مداخلت کسی طرف سے نہیں ہوئی۔ ادھر ہم ہیں اس پراکسی وار کو اپنے ملک میں لانے میں امریکیوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بالکل محالف سمت میں چل پڑتی ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایران پر مستقل پابندیاں عائد رکھیں لیکن شاباش ہے اس قوم پر کہ تمام پابندیوں کے باوجود اپنے ملک کو خود کفیل بنانے میں سرگرم عمل ہیں۔ اور بڑی حد تک اس میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان کو سستی بجلی مہیا کرنے کو تیار ہیں لیکن ہم امریکی ناراضگی کے خوف میں مبتلا ہو کر اس سے سستی بجلی نہیں حاصل کرتے ۔ ہمیں اپنے ملکی مفاد سے زیادہ غیر ملکی مفادات عزیز ہیں ۔ ایک خود مختار ملک اپنے معاملات میں خود مختار ہوتا ہے ایران اس کی بہترین مثال ہے۔ پالیسی میں بعض اوقات کچھ جھول رہ جاتے ہیں یہ ایک معمول کا حصہ ہے اس میں بہتری اور تبدیلی وقت کے مطابق ہوتی رہتی ہے لیکن بالکل متضاد تبدیلی نہیں ہوتی۔

ہمارے ہاں تو حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بالکل متضاد پالیسی بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ غیر ملکی ہدایات پر اپنی ملک کی اندرونی اور بیرونی مفادات کو گرویں رکھ کر ان کے مطابق پالیسیوں کا انعقاد کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن اور غداری کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں، اسے ایک طرح سے جائز ہی تصور کر لیا گیا ہے، آپ ملک کے راز بیرونی ملک دے دیں کوئی فکر نہ کریں، آپ انڈین ٹینکوں پر بیٹھ کر ملک فتح کرنے کی بات کریں، آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا، آپ پڑوسیوں کو آئی ایس آئی کا ریکارڈ اور سکھوں کی لسٹ فراہم کر دیں آپ بالکل بے فکری سے ملکی سیاست میں بھی کلیدی کردار ادا کریں، آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت بالکل نہیں۔ اب اور کیا لکھیں آپ ملک توڑنے پر بھی مجرموں کا تعین نہ کریں، ان کو تمام اعزازات سے نوازیں، تمام بینفٹ عنایت کریں۔

مسئعلہ کشمیر پر اپنا مؤقف تاشقند میں تبدیل کر لیں اور انڈین موقف کو قبول کر لیں اور پھر دوبارہ شملہ میں تصدیق بھی کر دیں ۔ اور عوام کو کشمیر کے مسئلے پر بیوقوف بناتے رہیں انڈیا سے ایک بات اپنے فائدے میں نہ منوا سکیں اسی کو کامیاب پالیسی بھی کہتے ہیں۔ دراصل لفظ غدار تو مخالفین کی آواز دبانے کے لئے ہمارے ہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے مشرقی پاکستان میں غدار تھے، پھر سندھ میں غداری کے لیبل، بلوچستان میں غداری کے لیبل، آجکل بلوچستان میں غداری کے لیبل لگائے جا رہے ہیں۔

قانون کسی ملزم کو مجرم ثابت کرنے اور اسکو پکڑ کر پھانسی دلوانے سے معذور ہے۔ روائتی علاقائی اور برٹش دور کے پلے ہوئے بدمعاش اپنی بدمعاشیاں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں انہیں کسی کا خوف نہیں قانون کی دھجیاں کھلے عام اڑاتے ہیں اگر کوئی ان کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو سیالکوٹ کے واقعات دھرا کر عبرت ناک انجام تک پہنچانے کا اپنا حق استعمال میں لاتے ہیں۔ اور ہمارا پریس اور عدلیہ چند روز بیانات دے کر اسے سرد خانے کی نظر کر دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی آپ غلط بیانی کر کے سیٹ حا صل کر سکتے ہیں اسپیکر اور الیکشن کمیشن کسی تحقیق کے بغیر آپ کو الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دے سکتے ہیں۔ اس غلط بیانی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ا گر معلوم ہو بھی جائے تو فکر کی کوئی بات نہیں کوئی کاروائی عوامی غضب کے باعث کرنی پڑ جائے تو اسے اس سست رفتاری سے چلایا جائے گا کہ ان کا ٹرن اوور پورا ہو جائے گا ۔ بے چارے کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلی میں آئے ہیں۔ انہیں ان کا پیسہ بنانے کی بھی حکومت پہلوتہی ان کے مفاد میں ہوتی ہے۔

بالکل ایسے ہی حالات ایران کے شاہ نے ملک میں بنا رکھے تھے پھر انقلاب اور لوگوں نے اپنے ملک کو ایسے لعنتی حکمرانوں اور لٹیروں سے پاک کر کے ایک صحیح معاشرے کی بنیاد رکھی۔ جس کا ساتھ ملک کی غالب اکثریت نے دیا آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ایران تمام ترین پابندیوں کے باوجود مسلم ممالک میں ہر لحاظ سے آگے ہے وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے اپنا سٹلائیٹ چھوڑا ہے جس سے وہ دشمنوں کی کڑی نگرانی کرتا رہتا ہے ۔ وہاں غیر ملکی مداخلت کا سوچتے ہوئے لرزتے ہیں۔ وہاں غداروں اور چوروں کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چوروں اور لٹیروں کو بڑے بڑے اعزازات سے نوازہ جاتا ہے۔ کوئی ادارہ تو ایسے اقدامات کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن وقت آگاہ کر رہا ہے کہ عوامی انقلاب آنے کو ہے۔ وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے کر انصاف کے تمام تقاضے خود پورے کرے گا۔

انقلاب ایران اس کی بہترین مثال ہے نہ امریکی مداخلت رہے گی نہ ڈرون حملے ہونگے نہ ٹارگٹ کلنگ کے مجرم بچیں گے نہ ایک دوسرے پر الزامات تھوپے جائیں گے۔ نہ موروثی بد معاش رہیں گے نہ غریبوں کا خون چوس کر پیسے باہر بھیجنے والے رہیں گے۔ پھر ہم کسی طرح کی مداخلت کا شکار نہیں ہونگے۔ نہ ہمارے دشمن ہمارے لوگوں کو اکسا کر ملک میں گڑبڑ کرا سکیں گے ۔ کیونکہ ملک غداروں سے پاک ہو گا عدلیہ کیسوں کی سماعت جلد کرنے لگیں گی لوگوں کو انصاف جلدی ملنے لگے گا ، عوام کو بنیادی سہولتیں آسانی سے اور سستی دستیاب ہونگی کیوں کہ ذخیرہ اندوز ملک میں نہ ہونگے ،بجلی بھی وافر ہوگی کیوں کہ چوری نہیں ہوگی عوام یہی سہولیات چاہتے ہیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82067 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More