آئی ایم ایف اور ورلڈبینک
ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں
سال 2010 میں ملک میں مہنگائی کے ذمہ دار......آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک
ہیں
خاص طور پر امریکی اور یورپی عیسائیوں سمیت دنیا بھر میں بسنے والے
پاکستانیوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ سانحہ 9/11 اُس
صیہونی سازش کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے اسرائیل امریکا اور یورپ میں آباد
اپنے یہودیوں اور عیسائیوں کی مدد سے افغانستان کو نشانہ بنانے کے بعد مسلم
دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت پاکستان کو بھی شدید نقصان پہنچانا چاہتا ہے
کیونکہ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اسرائیلیوں کو اِس کا
اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ اسلام کے خلاف اِن کی، کی جانے والی ہر سازش کا
توڑ آج اگر دنیا میں کسی مسلم ملک کے پاس ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہی
ہے اور اِنہیں یہ بات بھی خوفزدہ کئے رہتی ہے کہ پاکستان ہی دنیا کا ایک
ایسا اسلامی ملک ہے جس کی پوری بنیاد ہی حقیقی معنوں میں اسلامی اُصولوں
اور ضابطوں کے مطابق رکھی گئی ہے یوں وہ یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں
کہ پاکستان ہی اسلامی دنیا کا وہ واحد انتہائی جذباتی اور ایک ایسا اسلامی
ملک ہے جس کی اساس ہی اسلامی ہے یوں یہ ہی وہ اسلامی ملک ہے جو اسرائیلیوں
کی دنیا بھر میں کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کا ڈٹ کر
مقابلہ کرنے کی ہمت اور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔اور شائد یہی وجہ ہے کہ
اسرائیل کے اشارے پر بالخصوص ہمارے ہمدرد اور دوست کی شکل میں امریکا ہمارے
ملک کے اسلامی قوانین اور اُصولوں میں گاہے بگاہے ترامیم کرتا رہتا ہے جیسے
اِن دنوں اِس کا زیادہ تر زور توہین رسالتﷺ کے قوانین میں فوری ترامیم کے
لئے ہے۔ جس کے خلاف پاکستان کی سترہ کروڑ عوام کمربستہ ہے اور وہ یہ تہیہ
کئے ہوئے ہے کہ ہم امریکا،اسرائیل اور بھارت کے اشاروں پر کسی بھی صُورت
میں اپنے توہین رسالتﷺ جیسے کسی بھی اسلامی قانون میں حکومت کو ترامیم نہیں
کرنے دیں گے یہ ہمارے ایمان اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جِسے ہم کسی بھی
حال میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔
اور وہ دوسری طرف اسرائیلی اِس لحاظ سے بھی پاکستان کے لئے شدید نفرت رکھتے
ہیں کہ یہ دنیا کا وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے اپنے وجود کے گزشتہ63سالوں
کے دوران کسی بھی موقع پر اِس سے کسی بھی قسم کے رابطے استوار نہ رکھ کر
اِس کی عالمی حیثیت اور اہمیت کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔اور شائد
یہی وہ وجہ ہے کہ ہر زمانے میں اسرائیلیوں کی پاکستان کے ساتھ نفرت کا
اظہار کسی نہ کسی بہانے جاری رہا۔اور اَب تو پاکستان سے اسرائیلیوں کی نفرت
کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسرائیل اپنے مفادات کے لئے امریکا اور
بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو معاشی واقتصادی ،سیاسی ،مذہبی اور اخلاقی
طور پر بھی ہر میدان میں نقصان پہنچانے کے حربے استعمال کر رہا ہے۔
اگرچہ 9/11کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد سابق امریکی صدر بش سے متعلق
اِن کی جوڈا اور قدیم یہودی فرقے فریسی سے نسبت ظاہر ہونے کے بعد اَب اِس
شک و شُبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ اسرائیلیوں کی تیار کردہ
سانحہ نائین الیون کی گریٹ اسرائیلی سازش میں 2000 میں نئے امریکی صدر بننے
والے جارج ڈبلیو بش بھی شامل ہیں جن سے متعلق اَب یہ پورے یقین کے ساتھ کہا
جارہا ہے جارج ڈبلیو بش کا امریکی صدر بنتے ہی بش فیملی نے ہمیشہ اپنی نسبت
رائل ہاؤس آف جوڈا سے جوڑنے میں فخر محسوس کیا یہاں میں اپنی بات آگے
بڑھانے سے پہلے اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافے کے لئے یہ عرض کر
دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بش فیملی خود کو رائل ہاؤس آف جوڈا سے اپنی نسبت
یوں جوڑا کرتی تھی کہ سابقہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کرپٹو یہودی تھے مگر
اُنہوں نے اپنے صدر بننے سے قبل یہ راز چھپائے رکھا اِس طرح وہ عیسائی بن
کر امریکا میں بسنے والے عیسائیوں اور مسلمانوں سے بھی ہمدردیاں حاصل کرتے
رہے اور یہودی تو تھے ہی اُن ہم عقیدہ ......اور بالآخر اِن کا یہودی ہوتے
ہوئے عیسائی بنے کا یہ بہروپ صدراتی اُمیدوار کی حیثیت سے عیسائیوں اور
مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور وہ یوں امریکی صدر بن بیٹھے
اِن کے اِس راز سے پردہ تو اُس وقت اُٹھا جب اُن کی فیملی اور اُنہوں نے
امریکی صدر بننے کے ساتھ ہی اِس کا فخریہ اظہار کرنا شروع کیا کہ اِن کی
نسبت رائل ہاؤس آف جوڈی سے ہے (جس کی تفصیل میں مندرجہ بالا سطور میں بیان
کرچکا ہوں اور مزید یہ کہ سابقہ امریکی صدر جارج بش سے متعلق تحقیق نگاروں
نے وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز کے حوالے سے یہ بات بھی تحریر کی ہے کہ
جارج ڈبلیو بش ایک قدیم اُس یہیودی فرقے جِسے” فریسی“ کہا جاتا ہے اِس سے
تعلق رکھتے تھے جس نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو مصلوب کیا تھا اور خود کو
یہ شاطر اور ظالم یہودی فرقہ ”جی سیوس کرسچٹ JESUS CHRISTکہلاتا ہے)۔اور
اَب سابقہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے متعلق یہ ساری حقائق منظرِ عام پر
آجانے کے بعد امریکی اور یورپی عیسانیوں کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشیں
کرلینی چاہئے کہ امریکی صدر بش عیسائی نہیں بلکہ یہودی تھے اور ایک ایسے
یہودی جو اپنے گریٹ اسرائیل منصوبے کے لئے امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک
میں اپنے ایجنڈوں کے زریعے وہ سب کچھ کرواسکتے ہیں کہ جن کا تصور بھی دنیا
میں اسلام سمیت تمام ادیان کے امن پسند پیروکار نہیں کرسکتے اور آج دنیا
گیار ہ سال بعد یہ سمجھنے اور کہنے کے قابل ہوچکی ہے کہ امریکی گود میں
پلنے والا بغل بچہ اسرائیل صدر بش کے دورِ حکومت میں اپنے مفادات اور گریٹ
اسرائیل منصوبے کی تکمیل کے خاطر امریکا کو داؤ پر لگا چکا ہے کیونکہ سانحہ
نائن الیون کی ساری سازش خود امریکی صدر بش نے خود موساد کے ساتھ مل کر
تیار کی تھی اور جس کے بعد میں سارا کا سارا ملبہ مسلمانوں کے کاندھوں پر
ڈال دیا گیا( اور اِس طرح بش نے اپنی سازش سے مسلم دنیا کے لئے نائن الیون
کا ایک ایسا گھناؤنا منصوبہ ترتیب دیا کہ ساری اُمت مسلمہ کو دہشت گرد قرار
دے کر اِس کے لئے دنیا میں ترقی اور خوشحالی کی تمام راہیں تنگ کردیں)اور
اِس سانحہ کے مجرموں کی تلاش کے لئے سابقہ یہودی امریکی بش نے دانستہ طور
پر افغانستان کا رُخ کیا اور افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوکر اِس
کو بھی غیر مستحکم کرنے کی سازش تیار کی۔
میں یہاں اِس کی مزید تفصیل میں جانا بہتر نہیں سمجھتا ہوں کیوں کہ اِس سے
متعلق اتنا کچھ کہا،سُنا، لکھا اور دکھایا جاچکا ہے کہ سارا کچھ ایک صاف و
شفاف آئینے کی طرح سب کے سامنے ہے بہرحال ! میں یہاں یہ بیان کرنا ضرور
چاہوں گا کہ سانحہ نائن الیون کے بعد یہودی امریکی صدر بش نے اپنے ٹریڈ
سینٹروں کی ہولناک تباہی میں ملوث مجرموں کی تلاش کے بہانے جس انداز سے
افغانستان میں گھونسنے کے لئے پاکستان کے اُس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز
مشرف کو دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے سمیت سانحہ نائن الیون کے مجرموں کو
کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے صرف ایک فون کال پر اپنی اِس دھمکی کے ساتھ
کہ اگر تم نے اِس مصیبت کے وقت ہمارا ساتھ نہ دیا اور سانحہ 9/11 کے دہشت
گردوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لئے ہماری مدد نہ کی تو پھر ہم
تمہارے ملک پر بھی بمباری کر کے اِسے پتھر کے دور میں لے جائیں گے( اور اِس
کے ساتھ ہی بش نے یہ بھی کہا کہ اَب کلیسائی جنگ کی بتدا ہو گئی ہے اَب یہ
بات سمجھ آئی ہے کہ بش نے کلیسائی جنگ کا اشارہ کیوں کیا تھا وہ یہ چاہتے
تھے کہ کسی بھی طرح سے عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان جنگ جھڑ جائے اور
یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں مگر اُس وقت امریکا سمیت دنیا بھر میں
عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے چند ایک پُرتشدد واقعات کے سِوا
عیسائیوں اور مسلمانوں کی دانش مندی کام آئی اور دنیا یقینی طور پر
عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی کسی ہولناک جنگ سے بچ گئی )اور
ہمارے یہاں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ہر امریکی حکم پر اپنا سر
چھکاتے ہوئے ملک اور قوم کے لئے جو اچھا سمجھا وہ اَنہوں نے کیا اور اُس
وقت اِن کی عقل کے مطابق اچھے کئے کا خمیازہ تب سے اَب تک پوری پاکستانی
بھگت رہی ہے اور خدا جانے ہماری کتنی نسلیں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے
والی یہودیوں کی اِس سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکی جنگ میں اپنا خون بہاتے
رہے گی۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ نائین الیون سے قبل جیسی تیسی پاکستان کی معاشی
اور اقتصادی صُورتِ حال رہی اِس سے پاکستان کا کاروبار سُست رفتاری سے ہی
صحیح مگر چل تو رہا تھا مگر اَفسوس کے ساتھ کہ آج یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ
9/11کو امریکا میں پیش آنے والے دہشت گردی کے اُن واقعات میں جس نے جہاں
امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تو وہیں اِس واقعے نے بالخصوص پاکستان کو بھی ہر
لحاظ سے غیر مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اِس سانحہ کے بعد جہاں
پاکستان معاشی و اقتصادی، سیاسی ،مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے غیرمستحکم ہوا
تو وہیں امریکی یہودی صدر بش نے اسرائیل کے پہلے سے تیار کردہ منصوبے کو
عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان کی معاشی اور اقتصادی صُورتِ حال کو سہارا
دینے اور اِسے پریشانیوں سے نکالنے کے لئے اِس کی مالی امداد کی غرض سے
یہودی کے دو بڑے مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو پاکستان میں
گُھسنے اور یہاں پوری طرح اِن کے قدم جمانے کی راہ ہموار کردی۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس مرتبہ صدر بش کے کاندھوں پر سوار ہوکر یہ
ادارے1993 کی نسبت زیادہ بہتر انداز سے پاکستان میں اپنے قدم جمانے میں
کامیاب ہوگئے تھے اور اِس کے بعد معاشی اور اقتصادی لحاظ سے پریشانیوں اور
مسائل میں گھرے پاکستان کو اِن سب سے نجات دلانے اور اِسے سہارا دینے کے
بہانے یہودیوں کے یہ سُود خور ادارے پہلے تو پا کستان میں گھسنے میں کامیاب
ہوئے پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اِس لحاظ سے بھی
بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اِس بار اِن کی پالیسی میں یہ شامل
تھا کہ اَب پاکستان کو سُود کے عوض قرضوں کی صُور ت جکڑ کر اِس کی مالی
امداد کے ساتھ ساتھ اِس کی معیشت کو تباہ کرنا ہے کیونکہ یہ وہ ادارے ہیں
جو اِس طرح کسی بھی مسلم ملک کی اچھی بھلی معیشت کا ستیاناس کرنے کی ایسی
صلاحیت رکھتے ہیں جو کوئی اور ادارہ اتنی آسانی سے نہیں کرسکتا جتنی آسانی
سے یہ دونوں ادارے کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ وہ برباد کرنے کے حربے
استعمال کر کے دنیا کے کسی بھی بالخصوص مسلم ملک کا بیڑا غرق کردیتے ہیں
یوں اسرائیلی یہودیوں کے لئے یہ قابل اعتبار ادارے ثابت ہورہے ہیں جو کسی
بھی مسلم ملک میں اپنے پاؤں جمانے کے بعد اُس ملک کی طاقتور ترین معیشت کو
تباہ و برباد کر کے اِسے نیست ونابود کردیتے ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں
کہ ہمارے ملک کی معیشت میں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کینسر کی طرح
اپنے جال پھیلا چکا ہے اور اَب آہستہ آہستہ اِس نے اِسے اندر ہی اندر مفلوج
کرنا شروع کردیا ہے جیسا اِن دونوں اداروں نے 1985میں تنزانیہ،1998میں
انڈونیشیا اور 2000 میں ارجنٹائن میں اپنے داخلے کے بعد اِن کی معاشی اور
اقتصادی ڈھانچوں کے ستونوں کو اپنے بیجا اور غیر مفید مشوروں سے ہلاکر
رکھنے کے بعد اِن کی ساری معیشت کو تباہ و برباد کردیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ 1985 میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جب تنزانیہ میں اِس
کی معیشت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لی تو اُس وقت تنزانیوی لوگوں کی
سالانہ فی کس آمدنی 309ڈالر تھی مگر جوں ہی یہودیوں کے اِن کمبخت اداروں نے
یہاں اپنے باپاک قدم پوری طرح سے جمائے تو یہاں کے لوگوں کی فی کس سالانہ
آمدنی صرف 210ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکی اور پھر رفتہ رفتہ یہاں کی معیشت کا
یہ حال ہوا کہ یہاں کے لوگوں کی حالتِ زندگی سطح غربت سے بھی نیچے چلی گئی
اور یہاں کا سارا نظام تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔
اور پھر اِسی طرح 1998میں یہی سود خور یہودیوں کے دونوں اداروں آئی ایم ایف
اور ورلڈ بینک نے جب انڈونیشیا میں اپنے ناپاک قدم رکھے تو یہاں کی معیشت
کو غیر مستحکم کرڈالا خیال کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اِنہوں نے انڈونیشیا
میں پیٹرول اور خوراک کی مد میں دی جانے والی رعایت اور سبسڈی کا خاتمہ کر
کے انڈونیشیا میں سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے لئے مشکلات
پیدا کردیں جس سے کئی غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کے اربوں کھربوں ڈالر
ڈوب گئے اور انڈونیشیا کی مضبوط ہوتی معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا۔اور اِس پر
مزید ستم یہ کہ اِن اداروں نے انڈونیشیا کے معیشت دانوں کو اِن کے ملک کی
معاشی اور اقتصادی طور پر غیر مستحکم ہوتی صورتِ حال کو سہارا دینے کے لئے
مشورے دیئے اور چند اہم نکات پیش کئے جن کے مطابق اوّل : جس قدر جلد ممکن
ہوسکے ہر سطح کے ملازمین کی تنخواہیں کم کردی جائیں۔ دوئم:اور جو ملازمین
اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد اِب پنشن وصول کر رہے ہیں اِن کی اِس
سہولت کو ختم کردیا جائے یا تو اِس میں کٹوتی کردی جائے۔ سوئم : سرکاری اور
نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کے اوقات کار میں فوری طور پر اضافہ
کردیا جائے۔ چہارم: ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے
کہ مزدوروں کی نوکریوں کا تحفظ ختم کردیا جائے ۔پنجم:اور سب سے آخر میں یہ
کہ سرکاری بھرتیوں پر فی الفور پابندی لگادی جائے۔
اِن تجاویز پر عمل کرنے کے بعد کچھ ہی دنوں میں اِس ملک میں عوام کو وہ حشر
ہوا کہ وہ روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس گئے مگر ملکی معیشت میں کوئی
استحکام نہیں آیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے تباہ ہوگئی اور اِس کے بعد یہ
دونوں ادارے یہاں سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر دوسرے ملک کی معیشت کا
ستیاناس کرنے کی راہ پر چل پڑے۔
اور پھر اِس کے بعد اِن دونوں اداروں نے اپنا پڑاؤ2000 میں ارجنٹائن میں
ڈالا اور یہاں بھی اِنہوں نے حسب عادت اور روایت وہی کچھ کیا جیسا اِن کا
منصوبہ تھا سب سے پہلے یہودیوں کے اِن اداروں نے یہاں کی حکومت کو یہ مشورہ
دیا کہ وہ مزدوروں کے لئے مرتب کردہ اپنے پروگرام سے200ملین ڈالر ماہانہ کو
کم کر کے زیادہ سے زیادہ160یا اِس سے بھی کم کردے اور حکومت سے یہ کہا کہ
وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں فوری کمی کرنے کے ساتھ ساتھ پنشن میں بھی
کمی کردے۔ یوں کہا جاتا ہے کہ 2001تک ارجنٹائن میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا
تھا کہ بہت سے لوگ اِن انسانیت سوز حکومتی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل کر
مظاہرے کرنے لگے تھے اور ہر طرف افراتفری کا عمل تھا امن وامان تباہ وہ
برباد ہو کر رہ گیا تھا مگر جب کچھ عرصے بعد حکومت کو ہوش آیا تو اِس نے
اپنی غلطی کا ازالہ یہ کہہ کر کیا کہ ہمارے ملک کی اِس ساری صُورت حال کے
ذمہ دار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہیں جن کے ناقص اور فرسودہ مشوروں پر
عمل کر کے ہم نے اپنی معیشت کا بیڑا غرق کیا تو وہیں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ
ظلم و ستم بھی روا رکھا۔
اور اِسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے
بولیویا میں اپنے ناپاک وجود کا زہر گھولا تو یہاں بھی اِن اداروں نے وہی
کیا جو پہلے کرچکے تھے یہاں بھی اِنہوں نے سب سے پہلے عوام میں ہلچل پیدا
کرنے کے لئے اپنا حکم پانی جیسی ایک عام سی چیز کی قیمت دگنا کرنے کی سازش
تیار کی اور اِس پر زائد ٹیکس عائد کردیا جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی
اور وہاں کے عوام سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے شعبوں
میں بھی اِن کی مداخلت جاری رہی اور اسی طرح یہاں کی معیشت کا بھی بیڑا غرق
ہوگیا۔
آج ہمارے سامنے دنیا کے اِن چند ممالک کے مثال موجود ہے کہ یہودیوں کے اِن
دونوں اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈبینک نے یہاں اِن ممالک میں اِن کے ہمدرد
بن کر گھسنے کے بعد اِن ممالک کی معیشت کا اپنے ناقص اور فرسودہ مشوروں اور
اپنی تجاویز سے کیا حشر کیا اور اِن دونوں اداروں نے اِن ممالک کی معیشت کی
تباہی کس کس انداز سے جاری رکھی کہ اِن ملکوں کی جہاں معیشت کا بیڑا غرق
ہوتا رہا تو وہیں وہاں کے عوام بھی اپنے سلب ہوتے بنیادی حقوق کے حصول کے
خاطر حکومتوں کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اور آج ایسا ہی حال کچھ ہمارے ملک کا بھی ہوچکا ہے کہ یہودیوں کے اِن دونوں
سود خود اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے ملک کے قومی خزانے سے لیکر
ایک غریب کی جھونپڑی میں بنے باورچی خانے تک اپنے پنجے پوری طرح سے گاڑ چکے
ہیں اور اَب ہمیں اِن کے چنگل سے آسانی سے نکلنا محال ہے کیونکہ اَب یہ
پاکستان کو بھی پوری طرح سے غیر مستحکم کئے یہاں سے نہیں نکل سکتے اِس لئے
کہ یہ اپنے اُس گریٹ اسرائیل کے ایجنڈے پر کاربند ہیں کہ جو اسرائیل کا
دشمن ہے اِس کی خوشحالی کسی طور بھی برداشت نہیں کی جائے گی اور یوں یہ
پاکستان میں اپنے ناپاک قدم جمانے اِس کی سُود کے عوض قرضوں اور مالی امداد
کی صُورت میں اِسے بھی تباہ وبرباد کر کے ہی نکلیں گے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اِن سازشوں کو سمجھنے کے لئے آج اگر ہم زیادہ
پیچھے نہ جائیں صرف سال2010کا ہی ایک جائزہ لیں تو ملک میں مجموعی طور پر
150فیصد سے بھی تجاوز کرجانے والی مہنگائی سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل
نہیں ہوگا اِس میں بھی اِن ہی اداروں کی کارستانیاں شامل ہیں اور اِس کے
ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کے باوجود بھی ملکی
معیشت کو سہارا دینے کے لئے آر جی ایس ٹی اور فلڈسرچارج جیسے زائد ٹیکسوں
کے نفاذ سمیت پیڑولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور ملک میں ڈاؤن
سائزنگ اور نج کاری کرنے کے لئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے ذمہ دار بھی
یہودیوں کے یہی سُود خور ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ہیں۔
اگرچہ ابھی تو اِن اداروں کے مشوروں اور تجاویز پر عمل کرنے کو ہمارے
حکمران اچھا سمجھ رہے ہیں مگر کل جب یہی ادارے ہمارے پورے ملک کو اپنے اِن
ہی ناقص اور فرسودہ مشوروں کی بنیاد پر سودی قرضوں میں پوری طرح جکڑ کر اور
ہماری معیشت کا بیڑا غرق کر کے جائیں گے تو تب ہمارے حکمرانوں کو ہوش آئے
گا تو بہت دیر ہوچکی ہوگی اور پانی سر سے بہت اُونچا ہوچکا ہوگا۔ جب اِن کے
ہاتھ سوائے پچھتاوے کہ اور کچھ نہیں آئے گا۔ لہٰذا ضرروت اِس امر کی ہے کہ
اَب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ملک وسائل سے
اپنی ضرورتیں پوری کریں بجائے اِس کے کہ یہ کاہلوں کی طرح پڑے رہے اور
فقیروںکی طرح ہاتھوں میںکشکول اٹھائے اِن اداروں(آئی ایم ایف اور لڈ بینک
)سے مانگتے رہیں اور اِن کی سازشوں کا شکار ہوکر ملک کا ستیاناس کردیں
ہمارے حکمرانوں کو اِن اداروں کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا اور اِن سے مانگنے
اور کھانے کی عادت چھوڑنی ہوگی ورنہ یاد رہے کہ یہ دونوں ادارے آئی ایم ایف
اور ورلڈبینک پاکستان کی بھی تنزانیہ،انڈونیشیا اور ارجنٹائن جیسی تباہ
کاریاں کرکے یہاں سے جائیں گے۔ |