سیاسی حریف اور سوشل میڈیا!

 ڈرائیونگ سیٹ ٹی وی اینکر نے سنبھال رکھی تھی، پروگرام میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے نئے رجحانات تلاشنا ضروری ہوتا ہے، مہمان سیاستدان ساتھ والی سیٹ پر تشریف فرما تھے، شہر میں سفر بھی ہو رہاتھا اور باتیں بھی۔ اچانک مہمان سیاستدان نے کہا کہ ہمارا ’’سیاسی حریف ‘‘ آ رہا ہے، دونوں نے قہقہہ لگایا۔ دراصل ایسے میں کیمرہ پچھلی نشست پر ہوتا ہے، یوں اگلی سیٹوں پر بیٹھے دونوں لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں اور سامنے کا منظر بھی۔ دیکھنے والوں کی نگاہیں سامنے سڑک پر تھیں کہ شاید کوئی سیاسی حریف سامنے آ رہا ہو گا، یا جارہا ہوگا، مگر اس میں قہقہہ لگانے کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ تاہم اس لمحاتی کہانی میں گاڑی کے سامنے اُسی سمت میں جاتے ہوئے ایک گدھے کے کان اور سر کا کچھ حصہ نظر آیا، جس سے اندازہ ہوا کہ مہمان سیاسی شخصیت نے کس ہستی کو اپنا سیاسی حریف قرار دیا تھا۔ ٹی وی کوچلتے پھرتے انٹرویو دینے والے صاحب اپنی آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہونے والی حکومت کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، مذہبی پس منظر رکھنے والے اور معتبراور سنجیدہ وزیر تھے۔ وہ عام طور پر کرپشن یا کسی اور الزام کی زد میں بھی نہیں، وزارت بھی ان کی بہت اہم تھی، ماضی بھی بظاہر بے داغ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی زبان سے ایک گدھے کو سیاسی حریف کہنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ یہ ہمارا عمومی رویہ بن گیا ہے کہ اپنے ہر قسم کے مخالف کو کسی بھی ناپسندیدہ جانور سے تشبیہ دینے میں ہم لوگ دیر نہیں کرتے۔ مختلف جانوروں کو ہم اچھے بھلے انسانوں سے ملا دیتے ہیں۔

یہاں معاملہ مختلف ہے، یہ نہیں ہوا کہ کسی ایسے ہی جانور کو دیکھ کر کسی سیاسی مخالف کا نام زبان پر آگیا، بلکہ ایک ایسے معتوب جانور کو اپنا سیاسی حریف قرار دیا گیا، جسے گزشتہ سالوں میں حضرت انسان نے کھانے سے بھی دریغ نہیں کیا، معاملہ اس وقت زیادہ کھل کر سامنے آنے لگا جب جگہ جگہ سے گدھے کی کھالیں اتارنے کے واقعات سامنے آنے لگے۔ خیر وہ ایک الگ قصہ ہے، گدھے کھانے سے انسانی عادات پر کیا فرق پڑا ، یہ بھی الگ کہانی ہے۔ مگر ایک گدھے کو اپنا سیاسی حریف قرار دے دینا کافی جرات مندانہ قول ہے، جو بے اختیار ہی صاحب کی زبان سے ادا ہوگیا۔ یہ الفاظ ادا کرتے وقت اُن کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ حریف تو ہم جنس ہی ہو سکتا ہے، خاص طور پر سیاسی حریف۔ دراصل جن لوگوں نے قوم کی تربیت کرنا تھا،و ہی قوم کا مزاج بگاڑنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، ہمارے سیاستدان جو کہ بلاشبہ قوم کے رہنما ہیں، اُن کے نمائندہ ہیں، اُن کے حکمران ہیں، اُن کا فرض ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کا درست حق ادا کرتے، انہیں اچھے بر ے کی تفریق کا بتاتے، انہیں کھرے کھوٹے میں تمیز سکھاتے، انہیں بھلے برے کی پہنچان دیتے۔ مگر بدقسمتی سیاسی رہنماؤں نے اپنی نجی محفلوں سے لے کر جلسوں تک میں سیاسی حریفوں کو اس طریقے سے مخاطب کیا کہ کارکن کی نگاہ میں بھی مخالف سیاسی رہنما صفر ہو کر رہ گیا، گویا اس کا احترام یا حفظِ مراتب کی بجائے اُسے گالی بھی دی جاسکتی ہے، اُس پر جوتی بھی اچھالی جا سکتی ہے، اس پر سیاہی بھی پھینکی جاسکتی ہے، اور اسے گولی کانشانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچی ہے تو اسے یہاں تک پہنچانے میں بہت سا کردار ہمارے سیاسی رہنماؤں کا ہے۔

سیاسی کارکن بھی یقینی طور پر رہنمائی کے لئے اپنے سیاسی قائدین کی طرف ہی دیکھتے ہیں، وہیں سے سیکھتے ہیں۔ سیکھ جانے کے بعد اب اظہار کا جو ہتھیار کارکن کے ہاتھ لگا ہے، اس سے قبل کبھی نہ تھا، وہ ہے سوشل میڈیا۔ کارکن بھی اپنے قائدین کی طرح مخالفین کو مختلف ناموں سے پکارنے، مختلف جانوروں سے تشبیہ دینے جیسے مقامات سے بہت آگے گزر گئے ہیں، وہ بات کا آغاز ہی گالی سے کرتے ہیں، چند لمحوں میں مخالف کی ماں بہن تک بات پہنچ جاتی ہے،حتیٰ کہ مخالف سیاسی رہنماؤں پر بھی ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں، جو کبھی کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں آئے ہوں گے۔ نفرت کی یہ آگ سینوں میں سلگ ہی نہیں رہی ، اس کی چنگاریاں بھڑک کر دامن میں چھید کرنے لگی ہیں، خون کھولنے لگے ہیں، نفرت دشمنی کی سرحد تک پہنچ رہی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ معاملات کس انجام کو پہنچیں گے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں سامنے آنے والے ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے، اس سے یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے، کہ سوشل میڈیا کی پہنچ کہاں تک ہے۔
 
خانیوال کے چھوٹے سے شہر جہانیاں کے ایک گاؤں کے نوجوانوں کا سوشل میڈیا پر ہی تنازع سامنے آیا، بات موبائل سے نکل کر میدان میں آگئی، آمنے سامنے آنے سے فریق دو افراد پر ہی مشتمل نہ رہے، بلکہ ان کے دوست بھی شامل ہوگئے۔ لڑکے کالج کے تھے، دوستوں سے بھی بات آگے بڑھی تو رشتہ دار بھی ’فیصلہ‘ کر دینے کے لئے میدان میں کود پڑے۔ ایک روز لڑائی ہوئی، مگر بات ہاتھا پائی اور دھمکیوں تک رہی، دوسرے روز دست وگریبان اور ہاتھوں لاتوں کا استعمال ہوا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کو اطلاع کی گئی، مگر معاملہ شاید پولیس کی نگاہ میں اتنا سنگین نہیں تھا کہ مداخلت کی جاتی، تاہم جب تیسرے روز بھی میدان سج گیا تو بات بڑھ گئی، نوبت ہاتھوں، ڈنڈوں ، سوٹوں سے نکل کر فائرنگ تک آگئی، ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا، متعدد زخمی ہوگئے، جن میں تین شدید زخمی بتائے جاتے تھے۔ بات تو یہاں بھی ختم نہیں ہوگی، دشمنی کے آگے بڑھنے اور بدلہ وغیرہ لینے کے امکانات رد نہیں کئے جاسکتے، جو ایک دوسرے کی بات سوشل میڈیا پر برداشت نہیں کر سکے وہ ایک قتل اور زخمیوں کو کیسے برداشت کریں گے؟ دوسری صورت میں تھانے کچہری کا معاملہ شروع ہو جائے گا، جس کی انتہا نہ جانے کہاں پر ہوگی؟

سوشل میڈیا پر اگر کسی نے اپنے کسی پسند کے (یا واقعی کسی بہت اچھے انسان اور) سیاست دان کی حمایت میں بہت ہی معقول جملہ بھی لکھ دیا ، مخالفین نے اس سے بھی کیڑے نکالنا شروع کردیئے ، صرف کیڑے نکالنے پر بات ختم نہیں ہوتی، دیکھتے ہی دیکھتے عام محبت بھرا جملہ نفرتوں اور غلاظتوں تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسی کسی پوسٹ کو دو منٹ تک بھی برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، مغلظات و مکروہات اور فضولیات کاسلسلہ اس قدر دراز ہو جاتا ہے کہ انسان سر پیٹ کر رہ جاتا ہے، توانیاں الگ ضائع ہوتی ہیں، وقت کا ضیاع الگ ہے، بہتری کیسے آئے گی؟ رہنمائی کون کرے گا؟ قوم کے رہنماؤں کا حال سامنے ہے، کیا بہتری کے لئے صرف دعاؤں پر ہی دارومدار کرنا ہوگا؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.