ہیروشیما اور ناگاساکی: تاریخ کے وہ زخم جو آج بھی ہرے ہیں
(Erum Jamal Tamimi, Karachi)
ہیروشیما، 6 اگست 1945 — آج کا سورج کچھ الگ سا تھا۔ صبح 8 بج کر 15 منٹ کا وقت تھا۔ جاپان کے ایک پُرسکون شہر میں زندگی اپنے معمول کے مطابق رواں تھی۔ بچے اسکولوں کی جانب رواں تھے، خواتین گھروں کی صفائی میں مصروف تھیں اور بازار آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔ مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ آسمان کی بلندیوں پر موت خاموشی سے پرواز کر رہی ہے — ایک ایسی پرواز، جو لمحوں میں ہر چیز کو راکھ میں بدل دینے والی تھی۔
|
|
ہیروشیما، 6 اگست 1945 — آج کا سورج کچھ الگ سا تھا۔ صبح 8 بج کر 15 منٹ کا وقت تھا۔ جاپان کے ایک پُرسکون شہر میں زندگی اپنے معمول کے مطابق رواں تھی۔ بچے اسکولوں کی جانب رواں تھے، خواتین گھروں کی صفائی میں مصروف تھیں اور بازار آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔ مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ آسمان کی بلندیوں پر موت خاموشی سے پرواز کر رہی ہے — ایک ایسی پرواز، جو لمحوں میں ہر چیز کو راکھ میں بدل دینے والی تھی۔ یہ پرواز امریکی طیارہ Enola Gay کی تھی۔ اس کے اندر تھا دنیا کا پہلا ایٹم بم "لِٹل بوائے" جو کسی ویرانے پر نہیں، بلکہ لاکھوں انسانوں کے درمیان گرانا مقصود تھا۔ جیسے ہی بم گرا، ایک ہولناک چمک، زور دار دھماکہ اور پھر ایک ایسا سناٹا چھا گیا جو صدیوں پر محیط دکھوں کی کہانی سناتا ہے۔ صرف چند لمحوں میں 80,000 سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ کہنے کو تو یہ ایک شہر کی تباہی تھی، مگر درحقیقت یہ انسانی تاریخ کا ایک نیا، تاریک باب بن گیا۔ ہیروشیما کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ صرف تین دن بعد 9 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی بم "فیٹ مین" گرا دیا۔ یہ حملہ صبح 11 بج کر 2 منٹ پر ہوا، جس میں مزید 39,000 جانیں لقمہ اجل بنیں۔ شہر میں آگ، راکھ، ریڈی ایشن اور انسانی چیخوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ 15 اگست 1945 کو جاپان نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ دوسری جنگِ عظیم تو ختم ہو گئی، مگر ہیروشیما اور ناگاساکی دنیا کے نقشے پر دو ایسے مستقل زخم بن کر ابھرے جو آج بھی ٹیسیں دیتے ہیں۔ اندازاً ہیروشیما میں 1,40,000 اور ناگاساکی میں 74,000 افراد لقمۂ اجل بنے، اور جو بچ گئے وہ بھی ریڈی ایشن کی اذیت میں سسکتے رہے۔ متاثرہ نسلوں کے لیے یہ بم محض ایک حملہ نہ تھا بلکہ ایک بڑاالمیہ تھا — خواب جھلس گئے، زندگیاں مٹ گئیں۔ عالمی برادری کی طویل خاموشی کے باوجود متاثرین کی آوازیں کبھی مدھم نہ ہوئیں۔ سال 2024 میں ان زندہ بچ جانے والوں کی تنظیم "نِیہون ہیدانکیو" کو نوبیل امن انعام سے نوازا گیا ، ان کی دہائیوں پر محیط اُس جدوجہد کے اعتراف میںجو انہوں نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف خبردار کرنے کے لیے کی۔ ہیروشیما کے میئر کازومی ماتسوی نے نوبیل انعام کی تقریب میں دنیا کو ایک مرتبہ پھر متنبہ کیا کہ انسانیت ایک بار پھر ایٹمی طاقت کے فریب میں گرفتار ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: "آج کئی ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو قومی سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں، جو کہ تاریخی زخموں سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔" ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے 2021 میں "معاہدہ برائے ممنوعیتِ ایٹمی ہتھیار" (TPNW) نافذ کیا گیا، جسے 70 سے زائد ممالک نے تسلیم کیا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ امریکہ، روس اور دیگر ایٹمی طاقتوں کی طرح جاپان نے بھی اس پر دستخط نہیں کیے۔جاپانی حکومت کا مؤقف ہے کہ امریکہ کے ایٹمی ہتھیار اس کی سلامتی کو یقینی بناتے ہیں — مگر یہ مؤقف خود ہیروشیما اور ناگاساکی کے زخموں سے متصادم محسوس ہوتا ہے۔ 2025 میںبھی ہیروشیما کی گلیوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ عام شہریوں نے عالمی قیادت سے اپیل کی ہے کہاسلحے کی دوڑ کو روکا جائے اور امن کو ترجیح دی جائے! اس موقع پر ایک سوال ابھرتا ہے — کیا ہم تاریخ سے سیکھیں گے؟اوراگر آپ اُس وقت کے امریکی صدر ہوتے اور آپ کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہوتا جو جنگ ختم کر سکتا، مگر ہزاروں معصوم جانیں لیتا تو کیا آپ بھی وہی فیصلہ کرتے؟ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت جنگ توجیت لی گئی… مگر انسانیت ہار گئی۔ہیروشیما اور ناگاساکی صرف دو شہر نہیں — یہ دو سوال ہیں، دو چیخیں ہیں، دو یادداشتیں ہیں۔طاقت تب ہی معنی رکھتی ہے، جب اس کے ساتھ ایک ایسا دل ہو… جو انسانوں کے دکھ کو محسوس کر سکے! |
|